کیا یہ حکومتی سازش نہیں ؟؟

حکومت نے پیٹرول کو سی این جی سے بھی سستا کرنے کی نوید سنا دی مگر مہنگائی کایہ بے قابوجِن حکومت کب بوتل میں بند کرتی ہے ،اِسکاخود حکومتی حلقوں کو بھی کچھ کوئی پتا نہیں۔پیٹرول مہنگاہونے یا نہ ملنے سے عوام کا گزارہ تو ہو گیا مگر دیکھنا یہ ہوگاکہ کیا مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی غریب عوام کےلئے روزمرہ کے استعمال کی اشیاءبھی سستی ہوئی یا نہیں؟ ؟ اگر پیٹرول سستا ہونے کے ثمرات براہ راست عوام تک نہیں پہنچ رہے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آ خر کون ہے جس کو بلواسطہ یا بلا واسطہ فوائد و ثمرات سے فیضیاب کیا جا رہا ہے۔پیٹرول کی قیمتیں ابھی دس دن بعدبڑھنا ہوتی ہیں مگر بسوں ویگنوں کے کرائے دس ،اشیاءخوردونوش،جان بچانے والی ادویات اور روزمرہ کے ضروری استعمال کی اشیاءپہلے ہی دِن خود ساختہ طور پر بغیر کسی حکومتی نوٹیفیکیشن کے مالکان و اڈا مافیا کی جانب سے بڑھا دیئے جاتے ہیں۔یعنی حکومتی نوٹیفیکیشن سے پہلے طاقتور ناجائز منافع خور مافیاز کا نوٹیفیکیشن عوام پر کڑکتی گرجتی ہوئی آسمانی بجلی کی طرح گرادیا جاتا ہے ۔ایک طرف حکومت کبوترکی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بندجبکہ دوسری جانب عوام کی بولتی بند بلکہ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں ہُکا پانی بند ، چولہے بند،یہاں تک کے دال سبزی کے ریٹ آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں ےعنی اگر حکومت سے صورتحال پر کنٹرول نہ کیا تومستقبل قریب میںصورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ مٹن قورمہ ، مرغ بریانی ،شاہی حلیم اور روغنی نان صرف اموات پرجنازوں کے بعد ،قل شریف ،دسویں،چالیسویں ،سالانہ ختم پر یا بھر شادی بیاہ کی تقریبات میں ہی مہمانوں کی تواضع کے لئے پیش ہوا کریں گے ۔

اکیسویں صدی کے اِس دور میں یا تو ہمارے سیاستدان بہت ہوشیار اور چالاک ہو چُکے ہیں یا پھر ہماری عوام نہایت سادہ طبیعت اور ٹیکنالوجی کے اس تیز ترین دور میں ابھی اٹھارویں صدی کے اواخر میں اپنے ایا مِ غریبی خُدا خُدا کر کے گزار رہی ہے جو ہر الیکشن میں امیدواروںکے مکارانہ، شاطرانہ سیاسی جال میں ہر بار بلکہ قیام پاکستا ن سے آج تک ،اڑسٹھ سالوں میں ملک میں ہونے والے تما م "آزادانہ ،مُنصفانہ وشفاف" انتخابات میں سیاستدانوں نے عوام کو الو بنا کر ہمیشہ اپنا ہی الو سیدھا کرتے آرہے ہیں۔وہ بھی کبھی مذہب کے نام پر توکبھی نام نہاد مُلاں کے کفر کے فتووں پر، کبھی تاج مسلمانی کے نام پرتوکبھی خوف فرنگی کے نام پر، کبھی ذات برادری کی فرعونی اناءپر تو کبھی نسل پرستی کے آسیب زدہ آقاﺅں کے نام پر،کبھی صوبائیت کے بوسیدہ نعرہ پر تو کبھی لسانیت کی فتنہ انگیزسوچ پر،غرض یہ کہ انگریز کے متعارف کردہ کامیاب فارمولا'' ڈیوایڈ اینڈ روول" کو تہہ دِل و من وعن سے مانتے بلکہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے ملک و قوم کو تقسیم در تقسیم کے کرنے کی روش پر چلتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔غرض سیاسی شعور سے کوسوں دور غریب عوام کو سیڑھی کی طرح استعمال کر کے ہمارے اکثر و بیشتر سیاستدانوں نے غریب عوام کے بچے سرکاری سکولوں میں سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی اور گرمیوں میں چٹختی اور تپتی ہوئی زمین پر پھٹے پرانے یونیفارم اور ٹوٹے ہوئے جوتوں اور خاک آلود چہروں کے ساتھ پیوند لگے ٹاٹوں پربٹھاکر،انہیں پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھ کر اپنے بچوں کو بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرنے بھیج دیاجاتاہے۔سرداروں،وڈیروں ،جِرگوں کے سربراہوں، پنچایت کے سرپنچوں،جاگیرداروں، صنعتکاروں اورمذاہب کے بڑے بڑے ٹھیکدار جس فرنگی کےساتھ ازل سے دشمنی کے فرائض ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ،جس امریکہ کے خلاف نام نہاد ''گو امریکہ گو''کا نعرہ لگا کر جہادِ اکبر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اُسی امریکہ اور یورپ کے کالجوں اور یونیوسیٹوں میں اپنے بیٹوں بلکہ بیٹوں کو تعلیم دلوا رہے ہیںجبکہ اپنے ہی پیارے وطن کی بیٹیوں بلکہ اپنے ہی حلقہ انتخاب میں لڑکیوں کے سکولوں اور اُنکی تعلیم کے اِتنے مخالف کیوں؟؟؟ کیا یہ ہمارے ملک کے سیاستدانواں کے قول و فعل میں کُھلا تضاد نہیں ہے؟ ´؟؟

