۵ فروری کا دن جب بھی آتا ہے دل
و دماغ ماضی کے جھروکوں میں لوٹ جاتا ہے ۔جب ۱۹۹۰ میں پہلی بار یوم یکجہتی
کشمیر منایا گیا تھا،تمام ملک میں عام تعطیل تھی، تمام سرکاری و نجی اداروں
اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے کاروبار زندگی بند
کر کے کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ٹی وی ، ریڈیو ، اخبار ات اور رسائل
نے کشمیری عوام سے یکجہتی کے حوالے سے خصوصی کردار ادا کیا۔ وطن عزیز کے
کوچہ و بازار میں ہر مرد وزن، طفل و ناتواں کی زبان پہ کشمیر کی آزادی کا
تذکرہ تھا۔ کشمیر کے ماضی ، حال اور مستقبل پہ بات چیت ہو رہی تھی ۔ بس یوں
محسوس ہوتا تھا کہ پاکستانی قوم نے کشمیر کی آزادی کا مصمم ارادہ کر رکھا
ہے ۔ دوسری جانب کشمیر کے کوچہ و بازار تھے جہاں ۱۹۸۹ میں تحریک حریت کشمیر
نے عسکریت کی راہ اختیار کرلی تھی ۔کشمیری قوم قلم چھوڑ کر کلاشنکوف اٹھا
چکی تھی اب ان کے آزادی کے نعروں میں گولیوں کی تڑتراہٹ کی آواز بھی سنائی
دیتی تھی ۔یہ وہی کشمیری قوم تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ بندوق کو دھوپ
میں رکھ کر کہتے ہیں"تپ سی تے ٹھس کَرسی" اب وہی کشمیری بندوق لیے دنیا کی
ایک بڑی فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ سپر ہو گئی تھی اور اسے ناکوں
چنے چبوا دیے تھے ۔ کشمیری عوام نے خود کو پاکستان سے جوڑ لیا تھا ہر عمارت
پہ پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا ، نوجوان جوق در جوق مجاہدین کے قافلوں میں
شامل ہو رہے تھے ،شہداء کے جنازے روز کا معمول بن گئے تھے اور ہر گلی ہر
کوچہ سے صدا بلند ہو رہی تھی ۔۔۔۔ہم پاکستانی ہیں ----پاکستان ہمارا
ہے---جیوے جیوے پاکستان ---پاکستان سے رشتہ کیا---- لاالہ الااﷲ۔ گویا
دونوں جانب ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا ء نظر آتی تھی ۔
ٍیہ یکجہتی کی فضا ء کوئی وقتی جوش نہ تھا بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت کا نام
ہے ۔کشمیری قوم اور پاکستانی عوام میں ایک فطری یکجہتی اور قلبی وابستگی
ہے۔ کشمیر اور پاکستان کا رشتہ ہمالیہ سے بلند اور بحر ہند سے گہرا ہے ۔
کشمیر کی چوٹیوں پہ پڑنے والی بارش اور اوس کے قطرے بھی راستہ بناتے ہیں تو
پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں ۔ تو
دوسری جانب بحیرہ عرب کے ساحلوں پہ چلنے والی نمی سے بھرپور ہوا بھی بارش
کا ثمر دینے کے لیے کشمیر کے پہاڑوں کا رخ کرتی ہے ۔ کشمیر کو جانے والے
آمد ورفت کے تمام راستے پاکستان سے جاتے ہیں۔ کشمیر کی سرحدات پاکستان سے
ملتی ہیں ۔ کشمیری عوام کی اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان مدینہ منورہ کے
بعد دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ حاصل کی گئی ۔ ملت اسلامیہ
کشمیر اور پاکستان کے بیچ اسلام ہی سب سے اہم اور مضبوط رشتہ ہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اس
فطری یکجہتی کا عملی مظاہرہ اسوقت ہوا جب ۱۹۴۷ میں کشمیری عوام نے ڈوگرہ
فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے اورا ٓزاد حکومت کے قیام کا اعلان کیا تو ان کی
مدد کے لیے پاکستان کے قبائلی لشکر اور پنجاب کے سکاؤٹس نے جانی و مالی
امداد کا بے مثال مظاہرہ کیا۔۱۹۴۷ میں کشمیری عوام نے خون کا نذرانہ پیش
کیا صرف اس لئے کہ وہ پاکستان سے الحاق کے خوگر تھے۔ نومبر ۱۹۴۷ کو جموں
میں لاکھوں افراد کو صرف اس لیے تہہ تیغ کیا گیا کہ وہ پاکستان سے قلبی
وابستگی رکھتے تھے ۔ اسکے بعد متعدد بار پاکستان اور بھارت میدان جنگ میں
آمنے سامنے ہوئے اور ہزاروں پاکستانیوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے خون کے
نذرانے پیش کیے ۔ کشمیری عوام نے بھارت کے غیرقانونی تسلط کو کبھی تسلیم
نہیں کیاانہوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی
لیکن ان کی آواز نہ سنی گئی تو انہوں نے بندوق کی راہ اپنا لی ۔ جب کشمیری
مجاہدین نے بندوق کی راہ اپنائی تو پاکستانی قوم ان کی پشت پہ کھڑی ہو گئی
