روز نامہ جنگ کے 14 جنوری کے
صفحہ اَوّل پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کے حوالے سے یہ خبر شائع
ہوئی کہ اُنہوں نے ملتان میں 18 کلومیٹر طویل میٹرو بس منصوبے کی منظوری دے
دی۔ اس کا روٹ زکریا یو نیورسٹی سے چوک کمہاراں والا تک ہوگا۔ اس پراجیکٹ
پر 30 ارب روپے کی لاگت آئے گی ۔
اس منصوبے کی باز گشت اس سے پہلے بھی سنائی دی گئی تھی مگر عمران خان کے
دھرنوں اور کچھ سیاسی حالات نے شاید کچھ عرصہ کے لئے اس ’’عظیم منصوبے‘‘ کو
پسِ منظر میں دھکیل دیا تھا ۔ اس عارضی معطلی کو میرے سمیت بہت سے لوگوں نے
یہ سمجھا کہ میاں صاحب کو کسی نے قائل کر لیا ہے کہ ملتان کے لئے یہ منصوبہ
مناسب نہیں مگر یہ محض خام خیالی تھی۔
جنوبی پنجاب اس کے اپنے علاقے سے منتخب ہونے والے اور بالخصوص پاکستان کے
دوسرے حصوں سے با لعموم حکمرانوں کی عدم دلچسپی سے بہت سی محرومیوں کا شکار
ہے ۔ میاں شہباز شریف اگر 18 کلو میٹر لمبی میٹرو بس ٹریک کے ’’ اصولی
فیصلے‘‘ پر بے اصولی کر لیں ، نظرثانی کر کے جنوبی پنجاب پر صحت اور تعلیم
کے شعبوں میں یہ خطیر رقم خرچ کر دیں تو یہ خطّہ ان کا ہمیشہ احسان مند رہے
گا ۔میاں صاحب دردِ دل رکھنے والے ، معاملہ فہم اور طویل سیاسی تجربہ رکھتے
ہیں ۔اگر وہ میٹرو بس منصوبے کا زمینی حقائق سامنے رکھ کے سروے کروائیں تو
اس مختصر روٹ کے لئے اتنی بڑی رقم خرچ کرنا قومی بد دیانتی ہو گی ۔سابق
وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے شہر کو اپنے گھر کی بَم پروف ’’سرکاری
دیوار‘‘ کے علاوہ جو سڑکیں اور فلائی اوورز دیے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں
۔میٹرو بَس کے مجوزہ روٹ میں انہیں کے دور میں تعمیر ہونے والی سڑکیں ،جو
ابھی تکمیل کے مراحل کے بعد ہنی مون پریڈ بھی مکمل نہیں کر پائیں پھر سے
توڑ دی جائیں گی۔ یونیورسٹی سے 9 نمبر چونگی تک سڑک ابھی مکمل ہوتی پھر رہی
ہے ۔9 نمبر چونگی سے چوک کمہا رانوالا تک دو عدد فلائی اوورز سمیت ایک سڑک
ابھی زیرِ تعمیر ہے ، جو تھی تو مکمل مگر پاکستان کے روایتی منصوبہ سازوں
کی نذر ہو کے سیوریج بچھانے کے تکلیف دہ مراحل سے دو چار ہے ۔ اس کے علاوہ
واپڈا ٹاؤن بائی پاس روڈ سے ایک بڑی کشادہ سڑک چوک کمہارانوالا تک پہلے ہی
بنا دی گئی ہَے۔ واپڈا ٹاؤن بائی پاس، خانیوال روڈ سے ایک سڑک وہاڑی روڈ سے
ملا کر ، بہاولپور بائی پاس بنایا گیا ہے۔وہاڑی چوک، نو بہار پل سے نہر کے
اوپر ایک سڑک پیراں غائب روڈ سے منسلک کر دی گئی ہے جو چوک کمہا رانوالا تک
جاتی ہے۔ زکریا یونیورسٹی سے چوک کمہارانوالا تک آنے کے لئے دو کشادہ سڑکیں
موجود ہیں تو کیوں نہ میٹرو منصوبہ ترک کر کے ملتان نشتر ہسپتال اور کارڈ
