.... دہلی الیکشن :جیتے تونریندرمودی ،ہارے توکرن بیدی
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEW DELHI )
رام لیلامیدان کی ریلی میں بی جے
پی نے ایک لاکھ افرادکی شرکت کی امیدکی تھی لیکن وہ ریلی ایسی فلاپ ہوئی کہ
65لاکھ کرسیاں خالی رہ گئیں۔باوجودیکہ پڑوس کی ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ
بھی جم غفیرساتھ لائے تھے۔ اس ریلی کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اپنے خطاب کے
دوران وزیراعظم نے عوام سے یہ اپیل کی ’’ جن لوگوں نے آپ کوایک سال تک
لٹکائے رکھاآپ انہیں ضرورسزادیں‘‘۔لیکن شایداس وقت وہ یہ بھول گئے کہ
اسمبلی کے تعطل کیلئے ذمہ دار خودان کی پارٹی بی جے پی ہے۔اسمبلی کی تحلیل
یاتعطل کافیصلہ مرکزی کابینہ کاہوتاہے چنانچہ مئی 2014سے بی جے پی مرکزمیں
اقتدارمیں ہے۔اورخودنریندرمودی بحیثیت وزیراعظم کابینہ کے لیڈرہیں تواس
مئی2014سے دسمبر2014تک اسمبلی کے تعطل کے ذمہ دارتووہ خودہی ٹھہرے ۔(ویسے
تونریندرمودی جی اپنے انتخابی جلسوں میں بغیرسرپیرکے بیان دینے کے لئے
مشہور ہیں چنانچہ پٹنہ کی ریلی میں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سکندرکوبھی
بہارپہونچادیاتھا)آخرکاروزیراعظم کی بات اوران کی اپیل عوام کی سمجھ میں
آگئی۔دہلی میں لگے بڑے بڑے ہورڈنگس میں’ اب نہ ہوگاناری پروار،اب کی
بارمودی سرکار‘‘جیسے جھوٹے پیروپگنڈے لوگوں کویادہیں۔وزیراعظم کی اس فلاپ
ریلی کے بعدخودبی جے پی کے انٹرنل سروے نے اس کے ہوش اڑائے جس میں وہ
اقتدارسے کوسوں دورتھی۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلاپ ریلی کے بعداچانک
وزیراعظم ،دہلی کے انتخابی منظرنامہ سے غائب ہوگئے۔اس پرپردہ ڈالنے کے لئے
بی جے پی نے ’’بیدی پلان‘‘ تیارکیااورکجریوال کاجواب اناہزارے کے گھرسے ہی
لے آئی۔اس طرح معروف مبصرچیتن بھاگوت کی زبان میں’’ اناہزارے کے اسکول کے
سارے اسٹوڈنٹس کاپلیسمنٹ ہوگیا‘‘۔اوراب اس کی یہی پلاننگ ہے کہ اگرکامیابی
ملی تومودی لہرکی بات کہی جائے گی اورشکست ہوئی توساراٹھیکراکرن بیدی کے
سرپھوڑاجائے گا۔یعنی’’جیتے تونریندرمودی،ہارے توکرن بیدی‘‘۔
اب تک جہاں بھی ریاستی اسمبلی الیکشن ہوئے وہاں بی جے پی نے اپناسی ایم
امیدوارطے نہیں کیاتھااوردلیل یہ دیتی رہی تھی کہ منتخب ممبران اسمبلی کاہی
استحقاق ہے کہ وہ اپنے لیڈرکی تعیین کریں چنانچہ ہریانہ اورمہاراشٹرمیں
موہن بھاگوت ٹیم کے لیڈران وزراء اعلیٰ بنے ۔جھارکھنڈمیں بھی بعدازانتخابات
پہلی مرتبہ غیرقبائلی وزیراعلیٰ کواقتدارسونپاگیا۔( اگرغیرقبائلی وزیراعلیٰ
کی بات قبل ازانتخابات سامنے آتی توبی جے پی کو نقصان اٹھاناپڑتا )لیکن
ڈسپلن اوراصولوں کی بات کرنے والی بی جے پی کے فلسفہ کاخون خوداسی کے
ہاتھوں ہوگیا جب دہلی میں کرن بیدی وزیراعلیٰ کے عہدہ کی
امیدوارنامزدہوئیں۔شایدیہ پارٹی کی مجبوری بھی تھی کہ ایک نوکرشاہ کوسامنے
لاکرستیش اپادھیائے کوپس منظرمیں ڈالناآسان ہوجائے گا۔ یہ نہیں بھولناچاہئے
کہ کجریوال نے ستیش اپادھیائے پربجلی کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کاالزام
لگایاتھا۔پہلے توبی جے پی کے ریاستی صدرنے یہ کہاکہ وہ ثبو ت دیں یاسیاست
چھوڑیں۔کجریوال نے ثبوت بھی دے ڈالے۔تب نہ بی جے پی کوئی جواب دے سکی اورنہ
ستیش اپادھیائے بلکہ بہت خاموشی کے ساتھ پارٹی نے انہیں سائیڈلائن
