لسبیلہ میں مقامی حکومتوں کو درپیش چیلنج
(Asim Kazim Roonjho, Lasbela)
مقامی حکومتیں کسی بھی جمہوری
معاشرے میں انتہائی اہمعیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ شہریوں کے بنیادی مسائل
کا حل و میونسپل فریضوں کی ادائیگی بلدیاتی ادارے (مقامی حکومتیں) ہی کے
فرائض میں شامل ہے۔ ضلع لسبیلہ میں بھی یونین کونسل، میونسپل کمیٹی اور ضلع
کونسل کے انتخابات مکمل ہوچکے ہیں ۔ ضلع لسبیلہ میں6میونسپل کمیٹیاں
اور22یونین کونسل شامل ہیں جن پر ممبران کا انتخاب دسمبر 2013میں ہوئے اور
دسمبر 2014کے آخر میں چیئرمینز اور وائس چیئرمینزکا انتخاب عمل میں لایا
جاچکا ہے۔ ضلع کونسل لسبیلہ کے چیئرمین جام کمال خان گروپ کے شیخ غلام
اکبراور وائس چیئرمین جام گروپ ہی کے قادر بخش جاموٹ بلا مقابلہ منتخب
ہوچکے ہیں۔میونسپل کمیٹی حب کے چیرمین نیسنل پارٹی کے رجب علی رند اور وائس
چیئرمین جام گروپ کے یوسف بلوچ بلا مقابلہ منتخب ہوئے جبکہ میونسپل کمیٹی
بیلہ کے چیئرمین محمد انور رونجھو اور انوربدل بلوچ بھی بلا مقابلہ منتخب
ہوئے ہیں ان دونوں کا تعلق بھی جام گروپ سے ہی ہے۔ میونسپل کمیٹی اُوتھل سے
بھی جام گروپ کے سردار رسول بخش بُرہ چیئرمین اور سید حفیظ شاہ کاظمی وائس
چیئرمین بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ میونسپل کمیٹی گڈانی کے الیکشن عدالت
میں چیلنج ہوئے ہیں اور جس وقت آپ یہ سطور پڑ رہے ہوں شاید اس وقت تک عدالت
کا فیصلہ آچکا ہوں یہاں چیئرمین شپ کے لیئے بھوتانی گروپ کے عبدالحمید بلوچ
اور جام گروپ کے عطاءاللہ بلوچ کے درمیان مقابلہ ہے۔میونسپل کمیٹی وندر سے
جام گروپ اور بھوتانی گروپ کے مشترکہ اُمیدوار میردر محمد جاموٹ بلامقابلہ
منتخب ہوئے اور وائس چیئرمین کی نشست پر محمد اسلم سوری کو کامیابی ملی ان
کا تعلق جام گروپ سے ہے ۔ میونسپل کمیٹی دریجی سے سردار صالح بھوتانی کے
فرزند شہزاد بھوتانی بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں ۔مجموعی طور پر ضلع لسبیلہ
میں جام میر کمال خان کے حمایت یافتہ اُمیدوار کامیاب ہوئےہیں ۔ اس وقت جام
میرکمال خان وفاقی وزیر مملکت پیٹرولیم وقدرتی وسائل ہیں اور انکے کزن پرنس
احمدعلی بلوچ ایم پی اے ہیں ۔ان کی مدد ورہنمائی منتخب مقامی نمائندوں کو
حاصل ہے۔ اس وقت میرے نذدیک سب سے بڑا چیلنج جو مقامی نمائندوں کو درپیش
ہوگا وہ مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ اس وقت بلوچستان اور خیبر
پختونخواہ کے حالات کا برائے راست اثر لسبیلہ پر پڑ رہا ہے اور دونوں صوبوں
کا بوجھ اس وقت لسبیلہ برداشت کیئے ہوئے ہے ۔اس سے قبل سندھ سے بھی سیلاب
کی تباہ کاریوں سے متاثرہ ایک بڑی تعداد لسبیلہ میں سکونت اختیار کرچکی ہے
۔ اس وقت لسبیلہ کے کوٹے کی بنیادی اسامیوں پرغیراضلاقی لوگ براجمان ہوچکے
ہیں جس سے مقامی لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں اور ایک کثیر تعداد میں
دوسرے علا قوں کے لوگوں کے آنے سے مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں ۔اس
ملک کی شہری کی حیثیت سے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے آئے اور
سکونت اختیار کرے اور کاروبار کرے اس لیئے ہم انھیں روک نہیں سکتے لیکن
مقامی حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جس سے وہ
یہاں رہ سکیں کاروبار کرسکیں لیکن مقامی لوگ کے حقوق حاصل نہ کرسکیں
اورلسبیلہ سے نئے لوگوں کو ڈومیسائل کے اجراء پر 10سالوں کے لیئے پابندی
عائد کی جائے اور لوکل سرٹفکیٹ صرف ان قبائل کو فراہم کیئے جائیں جن کا ذکر
1901کے لسبیلہ گزیٹر میں ہے اس کے علاوہ کسی کو لوکل سرٹفکیٹ جاری نہ کیا
جائے اور لسبیلہ میں گذشتہ 2001سےجاری ہونے والی تمام لوکل ڈومیسائل
سرٹفکیٹ کی جانچ پرتال کرائی جائے۔ لسبیلہ سے جاری ہونے والے تمام شناختی
کارڈ جو گذشتہ 8 سے 10 سالوں میں جاری ہوئے ہیں انکی بھی نادرہ سے جانچ
کرائی جائے کہ کس طرح کارڈ جاری کیئے گئے ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں
کہ اس وقت لسبیلہ میں کچھ لوگ ایک مخصوص پلاننگ کے تحت بغیر ماسٹر پلان کے
پلاٹنگ کرکے آبادکاری کررہی ہےاور اس وقت جرائم پیشہ عناصر اور طالبان کے
لیئے محفوظ پناہ گاہ لسبیلہ بن رہا ہے جہاں کوئی نگرانی کا سسٹم نہیں جس کی
مثال حال ہی میں بنوں جیل سے فرار ہونے والے سزائے موت کے قیدی کی حب سے
گرفتاری ہے ایسے اور کتنے لوگ ہوں گے جو اس وقت لسبیلہ میں چھپے ہوں گے ۔
اس لیئے فوری طور پر لسبیلہ میں مقیم آبادکاروں کی رجسٹریشن کی جائے اور
افغان مہاجرین کو لسبیلہ سے نکال باہر کیا جائے۔اگر ان چیلنجز کو سمجھنے کی
مقامی حکومتوں نے کوشش نہ کی تو اس نتائج لسبیلہ کے امن اور ترقی پر منفی
پڑیں گے ۔صرف ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹیاں ہی اپنی قرار داد کے زریعے
صوبائی حکومت سے سفارش کرکے ان باتوں کو ممکن بناسکتی ہیں اور مقامی قدیم
باشندوں کے حقوق کوتحفظ دے سکتی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عوام کے ترجمان
بنتے ہیں یا نہیں۔ |
|