یا لوجی سنٹر کا بوجھ کم کرنے کے لئے ڈیرہ غازی خاں، لیہ ، تونسہ، اور ڈیرہ
اسماعیل خاں میں اسی قسم کے ہسپتال بنا دیے جائیں۔وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز
شریف کسی روز بغیر پروٹوکول کے مریض بن کر ان دو ہسپتالوں میں جائیں تو
انہیں اندازہ ہو کہ لوگ کن مسائل کا شکار ہیں ۔نشتر ہسپتال کی ایمر جنسی
میں اکثر اوقات ایک بیڈپر دو دو مریض پائے جاتے ہیں ۔یہ دونوں بڑے ہسپتال
پورے جنوبی پنجاب کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں ۔مظفر گڑھ، علی پور،جتوئی، کوٹ
ادو،تونسہ ، لیہ، کروڑ لعل عیسن،چوک سرورشہید،ڈیرہ اسماعیل خاں،ڈیرہ
غازیخاں،راجن پور، کوٹ مٹھن، اور کشمور ان شہروں کے قصبوں اور مضافاتی
علاقوں کے مریضوں کو ملتان آنا پڑتا ہے۔ ان شہروں میں ضلعی اور تحصیل سظح
کے ہسپتال سہولتوں سے محروم مریضوں کا منہ چڑاتے ہیں۔مستند ڈاکٹرز خود بھی
ان شہروں سے تعلق رکھتے ہیں ،یہاں رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ بڑے شہروں کا
رخ کرتے ہیں ۔حیرت ہے جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی پر جو اپنے علاقے کے
تعمیر و ترقی کے لئے میاں صاحب کو قائل نہیں کر سکے۔ میاں صاحب کو شاید
جنوبی پنجاب کے کسی رکنِ اسمبلی نے یہ بھی یاد دہانی نہیں کروائی کہ حالیہ
سیلاب کے موقع پر ملتان مظفر گڑھ روڈ پر جو شگاف ڈالے گئے تھے ان پر کوئی
کام نہیں ہوا جس سے اس مصروف شاہراہ پر شام کے بعد گاڑیوں کی لمبی قطاریں
معمول بن چکا۔ہیڈ محمد والا پر جزوی کام ہوا ہے ، مکمل نہیں ۔
ہسپتال بنوانے کے علاوہ سیلاب کی روک تھام کے لئے حفاظتی اقدامات ایک اور
بڑا منصوبہ ہے ۔جنوری تک گذشتہ سال کے سیلاب کے زخم تازہ ہیں اور ہم پھر
سوئے ہوئے ہیں ۔2015 کے مُون سُون سے پہلے اگر 30ارب روپے سیلاب کی روک
تھام کے منصوبوں پر خرچ ہو جائیں یہ بھی عظیم کام ہو گا ۔دہشت گردی کے
خطرات سے نبر آزما ہونے کے لئے چار دیواری اور باقی بنیادی سہولتوں سے
محروم ہزاروں تعلیمی اداروں کا حق دوسری طرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ قوم کے
ان بچوں پر یہ 18 کلو میٹر میٹرو بس منصوبہ قربان کر دیا جائے۔
میاں صاحب کو مشورہ دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مشورہ قومی امانت
ہے، دوست وہ نہیں جو ہر بات میں ہاں سے ہاں ملائے،وہ ہے جو اچھے برے کا فرق
بتائے۔یس باس انسانوں کا شیوہ نہیں ۔
میاں صاحب کو اگر اس کے نقصانات بتائے جائیں اور کوئی متبادل منصوبے دیے
جائیں تو جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔میاں صاحب
! ہمیں میٹرو بس نہیں چاہیے! |