آج کشمیری جس کرب سے گزر ررہے
ہیں اُس کا اہتمام مسلم کانفرنس ، نیشنل کانفرنس اور پھر جناب گلزار حجازی
کے مطابق مجاہد اول سردار عبدالقیوم اور جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔
مسلم کانفرنس کی اصل قیادت جموں جیل میں تھی اور جناب چوہدری غلام عباس ،
اﷲ رکھا ساغر اور سینئر رہنماؤں نے واضح پیغام دیا کہ کشمیرکی آزادی کے سوا
کسی تجویز کو قبول نہ کیا جائے۔ مہاراجہ کشمیر بھی آزاد خو د مختار کشمیر
کے لیے ہاتھ پاؤں مار ہا تھا کہ مسلم کانفرنس کی جونیئر قیادت نے الحاق
پاکستان اور آزادکشمیر کا شو شا چھوڑ کر سار اکھیل ہی بھگاڑ دیا ۔چوہدری
غلام عباس کا خیال تھاکہ ایک آزادو خود مختار کشمیر پاکستان کے لیے بہتر ہے
نہ کہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا اور بھارت کی بالا دستی و تسلط زدہ کشمیر ۔ پتھر
مسجد اور آبی گزرگاہ کی کہانیاں سنانے والوں کے متعلق پنڈت کاک اور پریم
ناتھ بنراز لکھتے ہیں کہ جب مہا راجہ کشمیر بچانے کی کوشش کر رہا تھا اُسی
وقت مسلمان سیاسی لیڈر کشمیر توڑنے کی جدوجہد میں مصروف تھے ۔ سابق امریکی
صدر بل کلنٹن اپنی کتاب Between Hope and Historyمیں لکھتے ہیں کہ (vision)
دور اندیشی کے بغیر کوئی قوم اپنا وجودبرقرار نہیں رکھ سکتی وہ مزید لکھتے
ہیں کہ :۔ where there is no vision the people perish جہاں دور اندیشی
اورمستقبل کی منصوبہ بند ی نہ ہو وہاں لو گ صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں ۔
دیکھاجائے تو چوہدری غلام عباس اور کے ایچ خورشید کے علاوہ کشمیری قوم کو
کوئی ایسا لیڈر نہ ملا جو دور اندیش ہو۔ 1947کی تحریک آزادی کی ناکامی کا
تجزیہ کیا جائے تو اس تحریک کو ناکام بنانے والے فیلڈمارشل اور خود ساختہ
جنرل اور اُن کے الگ الگ جنرل ہیڈ کوارٹر ہیں جنہوں نے جہاد پرکم اور اپنی
ذاتی تشہیر پر زیادہ زور دیا۔ ناقص منصوبہ بندی ، خود غرضی ، قبیلہ پروری
اور کرپشن نے ابتداء سے ہی کشمیر ی قوم کا شیرازہ بکھیردیا ۔ کیپٹن حسین
خان کی شہادت کے ساتھ ہی پونچھ آپریشن بھی شہید ہو گیا اور کسی مجاہد اول
وآخر نے پونچھ شہر پر یلغار کی ہمت نہ کی ۔ کئی ماہ تک پونچھ کا محاصرہ
کرنیوالوں نے بھارتی فوج کا انتظار کیا تا کہ وہ پونچھ کا کنٹرول سنبھال کر
انہیں پونچھ کے محاصرے سے نجات دلائے ۔پونچھ پر بھارتی فوج نے قبضہ کیا اور
محاصر ے میں بیٹھ کر لنگر کھانیوالوں نے مسلم کانفرنس اور آزادکشمیر کی
حکومت پر یلغار کر دی ۔ پرائمری اور مڈل پاس کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنائے
گئے اور حوالداروں نے کپتانیاں اور میجریاں تقسیم کر لیں ۔ جمعدار اور
صوبیدار کرنیل بن گئے اور اپنی بہادریوں کے قصے لکھ کر حکومت پاکستان اور
آزادکشمیر سے اُن کی سندیں بھی لے لیں ۔
مظفرآبا داوڑی سیکٹر کا حال اس سے بھی برُا ہوا ۔ قبائلی لشکری بھو کھے
بھیڑیوں کی طرح آئے اور جوراہ میں آیا اُسے ہڑپ کرتے گئے ۔ قبائلوں نے
راستے میں آنیو الا ہر گاؤں لوٹا اور آٹھ سال سے اسی سال کی ہر لڑکی اور
