آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
 
                
	
		5 فروری آیا اور چلا گیا ۔یہ ہر 
		سال آتا ہے ۔ اہلیان ِ پاکستان کو سوگ وار کرتا ہے ۔ پھر چلا جاتا ہے ۔ اس 
		دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار ِ یک جہتی کے 
		لیے جلوس نکلتے ہیں ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بازی ہوتی ہے ۔ ایوان 
		ِ بالا و زیریں میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ۔ سیاست دان ایوانوں میں ، 
		عوام سڑکوں پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ زبان ِ قال و حال سے کہا جاتا ہے 
		: "ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔"جارحانہ بیان بازی ہوتی ہے ۔یہ دن 1990ء سے 
		منایا جا رہا ہے ۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، اس دن کا مشاہدہ کر رہا 
		ہوں ۔ یہی کچھ دیکھ رہا ہوں ، جو اوپر بیان کیا ۔  
		 
		لیکن پھر 5 فروری شام ڈھلتے ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ کشمیر جوں کا توں رہتا ہے 
		۔ اسے آزادی نہیں ملتی ۔ اس کے زخم مندمل نہیں ہوتے ۔ یہ خطہ ِ جنت نظیر 
		ذرا نہیں بدلتا ۔ یہاں کی اداس صبحیں اداس ہی رہتی ہیں ۔ یہاں کی بے سکون 
		شامیں بے سکون ہی رہتی ہیں ۔ ہم بھی سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔ سیاست دانوں کے 
		جذبات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ۔ عوام روزگار میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ جو ایک دن 
		پہلے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں ، اب دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے 
		ہیں ۔ ہم سال میں ایک دن منا کر احسان کی انتہا کر دیتے ہیں ۔بالآخر ہم فقط 
		گفتار کے غازی ہی ٹھہرتے ہیں ۔تغیرات کے اس عالم ِ رنگ و بو میں کشمیر کے 
		حق میں ایک تغیر بھی وقوع پزیر نہیں ہوتا ۔  
		 
		مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ ہمارے اختیار میں ہے ہی کیا ! سوائے جارح 
		بیان بازی ، جذباتی نعروں اور پر جوش تقریروں کے ۔ مسئلہ ِ کشمیر ایک ایسا 
		گھاؤ ہے ، جو 67 سالوں سے نہیں بھر رہا ۔ کشمیر کے مظلوم عوام پچھلے 67 
		سالوں سے آزادی سے محروم ہیں ۔ انھیں حق ِ خود ارادیت نہیں مل رہا ۔ مسئلہِ 
		فلسطین کے بعد مسئلہ ِ کشمیر امت کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے ، جو کئی سالوں سے 
		تشنہ ِ تکمیل ہے ۔ جب میں کشمیر اور فلسطین کے بارے میں سوچتا ہوں تو اس 
		"امت ِ مرحومہ " کی بے چارگی پر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے ۔ اپنی کمزوری 
		کا احساس ہوتا ہے ۔ خجالت سے پانی پانی ہو جاتا ہوں ۔ یہ بے چارگی ، اگر 
		تعمق سے دیکھا جائے تو ، ہم نے اپنے آپ پر خود مسلط کی ہے ۔ ہم نے اپنی 
		توانائیاں ، اپنی قوم کو شکست دینے کے لیے خرچ کی ہیں ۔ جب ہم اپنے آپ سے 
		نبرد آزما ہوتے ہیں ، تو دشمن ہمیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہوتا ہے اور 
		ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی ۔  
		 
		یہ دور ِ جدید ہے ۔یہ چھوٹا سا سیارہ عالمی گاؤں بن چکا ہے ۔ شعور بڑھتا جا 
		رہا ہے ۔ ظلم کیا ہے ، سب جانتے ہیں ۔حقوق کیا ہیں ، سب کو معلوم ہے ۔کسی 
		پر ظلم کیا جائے ، کسی کے حقوق غصب کیے جائیں ، اس دور ِ نمود و نمائش میں 
		سب کو آن کی آن پتا پڑ جاتا ہے ۔ اب دور ِ غلامی مفقود ہو چکا ہے ۔ بچہ بچہ 
		اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ ہے اورآواز بلند کر سکتا ہے ۔ اب کسی کو دبا کر 
		رکھنا عبث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے باسیوں نے حق ِ خود ارادیت 
		مانگا تو مل گیا ۔ حالاں کہ برطانیہ قوی ہیکل ہے ۔ چاہتا تو اسکاٹ لینڈ کی 
		ایک نہ مانتا اسے دبانا کیا مشکل تھا ۔ لیکن برطانیہ نے ایسا نہیں کیا ۔ 
		کیوں کہ ہر ایک آزادی کا حق رکھتا ہے ۔ اسکاٹ لینڈ میں خوشی خوشی ریفرنڈم 
		ہوا ۔ 
		 
		کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے ۔ یہی وہ ظلم ہے ، جس پر کشمیری عوام 
		سب سے زیادہ سراپا احتجاج ہیں ۔ اسی ظلم پر ہم ایسے آشفتہ سروں کے دل جلتے 
		ہیں ۔ ہمیں 14 صدیاں قبل بھائی بھائی بنا دیا گیا ہے ۔ ہمیں تنبیہ کی گئی 
		کہ مسلمان ایک جسم کے مانند ہوتے ہیں ۔ اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے 
		تو پورے جسم میں درد کی ٹیسیں محسوس ہوتی ہیں ۔ گو ہم اس تنبیہ کو بھول گئے 
		، لیکن اس کے کچھ کچھ اثرات اب بھی روح کو اس وقت گھائل کر دیتے ہیں ، جب 
		کسی مظلوم مسلمان کی داستان ِ الم کے بار ے میں معلوم ہوتا ہے ۔ یہ ظلم ، 
		چاہے کشمیر ، جنت نظیر کی پر بہار وادیوں میں ہو ، چاہے انبیاء ؑ کی سرزمین 
		فلسطین میں ہو ۔ چاہے افغانستان کی بگڑام جیل میں ہو ، یاگوانتا ناموبے 
		ایسے بدنام ِ زمانہ عقوبت خانے میں ہو ۔یا کسی اور مقام پر ہو ۔ یہ ظلم 
		اپنے کریں تب بھی دل جلتا ہے ۔ غیر کریں ، تب بھی دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ 
		یاد رکھیے، ظلم کی کالی گھٹاؤں سے احتجاج جنم لیتا ہے ۔شمیم شال، جو انٹر 
		نیشنل مسلم ویمن کی نمائندہ برائےکشمیر ہیں ، کہتی ہیں : "آدھی بیوہ کا لفظ 
		پوری دنیا میں صرف کشمیری خواتین کے ساتھ جڑا ہے ۔ بھارتی فوج نے بہت سی 
		کشمیری خواتین کے شوہروں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کرد یا ۔ یہ خواتین اب 
		بھی شوہروں کا انتظار کر رہی ہیں ۔ کشمیری عوام اور خواتین جو تکلیفیں سہتی 
		رہی ہیں ، انھیں کبھی ریکارڈ پر نہیں لایا گیا ہے ۔ بھارت کسی کو کشمیر میں 
		آنے کی اجازت نہیں دے رہا ۔شمیم شال نے اور بھی بہت سی ظلم کی داستانیں 
		بتائیں ۔جسے لکھنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے ۔ آسیہ اندرابی ، جو "دختران ِ 
		ملت " کی سربراہ ہیں ، اپنی داستان ِ الم بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میرے 
		شوہر ہی کو دیکھ لیں ۔ میرے ساتھ 93 ء میں گرفتا رہوئے تھے ۔ 22 واں سال 
		شروع ہو رہا ہے ۔ جیل میں رہتے ہوئے میں کبھی کبھی ان سے ملنے جاتی ہوں ۔ 
		لیکن اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ کر ۔ انھوں نے 22 سال سے میرا چہرہ نہیں دیکھا 
		۔ میرا بیٹا جو جیل میں میرے ساتھ تھا ، اب اکیسویں سال میں ہے ۔ غور کریں 
		بیٹے باپ کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی محبت سے محرو ہوں تو ان کی شخصیت کیسی 
		ہوگی ۔ 
		 
		آخر میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار پر اپنی تحریر کی انتہا کرتا 
		ہوں ۔ 
		آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر 
		کل جسے اہل ِ نظر کہتے تھے ایران ِ صغیر 
		سینہ ِ افلاک سے اٹھتی ہے آہ ِ سوز ناک 
		مرد ِ حق ہوتا ہے جب مجبور ِ سلطان و امیر 
		کہہ رہا ہے داستاں بے درد ی ِ ایام کی 
		کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان ِ پیر 
		آہ یہ قوم ِ نجیب و چرب و دست و تر دماغ 
		ہے کہاں روز ِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟ | 
	 
 
 |