اچھی بیوی اور فرماں بردار اولاد
قدرت کا انمول عطیہ ہے ۔ تخلیق انسانی کی ابتداء جتنی پرانی ہے اتنی ہی
پرانی یہ کہانی بھی ہے ۔ انسان شادی کے بعد اولاد کی بہت خواہش کرتا ہے
کیونکہ کوئی مکان اس وقت تک گھر نہیں بنتا جب تک اس میں اولاد کی شکل میں
ننھے منے پھول کھیلتے ہوئے دکھائی نہ دیں ۔ اﷲ تعالی نے ماں باپ کے روپ میں
دو فرشتے اولاد کی پرورش اور تربیت کے لیے مقرر کررکھے ہیں وہ بچے کے
اشاروں اور چہرے پر تاثرات کو سمجھ کر اس کی تکلیف کو رفع کردیتے ہیں ۔یہ
دنیا کی انوکھی زبان ہے جو صرف ماں باپ ہی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ماں باپ کا
دل اولاد کے لیے ہر لمحے دھڑکتا ہے ۔ باپ صبح سے رات گئے تک اپنی جان
جوکھوں میں ڈال کر جو کماکر گھر لاتا ہے اس سے نہ صرف بچے اپنا پیٹ بھرتے
ہیں بلکہ ان کے تعلیمی ٗ معاشرتی اور شادی بیاہ کے اخراجات بھی پورے ہوتے
ہیں ۔اسی طرح ماں بچوں کو اپنے جسم کا حصہ کرکے ہر لمحے ان کی خدمت میں
مصروف رہتی ہے۔ سردیوں کے موسم میں بچے کو سردی سے بچانے کے لیے ماں پیشاب
والی گیلی جگہ پر خود لیٹتی ہے اور بچے کو خشک جگہ پر لٹا کر اسے سکون دینے
میں خوشی محسوس کرتی ہے ۔روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر ماں کہاں سکون سے رہ
سکتی ہے اس کی زندگی کا ایک ایک سانس بچے کے لیے وقف ہوتا ہے وہ سردی اور
گرمی کی شدت سے بے نیاز اپنی صبح اور شاموں کو بچوں کے لیے قربان کرنا اپنا
فرض اولین تصور کرتی ہے لیکن جب بچے جوان ہوجاتے ہیں پھر ان کی شادیاں بھی
ہوجاتی ہیں تو پھر انہیں وہی ماں اور باپ اچھے نہیں لگتے ۔ اس لمحے وہ اپنا
بچپن بھول جاتے ہیں جب باپ کی انگلی پکڑ کر وہ بازار جانے کی ضد کیا کرتے
تھے جب کوئی من پسند چیز خریدنے کے لیے اصرار کیاکرتے تھے ۔
ہم ایک صبح مسجد میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ اولاد کے ہاتھوں تنگ
ایک عمررسیدہ شخص نے اپنے جوان بیٹوں کی تصویر امام مسجد کو دیتے ہوئے کہا
کہ سنا ہے آپ کے دم میں بہت اثر ہے لوگ شفا پاتے ہیں اس تصویر پر بھی پھونک
ماردیں۔ ہوسکتا ہے میرے بیٹے بھی فرماں بردار بن جائیں اور مسجد میں آکر
نماز پڑھنے لگیں ۔کیونکہ میری نظر میں جو بچہ نماز نہیں پڑھتااور نہ ہی
قرآن پاک کو پڑھتا ہے اسے والدین کی قدر و قیمت کا علم نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ
قرآن میں اﷲ والدین کی فرماں برداری کی باربار تلقین فرماتا ہے۔
اب صورت حال اس قدرخراب ہوچکی ہے کہ میں فخر سے انہیں کوئی کام نہیں کہہ
سکتا ۔ دونوں کے دونوں ایک ہی راستے پر گامزن ہیں نہ گھر میں قرآن پڑھتے
ہیں نہ نماز کی طرف ان کی توجہ ہے ۔ ماں بھی ان سے کوئی بات کہتے ہوئے
جھجکتی ہے ۔ بات ابھی پوری طرح ادا نہیں ہوتی کہ ان کی جانب سے انکار
ہوجاتا ہے جس پر میں غصے سے بولنے لگتا ہوں ۔ میرے غصے کا اولاد پر کوئی
اثر نہیں ہوتا وہ اپنے اپنے کمرے میں جاکر ٹی وی دیکھنے لگتے ہیں ۔ قاری
صاحب اب آپ ہی بتائیں میں ان سے وفا کی کیسے امید رکھوں ۔
وہ شخص کچھ دیر کے لیے رکا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز گلوگیر تھی
اس نے سامنے بیٹھے ہوئے ایک شخص ( ابوالحسن ) کی جانب اشارہ کرکے کہا میری
نظر میں یہ شخص دنیا کا خوش نصیب ترین انسان ہے ۔میں جب اس کے دونوں بیٹوں
کو اردگرد کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی خوش قسمتی
پر رشک آتا ہے ۔ نماز سے فراغت کے بعد جب تمام نمازی مسجد سے باہر نکلنے
لگتے ہیں تو دونوں بیٹے باپ کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اس کے سامنے ایسے
کھڑے ہوتے ہیں جیسے بادشاہ کے سامنے غلام کھڑے ہوتے ہیں۔ باپ اپنی عینک جیب
