پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
(عابد محمود عزام, karachi)
اظہار رائے کی نام نہاد آزادی کے خود ساختہ
نظریے کی آڑ میں فرانس کے دریدہ دہن جریدے”چارلی ہیبڈو“ نے جس طرح کائنات
کی سب سے محترم، مقدس اور محسن شخصیت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
اقدس میں گستاخی کر کے اپنی پست و غلیظ سوچ آشکار کی ہے، وہ انتہا پسندی کی
اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جریدے کے مالکان کی یہ گستاخانہ حرکت نہ صرف صحافتی
دہشت گردی ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بدترین و سنگین ترین دہشت گردی ہے۔
متعصب اہل مغرب کی ہلہ شیری پرگستاخ جریدے کی جانب سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ”خاکے“ شائع کیے جانے پر پورا عالم مضطرب اور غم و غصے
میں مبتلا ہے۔ ہر مسلمان کا دل انتہائی رنجیدہ ہے۔ رنجیدہ ہونا ایک فطری
امر ہے، کیونکہ مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو، خدا کے بعد اس کے پاس سب
سے مضبوط سہارا شفیع المذنبین کی ذات اطہر کا ہی سہارا ہوتا ہے۔ حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے نزدیک اپنی جان، مال، دولت اور تمام رشتہ
داروں سے بھی عزیز ہیں۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کی ناموس کے معاملے میں ہر
مسلمان کی زبان پر ”فداک ابی و امی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“،
”میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے الفاظ ہوتے
ہیں۔ ہر مسلمان کی پوری جمع پونچی، ٹوٹل اثاثہ اور کل کائنات وہی ذات ستودہ
صفات ہے، جس کا نام نامی لیتے ہوئے زندگی کا خوشگوار ترین احساس ہوتا ہے۔
بقول منیر نیازی مرحوم
میں جو اک برباد ہوں، آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمد شاد رکھتا ہے مجھے
مغرب کے قوانین اور نظریے سب سے انوکھے و نرالے ہیں، وہاں ہر چیز کے حقوق
متعین ہیں،لیکن وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے اس روئے زمین کو اپنی روشن وارفع
تعلیمات سے منور کیا، ان کی کھلے عام توہین کی جاتی ہے۔ کیا کسی بھی یاوہ
گو، دریدہ دہن، خبطی شخص کو ان مقدس شخصیات کی ذات عالی پر کیچڑ اچھالنے کا
”حق“ حاصل ہونا نام نہاد آزادی اظہار رائے کا حق ہے؟ اگر اسی کو آزادی
اظہار رائے کا حق کہتے ہیں تو پھر مغرب کی اس سے بڑی منافقت کیا ہوگی کہ
ایک طرف ہولوکاسٹ کے تاریخی افسانے پر اظہار رائے کی آزادی سلب اور زبان
کھولنا سنگین جرم، جبکہ دوسری جانب آزادی اظہار رائے کے نام پر محسن
انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا حق قرار دیا جائے۔ دراصل مغرب نے
اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمیشہ منافقت سے کام
لیا ہے۔ یہ نہ صرف اہل مغرب کی منافقت ہے، بلکہ ان کی ذہینت میں بھری وہ
غلیظ سوچ ہے، جیسے وہ نام نہاد تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہادی
عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخی کرنا ان بدبختوں کی فطرت
کا حصہ ہے، جس پر یہ ہمیشہ سے عمل کرتے آئے ہیں۔
کہاں رفعت محمد کی، کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت تیری بے چین فطرت ہے
یہ حقیقت ہے کہ گستاخوں کی یہ بے چینی صرف اورصرف اسلام میں روزفزوں ترقی
کی وجہ سے ہے۔ جوں جوں یہ گستاخ لوگ اسلام اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ
وسلم کے خلاف اپنی پراگندہ و بدبودار سوچ کے ذریعے گھناﺅنے ہتھکنڈے استعمال
کرنا شروع کرتے ہیں توں توں اسلام میں دلچسپی و مسلمانوں کی تعداد میں تیزی
سے اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چند سال میں مسلمان کی تیزی سے بڑھتی
ہوئی تعداد اس بات کی گواہ ہے۔ نائن الیون کے بعد جوں ہی اہل مغرب نے اسلام
کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا، تو ساری دنیا کی توجہ اسلام کی طرف مبذول ہوئی
اور مغرب میں لوگوں نے اسلام، قرآن اور اسلامی تعلیمات اور حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا۔
فطری طور پراس دلچسپی نے ساری دنیا میں قبولیت اسلام کا دروازہ کھول دیا۔
اسلام کے مطالعے کے بعد لوگ اسلام سے متاثر ہوکر جوق در جوق اسلام کے دائرے
میں داخل ہونے لگے۔ اسلام کے پھیلتے دائرے کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی
خاتون صحافی ”اوریانہ فلاسی“ کہتی ہے کہ آنے والے بیس سالوں میں پورے یورپ
کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے، کیونکہ ان شہروں میں
مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ ایک متنازعہ مصنف
میشل ہولیبیک نے اپنے ایک ناول میں ایک فرضی ، تخیلاتی خاکہ کشی کی ہے۔ وہ
2022 ءکے فرانس کا منظر تصور کرتے ہوئے لکھتا ہے:” ایک مسلمان صدر اقتدار
میں آ جاتا ہے اور فرانس کے تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار
دیتا ہے، ساتھ ہی خواتین کے کام کرنے پر پابندی عاید کر دیتا ہے اور فرانس
میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی جاتی ہے۔“
اسلام کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت و ترقی کے باعث دشمنانِ اسلام کے سینوں پر
سانپ لوٹ رہے ہیں اور اسلام کے بڑھتے کاروانِ نور کو گل کرنے کی ہرممکنہ
کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لاکھ بھونڈے
حربوں کے باوجود یہ بدبخت لوگ اسلام کی پھیلتی ہوئی کرنوں کو روکنے میں
ناکام رہے ہیں، یہ ناکامی ہی ان کی بے چینی کا سبب بن رہی ہے، جس کے باعث
یہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنے گھٹیا حربے آزماتے ہیں، لیکن ناکام
لوٹتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ چاند کی چاندنی کتوں سے گوارا نہیں ہوتی،
لیکن وہ اس کو ماند و مدہم بھی نہیں کر سکتے، اس طرح بے بس کتے اپنی بے چین
و خصلت بد کا مظاہرہ چاند کو بھونک کر کرتے ہیں۔ بھونکنا چونکہ کتوں کی
فطرت ہے، اس لیے یہ قیامت تک چمکتے چاند کو بھونکتے رہیں گے، لیکن ان کے
بھونکنے سے نہ تو آج تک چاند کی چاندنی ماند پڑی ہے اور نہ ہی قیامت تک اس
میں کوئی کمی آئے گی۔
آپ علیہ السلام کی شان مقدس میں گستاخی کرنے والے لوگ وجہ کائنات، رسالت
مآب، محسن انسانیت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کرنوں کو
پھیلتا ہوا دیکھ کر چیں بجبیں و غمزدہ ہوتے ہیں۔ اسلام کی روشنی کا دن بدن
تیزی کے ساتھ پھیلنا ان کو گوارا نہیں ہوتا، اسلام کی روزبروز ترقی ان کو
ایک آنکھ نہیں بھاتی، لیکن اسلام کے پھیلتے ہوئے نور کو روک بھی نہیں سکتے۔
پھر یہ لوگ اپنی پریشانی، بے بسی، بغض و عناد اور اپنی خصلت بد کا اظہار
انسان کو انسانیت سکھانے والی سب سے محترم و عظیم ذات حضرت محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کر کے کرتے ہیں، لیکن یہ بات واضح
ہے کہ یہ بدبخت لوگ جیسے بھی حربے استعمال کر لیں، لیکن اسلام کی پھیلتی
روشنی کو کسی صورت نہیں روک سکتے، ہاں قیامت تک مختلف حربوں کے ذریعے اپنی
بدبختی کا اظہار کرتے رہیں گے، جس سے نہ تو آج تک اسلام کو کوئی نقصان
پہنچا ہے اور نہ ہی قیامت تک پہنچے گا۔ سورہ صف میں ارشاد ہے:یہ (منکرین
حق) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں)سے بجھادیں،جبکہ
اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے، اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ وہ
ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر
غالب و سربلند کر دے، خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔“
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا |
|