کردیا۔جگدیش مکھی ،وجے گوئل ،ہرش وردھن جیسے سنیئرلیڈران کوناراض کرکے کرن
بیدی کی بی جے پی میں اچانک شمولیت اورامیدواری کااعلان دراصل اسی حکمت
عملی کاحصہ تھا۔
اس سے قبل مودی حکومت نے سکھوں کوخوب رجھانے کی کوشش کی ۔مرکزی وزیر داخلہ
راج ناتھ سنگھ نے 1984کے فسادات متاثرین کے درمیان چیک بھی تقسیم کئے لیکن
یہ ساری کوشش بیکارہوگئی ۔دہلی انتخابات کے موجودہ منظرنامہ کا اگرجائزہ
لیاجائے توسکھ برادری پوری طرح کجریوال کے ساتھ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب
کرن فارمولہ بھی فلاپ ہوگیاہے کیونکہ ووٹر ان کولانے کی وجہ سمجھ چکے
ہیں۔چنانچہ ان کی ریلیوں میں عوام کی دلچسپی نہیں ہے۔اس کے باوجودانہوں نے
خودکوسی ایم سمجھناشروع کردیاہے۔وہ عوام کی خادم نہیں مالکن بتارہی
ہیں۔لازماََاس کااثرتوہونا تھا۔وہ ہوا۔اے بی پی نیوزکے سروے کے مطابق کرن
بیدی کی امیدواری کے بعدبی جے پی کے ووٹ چارفیصدکم ہوئے ۔نوبھارت ٹائمزکی
آن لائن سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ60فیصدعوام کجریوال کوسی ایم دیکھناچاہتے
ہیں جب کہ کرن بیدی کوصرف36فیصدلوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ایسے میں بی جے پی
میں بڑھتی بے چینی فطری ہے۔
یہ بھی دلچسپ پہلوہے کہ جس دن کجریوال نے یہ دعویٰ کیاکہ خودبی جے پی
لیڈران ہمیں فون کرکے کرن بیدی کوہرانے کی درخواست کررہے ہیں، بی جے پی
صدرنے اپنے دہلی کے لیڈروں پرعدم اعتمادکااظہارکرتے ہوئے انتخابی کمان اپنے
ہاتھ میں لے کرمرکزی وزراء اورممبران پارلیمنٹ کی پوری فوج کجریوال کے خلاف
جنگ میں اتاردی ہے۔نریندرمودی بھی واپس انتخابی مہم میں لائے گئے ۔اس سے
زیادہ مزہ کی بات یہ ہے کہ کئی اسمبلی علاقوں میں لگے تازہ پوسٹرمیں
نریندرمودی،امت شاہ اور مقامی لیڈران تونظرآرہے ہیں لیکن اب کرن بیدی اس
کاحصہ نہیں ہیں۔بی جے پی کے سنیئرلیڈران ان کانام لینابھولتے جارہے
ہیں۔بیدی کی انٹری کے بعدبی جے پی میں زبردست گھمسان جاری ہے۔پارٹی دفترکے
سامنے کارکنان کامظاہرہ،امت شاہ کے خلاف نعرہ بازی ،منوج تیواری کی کھلی
زبان میں اوروجے گوئل کی دبی زبان میں مخالفت اس کاحصہ ہے۔
لیکن اس گھمسان کے باوجودبی جے پی کی نظرمسلم ووٹوں کی تقسیم پرہے ۔فی
الحال وہ ووٹوں کی اسی تقسیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے جس طرح لوک
سبھاالیکشن میں اسے صدفیصدکامیابی ملی تھی۔اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ رہی
ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی اچھے خاصے ووٹوں سے بی جے پی لیڈان
کامیاب ہوئے۔اس کی وجہ یہی ووٹوں کی تقسیم ہے۔اس لئے مسلمانوں کی حکمت عملی
طے ہونی چاہئے ۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے سیاسی بصیرت کامظاہرہ
کیاتھا۔وہ اس طورپرکہ جہاں کانگریس کے مسلم امیدوارتھے وہاں انہیں کامیاب
بنایا۔مسلم اکثریتی علاقے بلی ماران،مصطفٰی آباد،سیلم پوراور اوکھلاسے
بالترتیب ہارون یوسف،حسن احمد،چودھری متین احمداورآصف محمدخان کانگریس کے
سبھی مسلم امیدوارکامیاب ہوئے۔اس کے علاوہ شعیب اقبال نے جدیوکے ٹکٹ پرفتح
حاصل کی تھی۔
یہ درست ہے کہ اس الیکشن میں کانگریس مقابلہ میں نہیں ہے ۔اوروہ الیکشن
جیتنابھی نہیں چاہتی ہے ۔لیکن وہ اسی جگہ مقابلہ میں ہے جہاں مسلم اکثریتی