۔ یہی یکجہتی تھی جس کے اظہار کے لیے ۵ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا
گیا۔اور دنیا کو بتایا گیا کہ کشمیر ی اس جنگ میں تنہا نہیں ہیں بلکہ
پاکستانی قوم ان کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔ اس جذبے نے ہندوستانی فرعونوں کو
ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی نے یہ تک
کہ دیا تھا کہ "کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا"۔
پاکستان کی سفارتی اور اخلاقی حمایت کے سائے میں کشمیری مجاہدین سیسہ پلائی
دیوار بن کر ہندوستانی قبضے کے خلاف صف آرا ہوئے تو بھارت نے کشمیر کو
مسئلہ جانا اور مذاکرات کی میز تک آگیا۔ ۹۰ کی دہائی میں تحریک آزادی کشمیر
عروج تک پہنچ گئی ۔کشمیری قوم نے آزادی کے حصول کے لیے لازوال قربانیاں پیش
کیں ۔ ۸۰ ہزار سے زائد کشمیریوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ، لاکھوں بے گھر
ہوئے اور ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ان سب قربانیوں کے بعد ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ اب یہ منطقی انجام کو پہنچ جائے گی لیکن اس تحریک میں
ایک موڑ آیا جس نے اس تحریک کو منزل سے دور کر دیا۔پاکستان میں ایک مطلق
العنان حکمران طاقت کے زور پہ بر سر اقتدار آگیا۔ابتدا ء میں پاکستانی اور
کشمیری عوام نے یہ سمجھا کہ فوج کی وردی میں ملبوس یہ حکمران مرد آہن ثابت
ہو گا لیکن ان کی امیدوں پہ اس وقت پانی پھر گیا جب انہوں نے اسے ایک ہی
فون کال پہ گھٹنے ٹیکتے دیکھا۔ جسے وہ چٹان سمجھے تھے وہ ایک فون کال کی
تاب بھی نہ لا سکااور ڈھیر ہوگیا۔ اس نے قوم کو "سب سے پہلے پاکستان " کے
نعرے کے ذریعے فریب دیا اور امت مسلمہ سے پاکستان کا تعلق کاٹنے کی کوشش کی
۔تحریک آزادی کشمیر بھی اس نعرے کا شکار ہوئی اور ملی یکجہتی کو شدید دھچکا
لگا۔کشمیر جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین جزء تھا وہ ترجیح اول نہ
رہا ۔ ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا اور دو طرفہ تجارت کے راگ
الاپے جانے لگے۔یہاں تک کہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی کنٹرول لائن پہ باڑ
لگا کر کشمیر کو تقسیم کرنے کی بھی اجازت دے دی ۔ اس صورتحال نے کشمیری
عوام کو مایوس کیا۔ کشمیری عوام کی کثیر تعداد عسکری جدوجہد ترک کر کے
سیاسی جدوجہد کرنے کی طرف راغب ہو گئی ۔ اس رجحان کی وجہ سے کشمیر کی مسلح
جدوجہد مدہم پڑ گئی ۔
"سب سے پہلے پاکستان "کی سوچ نے پاکستان کو تنہا کر دیا ۔ پاکستان کی امت
کے معاملات کے ساتھ یکجہتی معدوم ہوتی گئی ۔ بھارت نے اس صورتحال سے خوب
فائدہ اٹھا یا۔ اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے بھارت نے امریکہ سمیت
عالمی برادری کو یہ باور کرا دیا کہ کشمیر میں جاری عسکری تحریک پاکستان کی
جانب سے دراندازی ہے اور یہ بھی اس دہشت گردی کا حصہ ہے جس کے خلاف
افغانستان اور عراق میں لڑا جا رہا ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں ناٹو
کا صف اول کا اتحادی تھا اس صورتحال کا فائدہ بھی پاکستان کو ہی اٹھانا
چاہیے تھا اور موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری کو اس تعاون کے
بدلے کشمیر کے مسئلے کو حل کروانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس ہوا۔ عالمی
رائے عامہ بھارت کی ہمنوا ہو گئی اور پاکستان کو تحریک آزادی ٔ کشمیر سے
دست کشی اختیارکرنا پڑی۔ اس محاذ پہ پاکستان کی پسپائی کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے بھارت نے کشمیر کی جانب سے پاکستان آنے والے دریاؤں پہ آبی جارحیت کا
آغاز کر دیا۔پاکستان کی زراعت آبی قلت کا شکار ہوئی اور ملک اندھیروں میں
ڈوب چکا۔جس امریکہ کی خاطر پاکستان نے کشمیریوں سے یکجہتی سے دست کشی
اختیار کی وہ بھی بھارت کا ہمنوا ہو گیا۔ امریکی صدر اوبامہ کا حالیہ دورۂ
بھارت ، امریکہ بھارت سول نیوکلئیر تعاون ، اور اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل میں بھارت کو مستقل رکنیت دینے پر آمادگی اس کا بین ثبوت ہیں ۔ موسم