پارلیمانی لاجز سے شراب کی خالی بوتلیں برآمد ہوں یا روسی ریاستوں کی پر ی ذاد کم عمر دوشیزاوں کے رازو نیاز کے قصے ، اپنوں کو نوازنے کے لئے پاک سرزمین کے مقدس پلاٹوں کی بندر بانٹ بلکہ تقسیم در تقسیم ہو یا یوتھ لون سکیم میں وزیر اعظم کی دختر نیک اختر مریم نواز شریف کی غیر قانونی و غیر آئینی بطور چئیرپرسن کی تعیناتی،ہزارہ بم دھماکہ میں شہید ہونے والے سینکروں بے قصور لوگ ہوں یا آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کے ساتھ کھیلی گئی خون کی ہولی ، بادامی باغ لاہور کی مسیحی آبادی کی سر عام تباہی ہو یا سانحہ رادھا کشن میں توہین مذہب کا الزام لگا کر زندہ جلا دئیے جانے والا مقتول مسیحی جوڑا ہو، پنجاب کے دل تخت لاہور میں خادم اعلی کی ناک کے نیچے چھ سالہ معصوم بچے کا زیادتی کے بعد قتل ہو یا سانحہ ماڈل ٹاون میں نہتے عوام پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ، بلوچستان کے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی دریافت ہو یا کراچی میں بھتہ کی پرچیوں سمیت بوری بند لاشوں برآمد گی ہو یا بھتہ نہ ملنے پر سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے بے گناہ دوسو سے زائد محنت کش مزدور،بے روزگاری،لوٹ مارکا بازار ، لاقانونیت کا طوفان ، سرعام قتل و غارت ،اغواءبرائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات ، اقربا پروری ، ناجائزمنافع خوری، بم دھماکے ، تعلیمی درسگاہوں پر دستی بموں سے حملے غرض مسلمانوں کی مساجد ،ہندووں کے مندر،مسیحی بھائیوں کے چرچ،سکھوں کے گردوارے غرض بلا تفریق کوئی بھی اِس ملک میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔کیا یہ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟؟ کیا آج تک کبھی زمہ داروں کا تعین بھی ہو سکا ؟؟کیا سات سال گزرنے کے باوجودسانحہ راولپنڈی میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو سمیت دیگر کے قاتلوں کو پکڑ لیاگیا؟؟

کیا ملک خُداداد کے تمام باسیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کا فریضہ اول نہیں ؟؟ کیا عوام کی جان مال ،عزت و آبرو اور ااملاک کے تحفظ کی زمہ داری حکومت ِ وقت پر واجب نہیں؟؟دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک بکری بھی پیاسی مر جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روز قیامت االلہ کو جواب دینا پڑے گا توکیا ہمارے بے حس حُکمرانوں کو سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کے خون کا حساب اللہ ربالعزت معاف کر دیں گے؟؟کیا سانحہ بلدیہ ٹاﺅن،سانحہ ہزارہ ٹاﺅن ،سانحہ ماڈل ٹاﺅن،سانحہ واہگہ بارڈر،سانحہ پشاور چرچ سمیت ملک میں ہونے والے سیکڑوں سانحات کے حساب سے بچ سکیں گے جن کے بے گناہ لہو کے چھینٹے حکمرانواں کے دامن پر لگے ہوئے ہیں؟؟ بالکل نہیں۔

ایسے میں حکومت کے پاس اپنی تمام تر نااہلیوں ،نالائقیوں اور حکومتی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ایک نایاب لفظ"سازش" مل گیا ہے۔دھرے ہوں یا ہڑتالیں،پیٹرول کی قیمتیں بھڑیں یا کم ہو جائیں،لاقانونیت ،مہنگائی،چوریاں،ڈکیتیاں،قتل و غارت گری کے بڑھتے ہوئے واقعات،اغواءبرائے تاوان، زیادتیاں، بدفعلیاں، سرکاری مالی بد عنوانیاں،حکومتی بے ضابطگیاں ،بیروزگاری،بڑھتی ہوئے اقرباءپروری کے واقعات ،دن بدن بڑھتی ہوئی غربت وافلاس غرض حکومت کے پاس سب بیماریوں کی ایک کی دوا موجود ہے اور وہ ہے وزارت اطلاعات کے سربراہ پرویز رشید ،جو کسی بھی سانحے کے بعد پی آئی ڈی میں ایک پریس کانفریس کرتے ہیں اور مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ سب ہماری حکومت کے خلاف "سازش" ہے۔کیا یہ حکومتی سازش نہیں ؟؟؟
Sarfraz Awan
About the Author: Sarfraz Awan Read More Articles by Sarfraz Awan: 14 Articles with 10434 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.