سیکولر ہندوستان میں مسیحی عبادت گاہوں پر تازہ حملے

بسم اﷲالرحمن الرحیم

دہلی؛ جو صدیوں تک مسلمانوں کے زیرنگیں کل مذاہب کے ماننے والوں کے لیے امن وآشتی اور مذہبی آزادی کا گہوارہ رہاآج مورخہ 5فروری2015کوسیکولربھارت اس دارالحکومت میں مسیحی شہری چینختے چلاتے اور آہ و بکا کی صدائیں لگاتے سڑکوں پر نکل آئے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ان کی عبادت گاہوں کوانتہا پسند ہندؤں کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے ۔ہزارہا مسیحی برادری کے مردوزن نے وسطی دہلی کے مرکزی ’’قلب مقدس‘‘نامی گرجاسے ایک پرامن احتجاجی جلوس نکالا جس نے سیکولرہندوستان کے وزیرداخلہ کی اقامت گاہ تک جا کر اپنا احتجاج ثبت کرانا تھا۔سیکولرازم اور انتہاپسند برہمن راج کے ڈسے ہوئے یہ اقلیتی افراد اپنے مقدس مقام سے یہ نعرہ لگاتے ہوئے نکلے کہ ’’ہمیں انصاف چاہیے‘‘۔ بعدمیں انہیں اندازہ ہو گیا کہ سیکولرازم اور برہمن راج سے انصاف مانگے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد دہلی کی پولیس نے ان پرامن اور مظلوم مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔انہیں مارا پیٹا،زدوکوب کیا،خواتین کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کی اور کتنے ہی مظاہرین کواپنی بسوں میں بھرکر پس دیوار زنداں دھکیل دیا۔اس سے قبل بھی منگل2دسمبر2014کومشرقی دہلی کے ایک چرچ کے باہرمسیحی برادری نے مظاہرہ کیاتھاجس کا کہ انتظامیہ کی سطح پرکوئی نتیجہ بھی برآمد نہ ہوا۔

سیکولرہندوستان میں مسیحی عبادت گاہوں پر حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔پندرہ جنوری 2015کورات چار بجے کے لگ بھگ دو افراد مغربی دہلی کے ایک چرچ میں داخل ہوئے انہوں نے توڑ پھوڑ کی اور پاک بی بی مریم کا مجسمہ بھی گراگئے۔ان افراد کی اس واردات کو وہاں لگے کیمرے کی آنکھ نے اپنے حافظے میں محفوظ بھی کر لیا۔یہ بات پولیس کے علم میں لائی گئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔دہلی کے لاٹ پادری انیل جے ٹی کاؤٹو اورفادربلراج نے اس واقعے کوکسی بڑی سازش کا حصہ قرار دیاہے۔اس سے بھی سنجیدہ وقوعہ ماہ دسمبر2014کی دو تاریخ کو پیش آیا جب مشرقی دہلی کے سب سے بڑے گرجاگھر’’سینٹ سبیستان چرچ‘‘میں آگ لگاکر اس کی عمارت کو نذرآتش کرنے کی کوشش کی گئی۔پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا،لیکن حسب معمول کوئی نتیجہ ندارد۔اس واردات میں علی الصبح آگ لگائی گئی اور چرچ میں موجودمقدس کتب،مجسموں اور دیگر تاریخی مقدس نوادرات کو بھی جلانے کی مذموم کوشش کی گئی،اس آگ کے نتیجے میں میں بہت نقصان ہوا اور دہلی کے لاٹ پادری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے نقصان کو سرکاری طورپر پورا کیاجائے۔وہاں رہائش پزیرپندرہ سو سے زائد مسیحی خاندانوں کا کہنا تھا کہ ہم صدیوں سے یہاں کے باسی ہیں اور آج تک یہاں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔پس جب سے ہندوستان میں نیرندرمودی کی انتہا پسند ہندو حکومت آئی ہے غیر ہندوؤں کے لیے جینا دوبھرہو گیاہے۔

ہندوستان میں مسلم اقتدارکے بعد سے غیر ہندؤں کے لیے آزمائش کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے۔برطانوی دورحکومت میں انگریزوں سے مراعات لینے کے بعد ہندوقیادت کا تعصب کھل کر سامنے آیا،رہی سہی کسر تقسیم ہند نے پوری کر دی۔جو مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور جوغیرہندو طبقات پاکستان ہی میں رہ گئے ،وہ تو سیکولرازم اور برہمن راج کے شر بچ گئے لیکن جو بدقسمت غیرہندوملتیں ہندوستان میں رہ گئیں وہ آج تک پنڈت و پروہت کے زیرعتاب ہیں۔خاص طور پاک و ہند میں مسیحی برادری جوسب سے بڑی اقلیت کا مقام رکھتی ہے ،ہندوستان میں تقسیم کے وقت سے انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں انتہا پسند ہندؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ایک طویل عرصے سے مسیحی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنا،مسیحیوں کو زبردستی ہندودھرم میں داخل کرنا ،ہندونہ بننے والے مسیحیوں کو دھمکیاں دینا،مسیحی مقدسات وکتب کو سرعام بے آبروکرنایا آگ لگادینا،مسیحی تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو بلوؤں کے دوران گرادینااور ان میں توڑ پھوڑ کرنا،تارک الدنیامسیحی خواتین کوبے آبروکرنااور مسیحی راہبوں کو قتل کردینااورخوف و ہراس سے بھراہواتحریری موادمسیحی آبادیوں میں تقسیم کرنا،سیکولرہندوستان میں عام سی بات ہے۔مسلمان یاسکھ اپنے مذہب یا معاشرت کے باعث کبھی کبھی منہ توڑ جواب دے دیتے ہیں لیکن مسیحی ملت اپنی طبعی و ایمانی شرافت کے باعث ظلم کی اس چکی میں پستی چلی جارہی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔’’ہیومن رائٹس واچ‘‘کی رپورٹ جو ستمبر1999میں شائع ہوئی،اس میں کتنے ہی واقعات کی کثرت سے مسیحیوں کی کسمپرسی کی تصویر کھینچی گئی،خاص طورپر رپورٹ میں بتایا گیا کہ انتخابی یا دیگر کسی بھی کامیابی کے بعد ہندوانتہا پسندوں کا رخ غیر ہندوآبادیوں کی طرف ہوتا ہے اور اپنی کامیابی کا جشن منانے کے لیے انہیں غیر ہندوؤں کی قتل و غارت گری درکارہوتی ہے جن میں زیادہ تر تعداد مسیحی آبادیوں کی ہے جن میں توڑ پھوڑ،لوٹ مار،عفت دری اور مزاحمت پرمارپیٹ اور قتل و غارتگری سے بھی دریغ نہیں کیاجاتا۔

1964سے 1996تک اڑتیس بڑے بڑے مسیحی کش واقعات اخبارات تک پہنچے،جب کہ کتنے ہی ایسے واقعات دوردرازعلاقوں میں تھوڑا سا سفر کر کے دم توڑ چکے ہوں گے اور دنیاکے علم میں ہی نہ آئے ہوں گے،جبکہ صرف1997میں چوبیس واقعات وقوع پزیر ہوئے جن میں مسیحیوں کوقتل اور ان کی املاک کو آگ لگا دی گئی،1998میں نوے ایسے پرتشدد واقعات کی اطلاع کی گئی۔یہ واقعات کی بڑھوتری کی تعدادیات نہیں ہے بلکہ ان وقوعات تک دنیا کی رسائی کی اطلاعیات ہے۔حقیقت یہ ہے ہندوانتہا پسندطبقات اپنی تاسیس سے ہی کسی غیر مذہب کی برداشت سے خالی ہیں۔1998کے بعد سے مسیحیوں کے خلاف ایک پرتشددلہر سی اٹھی ہے جو آج تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔اور اس بات کی حقیقت بھی واقعات کے اضافے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ واقعات تک پہنچ سے متعلق ہے کہ پہلے ان واقعات تک رسائی نہیں ہو پاتی تھی اور دنیا بے خبر رہتی تھی لیکن اب نمائندہ اور کیمرہ دوردراز خطوں تک پہنچ پاتاہے اور برہمن کی ذہنیت طشت از بام ہو جاتی ہے۔مسیحیوں کے خلاف یہ پر تشددواقعات کم و بیش کل ہندوستان میں ہوتے ہیں،جہاں مسلمان یا کوئی دیگر غیرہندو معاشرے موجود ہیں وہاں مسیحی برادری محفوظ اور مطمئن ہے لیکن جہاں بھی ہندوؤں کا جوار انہیں حاصل ہے وہاں ایک آتش دوزخ ہمیشہ ان کے لیے بھڑکتی رہتی ہے۔شمالی ہندوستان،مغربی ہندوستان اور ہندوستان کے وسطی علاقے جو ہندواکثریت کے علاقے ہیں مسیحیوں کے لیے مسلسل درد سر کے علاقے ثابت ہوئے ہیں۔ گجرات، مہاراشٹر، اترپردیش اور مدیہہ پردیش کی ریاستیں تو مسیحیوں سمیت کسی بھی غیر ہندو اقوام کے لیے ایک جبر مسلسل اور قہر تواتر کی حیثیت رکھتی ہیں اور اب ان تازہ واقعات کے بعد سیکولرہندوستان کا دارالحکومت دہلی بھی انہی علاقوں کی تعریف میں داخل ہو گیاہے۔جون 2000میں چار گرجاگھروں پر بم مارے گئے،آندھراپردیش میں چرچ کا قبرستان اکھاڑ پھینکا گیا،یہی سلوک مہاراشٹرکے ایک مسیحی قبرستان کے ساتھ بھی کیاگیا،ستمبر2008میں ’’کیرالہ ‘‘کے دو گرجاگھروں کوتباہ و برباد کردیاگیااور ہندوستان کی مسیحی قیادت کے ساتھ آئے روز کی بدتمیزیاں ،وعدہ خلافیاں اوروعدہ فرداکی بنیاد پر ان کی شہری حقوق سے ٹال مٹول ان سب پرمستزاد ہے۔’’وشوا ہندو پرشاد‘‘،’’بجرنگ دل‘‘اور’’راشٹریاسام سیوک سنگ‘‘سمیت بی جے پی جیسی ہندو انتہا پسند جماعتیں مسیحیوں کے خلاف ان پر تشدد واقعات میں بری طرح ملوث ہیں۔ان سب تنظیموں نے اپنے انتہائی پرتشدد نوجوانوں کو ’’سنگھ پریوار‘‘کے نام سے جمع کیاہوا ہے جو ان کاروائیوں کے بعد میدان صحافت پر بھی بڑی کڑوی نظر رکھتاہے اور ناپسندیدہ صحافیوں کو ٹھکانے لگا دیتاہے۔سرکاری سطح پر دو ایسے ادارے بنائے گئے جو اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کے ذمہ دار تھے،’’National Commission for Minorities‘‘اور’’National Integration Council of India‘‘۔ان اداروں نے اپنی حاصلات میں جو جو اصلاحات تجویزکیں وہ ہنوز کاغذوں کی زینت ہی ہیں۔

برہن کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پاؤں چاٹوتووہ سرپر جوتے مارتاہے اور اگربرہمن کے سرپر جوتے مارو تو وہ پاؤں چاٹتاہے۔مسیحی تھوڑی سی ہمت سے کام لیں اور مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر دیگر محروم طبقات کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں تو ہندوستان میں ایک اور پاکستان کا وجود کوئی مشکل کام نہیں ہے۔خود ہندؤں میں نچلی ذات کی اقوام اپنے ہی مذہب میں رہتے ہوئے انتہائی ذلت آمیزرویے کا شکار ہیں اور انہیں جانوروں سے بدترسلوک کا سامناہے۔کرہ ارض کے جغرافیے ہمہ وقت تغیر پزیر ہی رہے ہیں اوراب تاریخ کی کروٹ بتارہی ہے موجودہ سیکولرہندوستان اپنی شکست وریخت کے بہت قریب آن لگاہے اور دھرتی ماتا ایک بار پھر تقسیم کے خونین عمل سے گزرنے والی ہے۔مسیحیوں کے پاس خدا کاکلام ہے،اس کے نبیوں کی تعلیمات ہیں اور دنیاکی آبادی کا بہت بڑا حصہ ان کا ہم مذہب ہونے کے ناطے ان کا پشتی بان ہے ،تب انہیں مسلمانوں اور سکھوں کی طرح برہمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے۔تحریک پاکستان میں اور تعمیر پاکستان میں یہاں کے مسلمان مسیحیوں کے حسن سلوک کے مقروض ہیں اور تاریخ ثابت کرے گی مسیحیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم میں ان کا ساتھ دے کر امت مسلمہ کے سپوت اس قرض کو حسن ادائگی کے ساتھ نبھائیں گے،انشا ئاﷲ تعالی۔’’اے نبیﷺ ،کہیے اے اہل کتاب آؤایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے،یہ کہ ہم اﷲتعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں اورہم میں سے کوئی اﷲتعالی کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے‘‘(سورہ آل عمران)۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 527761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.