عورت کو بے آبرو کیا ۔ قبائلی لشکروں نے سکھوں ، افغانوں اور مغلوں کو بھی
مات دی اور جبر و ظلم کا وہ طوفان برپا کیا کہ لوگوں نے اس خون خوار آزادی
سے توبہ کر لی۔ کوٹلی مینڈھر سیکٹر میں حیدری فورس نے کمال کامیا بیاں حاصل
کیں اور حد پیر پنجال سے آگے شوپیاں تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا مگر
حکومت پاکستان پر پونچھ کی منڈیرپر بیٹھے مجاہدین کا بھوت سوار تھا جن کی
اجازت کے بغیر وہ کسی اصل مجاہد کی مدد تیار نہ تھی ۔ حکومت پاکستان اور
مجاہدین پونچھ ایک منصوبے کے تحت جہاد کر رہے تھے جو صرف کاغذوں فائیلوں
اور پراپیگنڈے کی حدتک محدود تھا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے پونچھ والوں کو
جو مدد ملتی تھی اُسکا نوے فیصد راولپنڈی کے بازاروں اور مری کے ٹھیکیداروں
کے ہاتھ فروخت ہو جاتا۔ بد قسمتی سے جہاد آزادی کشمیر نے روز اول سے ہی
آزاد ی بنرنس کا روپ دھار لیا اور اب یہ حقیقت بن کر اپنا اثر دکھا رہا ہے
۔
حیدری فورس کسی ایک قبیلے یا برادری پر مشتمل نہ تھی۔ اس فورس کے کمانڈر
انڈین نیشنل آرمی کے تربیت یافتہ اور میدان جنگ کے آزمودہ کار افسر اور
جوان تھے۔ بریگیڈئیر حبیب الرحمن ،کرنل اکمل ، میجر محمد حسین ، کیپٹن
شیرافگن کے علاوہ درجن بھر ایسے افسر بھی تھے جنہوں نے فرضی ناموں سے اس
فورس کی قیادت کی اور تقریباً سارا مینڈھر اور دھرم شال سیکٹر آزاد کر
والیا ۔ اس فور س نے ڈوگرہ اور انڈین آرمی سمیت راشٹر یہ سیوک سنگھ کے بڑے
منظم اور پوری طرح مسلح دستوں کو زیر کیا اور اُن سے اسلحہ وایمو نیشن چھین
کر اپنی فورس کی فوجی قوت میں اضافہ کیا۔
حیدری فورس کے دائیں اور بائیں خود غرضی کی فرضی جنگ لڑی جارہی تھی۔ پونچھ
کا محاصرہ کرنیوالے ، اس محاصرے کو کیش کروا رہے تھے اور کسی میں جرأت نہ
تھی کہ آگے بڑھ کر چار کمپنیوں پر مشتمل محصور ڈوگروں کا صفایا کرتے اور
حیدری فورس کی کامیابیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سرینگر کے قریب پہنچ جاتے ۔
شوپیاں اور گلمرگ کے علاقوں پر تسلط قائم ہونے کی صورت میں بارہ مولہ میں
بیٹھی لنگر خور فورس بھی شائد آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کر لیتی مگر مجاہدین
پونچھ نے تولی پیر پر ہی تکیہ کر لیا اور آگے بڑھنے کی ہمت نہ کی۔ حیدری
فورس کی ایک مشکل راجوری اور ریاسی کے جرالوں اور گجروں کے باہم چپقلش
تھی۔1947کے بعد حالات بدلے تو گجر قبائل نے بوجہ عناد نہ مجاہدین کا ساتھ
دیا اور نہ ہی حکومت کے پلڑے میں وزن ڈالا ۔ ریاسی گیریژن میں تعینات ڈوگرہ
بٹالین کی تین کمپنیاں مسلمانوں اور دو کمپنیاں ڈوگروں پر مشتمل تھیں جبکہ
مقامی مسلمان آباد ی میں بھی ریٹائرڈ فوجیوں کا بڑا حصہ موجود تھا۔ حالات
کا جائزہ اپنے ہوئے ڈوگرہ فورس ریاسی سے نکل گئی اور یہ علاقہ خود بخود
مقامی لوگوں کے قبضے میں آگیا۔
کرنل شیر محمد کی قیادت میں تقریباً ایک ہزار مسلح افراد جنکا تعلق مینڈھر
اور پونچھ کے علاقہ سے تھا بغیر کسی مذاہمت کے ریاسی پہنچے اور وہاں موجود
کرنل رحمت اﷲ کی تین کمپنیوں سے چارج لیکر انہیں پونچھ کا محاصرہ کرنیوالوں
کی مدد کے لیے بھیج دیا ۔ کرنل رحمت اﷲ کے پونچھ محاذ پر جانے کے بعد کرنل
شیر محمد کی فورس نے ریاستی گیر یژن اور سرکاری کیٹل فارم سے آسٹریلین
بھیڑوں اور دیگر مویشیوں کو نکال کر مینڈھر کی طرف روانہ کیا اوراپنے دو سو
جوانوں کو ان کی حفاظت پر لگا دیا ۔ باقی فورس نے تین سو خچروں پر ریاسی
بازار سے مال غنیمت اُٹھایا اور اُن کے ہمراہ واپس مینڈھر تشریف لے آئے۔
یہی حال راجوری کا ہوا ۔ کرنل رحمت اﷲ کی بٹالین پونچھ محاذ پر منتقل ہوئی
تو سردار فتح محمد کریلوی نے اپنے ایک رشتہ دار کی کمان میں ایک سو مجاہدین
کا دستہ راجوری بھجوایا ۔ یہ صاحب ڈوگر ہ آرمی کے ریٹائرڈ صوبیدار تھے جن
کی قیادت میں بھیجے گئے مجاہدین نے بھی کرنل شیر محمد والی روش اپنائی۔
صوبیدار بوستان خان نے اپنی فورس میں صرف سرداروں کو ہی رکھااور باقی لوگوں
کو فارغ کردیا۔
راجوری سے ڈگرہ فورس کی پسپائی کے بعد علاقے کا انتظام جرال قبیلے کے سردار
نمبردار محمد حسین جرال کے حوالے کیا گیا جوبری طرح ناکام ہوا ۔ نمبردار
صاحب اور گجر قبیلے کے اختلافات مزید بڑھ گئے اور مقامی ہندو آبادی خاموش
رہی ۔ کرنل شیر محمد اور صوبیدار بوستان خان نے جو کردار ادا کیا وہ بھی
قابل نفرت تھا۔ کرنل شیر محمد کے بعد صوبیدار بوستان خان نے پسپائی اختیار
کی تو گولد کے مقام پر مجاہدین نے انہیں پکڑ لیا ۔ مجاہد کمانڈر نے صوبیدار
بوستان اور سرداروں پر مشتمل پلاٹون سے ہتھیار چھین لیے اورا نہیں گولیوں
سے اُڑادیا۔ مجاہدین کا یہ دستہ کرنل شیر محمد کے ہمراہ ریاسی گیا تھا مگر
کرنل صاحب انہیں وہیں چھوڑ کر بھاگ آئے تھے۔ بعد میں بھارتی بریگیڈ معہ
توپخانے اورہوائی مدد کے اس علاقے میں آیا تومجاہدین کو بھی پسپائی اختیار
کرنا پڑی۔
اب ذرا پونچھ کا محاصراہ کرنیوالی سپا ہ کا حال بھی سنئیے ۔ اس سپاہ میں
باغ بریگیڈ زیر کمان سردار عبدالیقوم خان مجاہد اول ، سدھن بریگیڈ نمبر1زیر
کمان کرنل رحمت اﷲ، سدھن بریگیڈر نمبر2زیر کمان خان محمد خان اور دو بریگیڈ
پٹھان لشکری زیرکمان بریگیڈئیر اعظم خان جن میں دیر ، سوات ، افغانستان ،
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لشکری شامل تھے۔ دیر اور سوات کے لشکری ایک
الگ ٹولہ تھا جبکہ سوات آرمی اور دیر سکاؤٹ کے چند ترتیب یافتہ دستے میجر
تیمور اور تحصیلدار حضرت عالیٰ کی کمان میں نوشہرہ سیکٹر میں آئے جنکی
کہانی الگ ہے۔
پونچھ فورس اور مظفرآباد سیکٹر میں کارروائی کرنیوالے لشکروں کو حکومت
پاکستان کی جانب سے مدد ملتی تھی مگر سدھن بریگیڈ یہ رسد اپنے تک ہی محدود
رکھتے تھے ۔ اس محاصرے کااحوال کرنل اکمل نے مختصر الفاظ میں بیان کرتے
ہوئے بریگیڈئیر اعظم خان اور سدھن کمانڈروں سے درخواست کی کہ وہ ایک بریگیڈ
پیر پنجال اور لشکری دستے ریاسی نوشہرہ سیکٹر میں بھیجوا دیں اور حیدری
فورس کو صرف دوہفتوں کے لیے پونچھ کی جانب پیش قدمی کا موقع دیں۔ کرنل اکمل
، میجر محمد حسین اور کرنل حق مرزا نے گارنٹی دی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر
پونچھ کو جلا کر خاکستر کر دینگے مگر مجاہد اول سمیت کسی بھی کمانڈر نے
سونے کی چڑیاں ہاتھ سے نہ جانے دی۔
کوٹلی ، نوشہرہ اور دہرم شال سیکٹر میں مقامی مجاہدین اور دیر سکاوٹ نے
کیپٹن مظفر خان شہید کی قیادت میں کمال کامیابیاں سمیٹیں اور جموں ، نوشہرہ
روڈ پر پیش قدمی کرتے ہوئے بہت سے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا جس کی تفصیل
کیپٹن مظفرخان شہیدکی ڈائری میں موجود ہے ۔آئیے اب آخری محاذ کاروناروتے
ہوئے واپس بھٹو ازم کی برکات کا جائز ہ لیکر بات ختم کرتے ہیں۔
پاکستانی بیوروکریسی خاص کر وزارت خارجہ کے افسران اور کچھ سیاستدانوں نے
کشمیریوں کے خلاف سازش کرتے ہوئے قبائلی جھتے آزادکشمیر کے ان علاقوں میں
بھجوائے جہاں پہلے ہی مجاہدین کی پوزیشن مستحکم تھی ۔ بجائے اس کے کہ
مجاہدین کی رہنمائی کے لیے فوجی افسروں کو بھیجا جاتا اورانہیں اسلحہ و
ایمونیشن کے علاوہ راشن بھی سپلائی کیا جاتا تاکہ وہ باہم لڑنے ، ایک دوسرے
کی ٹانگ کھینچنے اور عہدوں کی تقسیم پر چپقلشوں سے آزاد ہو کر سرینگر اور
پونچھ کی طرف پیش مقدمی کرتے، ان کے سروں پر قبائلی مسلط کر دیے جن کی ہٹ
دھرمی اور عوام الناس پر ظلم وستم نے تحریک آزادی کی اصل روح کو ہی
گہنادیا۔ پتھر مسجدکی کہانیاں سنانے والوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں
بنائیں اور عوام کو قبائلیوں کے پنجہ تلے میں دیکر جہاد کے نام پر مال
کمانے اور عہدے بانٹنے پر لگ گئے۔
مرحوم سردار ابراہیم خان کبھی کبھی دبی زبان میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے
کہ میں نے کبھی بھی قبائلیوں کی مداخلت کا مشورہ نہ دیا تھا ۔ یہ مشورہ
سردار شوکت حیات اور مسلم لیگی رہنماؤں کا تھا جو خود کبھی قائداعظم کی بات
نہ مانتے تھے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان بنتے ہی سازشیوں نے
اپنے گروپ بنا لیے اور انگریز افسروں سے ملکر قائداعظم کے خلاف محاذآرائی
شروع کردی۔
چوہدری ظفراﷲ ، خان لیاقت علی خان، جی ایم سید ، ایوب کھوڑو ، میاں ممتاز
دولتانہ ، افتخار ممدوٹ ، سکندر حیات ، شوکت حیات اور خان عبدالغفار سمیت
کئی گروپ قائداعظم کی پالیسوں سے اختلاف رکھتے تھے اور پاکستانی عوام
پراپنی مرضی سے حکومت کرنا چاہتے تھے ۔ قائداعظم کو ان سب کی سازشوں کا پتہ
تھا مگر وہ مایوس نہ تھے ۔قائداعظم کے سیاسی ، جمہوری اور معاشرتی اصولوں
کے خلاف سب سے پہلے چوہدری رحمت علی نے بغاوت کی جنہیں بمبئی اور کراچی کے
پارسیوں ، اسماعیلیوں ، پنجاب کے قادیانیوں ، گجر قبیلے کی اہم شخصیات
اوریو نینسٹوں کی درپردہ حمائت حاصل تھی ۔ چوہدری رحمت علی نے قائداعظم کے
خلاف سخت اور لغو زبان استعمال کی تو انہیں جمعیت علمائے اسلام اور علمائے
ہند کی بھی حمائت حاصل ہوگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیر آگ کے شعلوں سے لپٹ
رہا تھا اور پاکستانی سیاست دان باہم اُلجھاؤ کاشکار تھے۔ جہاں کہیں کشمیری
ڈوگرہ اور بھارتی افواج سے نبرد آزما تھے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا
اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ جہاں مفاد پرستوں اور
سازشیوں کے مفاد کی بات تھی وہاں ہر طرح کی مد د مہیا کی جارہی تھی اور ایک
منظم پراپیگنڈے کے تحت جہاد اور آزادی کا ڈرامہ کھیلا جا رہا تھا۔
وزیر خارجہ چوہدری ظفر اﷲ نے جنرل گریسی کی اجازت لیکر 16پنجاب رجمنٹ
سیالکوٹ محاذ پر بھجوائی اور اس رجمنٹ کو حکم دیا کہ سیالکوٹ اور اردگرد کے
علاقوں سے ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل ایک بریگیڈفورس بھرتی کر ے اور کشمیر کے
علاقوں سے جموں کی طرف جسقد ر علاقہ خالی ہے اسپر قبضہ کر کے جموں کے
مسلمانوں کو انخلا میں مدد دے ۔ 16پنجاب رجمنٹ میں ایک بریگیڈسے زیادہ
افراد کو مسلح کرنیکے وسائل مہیا کیے گئے اور وزارت خارجہ نے اس بریگیڈ کا
نام الفرقان بریگیڈ تجویزکیا۔
الفرقان بریگیڈ کی خبر آزاد آرمی ہیڈ کوارٹر رام پیاری محل گجرا ت پہنچی تو
بریگیڈ ئر راجہ حبیب الرحمن نے گجرات کے کشمیری گھرانوں کے نوجوانوں اور
سابق فوجیوں کو اس بریگیڈ میں شمولیت کی ترغیب دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے گجرات
سے دو ہزار کے قریب کشمیری مرالہ کے مقام پر پہنچے جہاں 16پنجاب رجمنٹ کے
افسروں نے کسی بھی کشمیری کو بھرتی نہ کیا۔ الفرقان بریگیڈ میں سوائے
قادنیوں کے کسی کو پذیرائی نہ ملی اور زیادہ تر بھرتیاں کاغذوں کی حدتک ہی
محدود رہیں۔
گجرات سے جانیواے نوجوان مایوس ہو کر واپس لوٹے اور جلا لپور جٹان میں ایک
کیمپ لگا کر کشمیر جانے کی آس لگا کر بیٹھ گئے ۔ گجرات سے کشمیریوں کی ایک
ٹولی جن کے پاس تلواریں ، کلہاڑیاں ، سوٹے اور کچھ کے پاس بارہ بور اور درہ
میڈ رائفلیں تھیں چھمب کے مقام پر دریائے توئی کراس کر کے پلاں والہ پہنچے
اور وہاں موجود ڈوگرہ بٹالین اور سیوک سنگھیوں پر حملہ کر دیا۔ اتنی بڑی
فوج پر غیر مسلح سویلین کا حملہ کامیاب تو نہ ہوا مگر سیوک سنگھیوں کے
حوصلے پست کر گیا۔ ساری رات لڑائی جاری رہی اور بندوقوں کے مقابلے میں
تلواروں نے بھی خوب چمک دکھلائی ۔ اس لڑائی کے دوران پلاں والا میں محصور
کشمیر ی خاندانوں نے راہ فرار اختیار کی اور تقریباً دو ہزار نفوس نے جان
بچا کر قریبی جنگلا ت میں پنا لی۔ اس شب خون کے نتیجے میں پانچ سو سیوک
سنگھی اور رجنوں ڈوگرہ سپاہی واصل جہنم ہوئے۔ حملہ آور کشمیریوں میں سے صرف
چند زخمی مجاہد واپس آئے اور باقی سب نے راہ حق میں جان قربان کردی۔
الفرقان بریگیڈجسکا انچارج سیالکوٹ کا احمدی ڈپٹی کمشنر تھانے سیالکوٹ جموں
روڈ پر کیمپ لگایا اور اپنی موجودگی میں چند میل کے فاصلے پر دو لاکھ کشمیر
ی مسلمانوں کے قتل کا نظارہ کیا ۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادکشمیر اور پاکستان
میں ہرسال شہدائے جموں کا دن منایا جاتا ہے مگر کسی نام نہاد کشمیری لیڈر
او ربرادری ازم کے مریض نو دولیتے بے خبر کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ الفرقان
بریگیڈ کا بھی ذکر کر ئے جوان دو لاکھ کشمیریوں کے قتل کا ذمہ دار تھا۔
|