کی طرح تبدیل ہوتی عالمی صورتحال میں جہاں تحریک آزادی ٔ کشمیر کا مستقبل
تاریک نظر آتا ہے وہیں امید کی کرن بھی پیام ِ سحر دیتی ہیں ۔
بدلتی رتوں میں امریکہ کا بھارت سے یارانہ چین کو سیاسی اور اقتصادی طور پہ
محدود کرنے کا منصوبہ ہے ۔ پاکستان کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
چین سے پاکستان کے دیرینہ مراسم ہیں ۔ اس صورتحال میں چین کا بھرپور ساتھ
دینا چاہیے اور بدلے میں چین کا تعاون مسئلہ ٔ کشمیر کے حل کے لیے حاصل
کرنا چاہیے ۔ اگر چینی حکومت بھی تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور حمایت کرے تو
یہ یکجہتی ثمر آور ثابت ہو سکتی ہے ۔ بھارت کو مستقل رکنیت کے حصول کے لیے
مسئلہ کشمیر کو حل کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں روس سے بھی روابط بڑھانے کی اشد
ضرورت ہے ۔ شاید کہ ان کی امریکہ دشمنی کی رگ بیدار ہو کر ہمارے کام
آسکے۔اگر ان دو ممالک نے تحریک آزادی کی حمایت کی تو منزل آسان ہو جائے
گی۔چین اور روس کے علاوہ بھی ہمسایہ ممالک ہیں جو بھارت کی چودھراہٹ سے
خائف ہیں ۔ ان ممالک کی طرف بھی دست تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ خطے میں
امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے علاقائی
مسائل حل ہو ں۔ اگر ان ممالک کی طرف سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ
یکجہتی کا اظہار ہو جائے تو عالمی ضمیر بیدار ہو سکتا ہے اور کشمیر کی
آزادی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔
مسئلہ ٔ کشمیر کے حل کے لیے سب سے اہم کردار اگر کوئی ادا کر سکتا ہے تو وہ
امت مسلمہ ہے ۔ امت مسلمہ ایک خوابیدہ شیر ہے جو دنیا کے اہم وسائل سے
لبریز ہے ۔اگر ان وسائل پہ اپنی گرفت مضبوط کی جائے تو دنیا کی رائے کو
اپنی مٹھی میں کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس بات کو
اہمیت دینا چاہیے کہ وہ امت کے مسائل کو حل کرے اور اتحاد بین المسلمین کی
راہ ہموار کرے ۔ کشمیر امت مسلمہ کا حل طلب مسئلہ ہے ۔ دنیا میں اس وقت
۵۵مسلم ممالک ہیں ۔ یہ بہت بڑی تعدادہے جو بیک زبان ہو کر بولیں تو بہروں
کو بھی سنائی دے ۔ اگر تمام مسلم ممالک اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور
کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں توکوئی وجہ نہیں کہ یہ مسئلہ
حل طلب رہے ۔مسلم ممالک کو چاہیے کہ OICکو مضبوط اور فعال بنائیں اور ایک
دوسرے کے مسائل کو از خود حل کریں ۔ اگر مسلم ممالک ایکا کر لیں اور دنیا
کی بڑی طاقتوں کو آمادہ کریں کہ مستقل رکنیت کسی مسلم ملک کو دی جائے تو اس
دباؤ کا خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے ۔
۹۰ کی دہائی میں چند امور نے تحریک آزادی کشمیر کو نقصان پہنچایا ہے اگر ان
غلطیوں سے بچا جائے تو نقصان سے بھی بچا جا سکتا ہے ۔ جابجا پاکستانی اور
غیر ریاستی تنظیموں کے قیام سے اجتناب کیا جائے ۔ اس طرح کی تنظیموں پہ
ہندوستان کو انگلی اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ سیاسی اور عسکری میدان میں
کشمیر کی علاقائی تنظیموں پہ ہی تکیہ کیا جائے ۔اسی طرح کشمیری قیادت کی
باہم چپقلش بھی تحریک کے مستقبل کو دھندلا دیتی ہے ۔ کشمیری عوام اور
کشمیری قیادت کو اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کی
آزادی کے لیے سیاسی و عسکری میدان میں جدوجہد کرنا ہو گی ۔ اگران امور کا
خیال رکھتے ہوئے قدم سے قدم ملا کر چلا جائے اور کشمیری عوام کے ساتھ دلی
یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب سرزمین کشمیر میں آزادی
کا سورج طلوع ہو۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ترنم آفریں ہوگی بادبہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان ِ چمن سے سینہ چاک
بزم ِ گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ ٔ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے |