ایسا ہوتا تو؟
(فضل حق شہبازخیل , karachi)
وطن ِ عزیز میں کئی سالوں سے
جاری دہشت گردی نے ہمیں بہت سے سانحات سے دور چار کیا ہے ۔انسانی جانوں کے
نقصان سے لے کر معاشی تباہی تک ،امن وامان کی بربادی سے خوف و ہراس کے
فراوانی تک وہ کون کون سے نقصانات ہیں جو ہم نے نہیں اٹھائے مگر افسوس سے
کہنا پڑتاہے کہ آج تک اس لعنت کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ
ستم یہ ہے کہ یہاں تو اب حکمران سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کونسی
”دہشت گردی “ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکسویں ترمیم پر مذہبی جماعتوں نے تحفظات کا
اظہار کیا تھا جو آج سچ ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں ۔
ایک لمحے کیلئے ذرا سوچیں یہ رپورٹ کسی مدرسے کیا مذہبی جماعت کے بارے میں
ہوتی تو کیا ہوتا ؟؟
”سندھ رینجرز نے سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے حوالے سے سربمہر رپورٹ سندہ ہائیکوٹ
میں پیش کردی جس کو بعد میں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا۔ رینجرز کی
پیش کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ بھتا نہ ملنے پر
لگائی گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک ملزم رضوان قریشی پکڑا
بھی گیا جس نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فیکٹری انتظامیہ
سے 20 کروڑ روپے بھتا مانگا تھا لیکن فیکٹری انتظامیہ نے بھتا نہیں دیا جس
کے بعد ہمارے ایک ساتھی نے کیمیکل پھینک کر فیکٹری میں آگ لگادی۔ ملزم نے
2013ءکے عام انتخاب میں 30 ہزار بوگس ووٹ ڈالنے کا اعتراف بھی کیا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعہ کے بعد جو ملزم گرفتار ہوئے ان کی
ضمانت ایک سابق صوبائی وزیر نے تعلقات کی بنا پر منسوخ کروادی جس کے بعد ان
ملزموں نے لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کی۔ اس سلسلے میں ملزموں کو سابق
وزیراعظم کی مدد بھی حاصل تھی“
مولانا فضل الرحمن کا سول آج سچ لگ رہا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کیا داڑھی
پگڑی ہٹا دیں تو دہشت گردی جائر ہوگی ؟حکومت اگر اس دیس سے واقعی مخلص ہے
تو انہیں تمام تر جانبداری ترک کر کے اقدامات کرنا ہوگی خواہ وہ مذہبی ہو
یا غیر مذہبی ۔ |
|