آبادی ہے اورعام آدمی پارٹی نے اپنے مسلم امیدواربھی انہیں سابق ممبران
اسمبلی کے مقابلہ میں اتارے ہیں۔جس سے ووٹوں کی تقسیم کازبردست خدشہ ہے
۔ایسی صورت میں ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں کانگریس کے مسلم
امیدوارہیں اوروہ حلقہ بھی مسلم اکثریتی ہے وہاں ووٹوں کی تقسیم نہ ہونے
پائے اورجہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہاں کانگریس کوووٹ دینے کی
ہرگزغلطی نہ کی جائے۔گرچہ اس امکان کوبھی مستردنہیں کیاجاسکتا کہ جہاں عام
آدمی پارٹی اوربی جے پی کامقابلہ ہے، وہاں کانگریس کوفائدہ ہوسکتاہے ۔
پھربھی جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں کانگریس کووہاں ووٹ نہ دیاجائے۔اس لئے کہ
کمزورطبقہ اورکانگریس وبی جے پی سے بیزارعوام کجریوال کے ساتھ ہیں۔اوروہ بی
جے پی کے پرفریب وعدوں کوبھی نومہینے کے اندر سمجھ چکے ہیں۔نیز عام آدمی
پارٹی کے ساتھ اس مرتبہ یہ ایک پلس پوائنٹ ہے کہ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں
لوگوں نے عام آدمی پارٹی کوڈرڈرکرووٹ دیاتھاکہ کہیں ووٹ بربادنہ ہوجائے
لیکن اس مرتبہ ایسانہیں ہے۔ایسے میں ان جگہوں پرمسلم ووٹ متحدہوکراگرعام
آدمی پارٹی کے لیڈروں کومل گئے توپھربی جے پی کی کامیابی نہیں ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ کانگریس اورعام آدمی پارٹی کے ساتھ کوئی ہمدردی مقصودنہیں بلکہ
یہ حقیقت ہے کہ کانگریس نے سب سے زیادہ مسلمانوں کونقصان پہونچایاہے
۔پاکستان اوربنگلہ دیش کی تقسیم سے لے کربابری مسجدکے تالاکھلوانے تک
،ایمرجنسی کے نفاذسے بھاگلپورجیسے مسلم کش فسادات تک پھرمسلم ووٹوں پرسیاست
کرکے ان کااستحصال یہ سب اس کی گھونی اورسیاہ تاریخ کے ابواب ہیں۔لیکن ایسی
صورت حال میں مناسب حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے
مزیدنہ بڑھیں۔
اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ کجریوال اپنے انچاس دن کی سرکارکاحوالہ بارباردے
رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاسکتے کہ انہوں نے سکھوں کے لئے ایس آئی ٹی کی
تشکیل توکی لیکن بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرپرقدم کیوں نہیں اٹھایا۔مسلمانوں کے
ریزرویشن کے تعلق سے ان کی کیارائے ہے؟۔اس پربھی وہ خاموش ہیں۔اس کے علاوہ
ان کی پارٹی میں کوئی مسلم چہرہ نہیں ہے جب کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادا
س کی حامی ہے۔ پھران کے اسکول کے زیادہ ترہم جماعت امت شاہ اینڈکمپنی میں
جاب لے چکے ہیں۔ایسے میں یہ خدشات توبہرحال ہیں۔ وقت بہت کم ہے ۔ مسلم
قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تنظیموں کے دفترسے باہرنکلیں،ایک دوسرے
کی ٹانگ کھینچے اوراپنے مفادات کی بالاتری کی روایت کوملی مفادکی خاطرتھوڑی
دیرکے لئے نظراندازکریں۔عام آدمی پارٹی کی قیادت کے سامنے تحفظات اورشکوک
وشبہات کااظہارکریں اور مسلم مسائل پران کاموقف واضح طورپرمعلوم کریں۔اس کے
بعدعآپ کے حوالہ سے فیصلہ لیں۔ورنہ اگرپھرووٹوں کی تقسیم سے فرقہ پرستوں
کوفائدہ ہوگیا توہماری ملی قیادت کے دامن پرایک اوربدنماداغ لگے
گا۔خصوصاََیہ ان قائدین کی ذمہ داری ہے جواپنے گھریلومسائل پراشتہارات میں
تصویرتوساتھ لگاتے ہیں لیکن جب ملت کامعاملہ ہوتاہے توایک ہی گھرسے
دواپیلیں جاری ہوتی ہیں۔ |
|