سے نکال کر ایک بیٹے کے سپرد کرتا ہے اور وہ بیٹا تیزی سے چلتا ہوا گھر کی
جانب روانہ ہوجاتا ہے کچھ ہی دیر بعد باپ کے حکم پر وہی بیٹا گھر سے
موٹرسائیکل لاکر مسجد کے سامنے کھڑا کردیتا ہے ۔ فراغت کے بعد باپ اس
موٹرسائیکل پر صبح کی سیر کے لیے نکل جاتا اور فرماں بردار بیٹا گھر کی
جانب روانہ ہوجاتا ہے۔ دونوں بیٹوں کو باپ کے گھر آنے اور گھر سے باہر جانے
اوقات کار کا مکمل علم ہے وہ اپنے کاموں کا شیڈول کچھ اس انداز سے بناتے
ہیں کہ باپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں ۔کالج جاتے ہیں تو انہیں اس بات کا
احساس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت باپ ان کو چیک کرسکتا ہے وہ شام کو اکیڈمی
میں ہوتے ہیں تو کہیں رکنے کی بجائے سیدھے اس لیے گھر پہنچتے ہیں کہ لیٹ
ہونے کی وجہ سے باپ سے ڈانٹ نہ پڑجائے ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ابوالحسن اور ان کے جانثار بیٹوں کو دیکھ کر مجھے باپ
کی حیثیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بیٹے کی حیثیت سے حضر ت اسمعیل
علیہ السلام یاد آجاتے ہیں ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضر
ت سمعیل علیہ السلام کوحکم دیا کہ بیٹا ایک رسی اور چھر ی اپنے ساتھ رکھ لو
۔حضرت اسمعیل علیہ السلام نے پوچھا ۔ابا جان یہ سب کچھ لے کر آپ مجھے کہاں
لے کر جارہے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا حکم خداوندی ہے
کہ میں تمہیں اﷲ کی راہ میں قربان کردوں۔بیٹے نے باپ کی بات سن کر کہا ابا
جان اگر اﷲ کے حکم پر ہی آپ مجھے قربان کرنے جارہے ہیں تو مشکل کی ہر گھڑی
میں آپ مجھے صبرمند پائیں گے یہ کہتے ہوئے صبر مند اور فرماں بردار بیٹا
باپ کے ساتھ چل دیا ۔بیٹے کو باپ کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھاتو شیطان ایک بزرگ
کی شکل میں حضرت ہاجرہ ؓ کے پاس آیا اور کہا آپ کو پتہ ہے کہ حضرت ابراہیم
علیہ السلام آپ کے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے لے کر جارہے ہیں ۔حضرت ہاجرہ ؓ
نے جواب دیا کہ اول تو باپ ایسا کرنہیں سکتا اگر اﷲ کی رضاکی خاطر انہیں یہ
کرنا پڑ رہا ہے تو میں کون ہوتی ہوں روکنے والی ۔ وہاں سے مایوس ہوکر شیطان
حضر ت اسمعیل علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا والد آپ کو ذبح کرنے کے لیے
لے جارہے ہیں۔حضرت اسمعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے والد اگر اﷲ کی
رضا کی خاطر یہ کام کررہے ہیں تو میں ایک تابعدار بیٹے کی حیثیت سے انکار
کرنے والا کون ہوں۔دفعہ ہوجاؤ میری نظرسے ۔ کہیں تمہاری نحوست مجھ پر نہ
پڑجائے ۔ پھر حضرت اسمعیل علیہ السلام نے باپ سے مخاطب ہوکر کہا ابا جان
اگر آپ مجھے اﷲ کی رضاکی خاطر ذبح ہی کرنا چاہتے ہیں تو مضبوطی سے میرے
ہاتھ اور پاؤں باندھ لیجیے گا تاکہ جان کنی کی تکلیف میں مبتلا ہوکر جب میں
ہاتھ پاؤں ماروں گا تو میرے خون کے چھینٹے آپ کے کپڑوں کو خراب نہ
کردیں۔چھری کواچھی طرح تیز کرلیجیے گا تاکہ آپ کو ذبح کرنے میں مشقت نہ
اٹھانی پڑے ۔ میرے چہرے کو زمین کی طرف کرلیجیئے گا تاکہ آپ پر شفقت پدری
غالب نہ آجائے اورامر الہی میں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔باپ کی عظمت اور اور
بیٹے کی فرماں برداری سے لبریز کہانی کتابوں بلکہ قرآن پاک میں بھی موجود
ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب میں ابوالحسن کو اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوکر
حکم جاری کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے فلسفہ قربانی کا واقعہ یاد آجاتا ہے
۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ابو الحسن اپنے بیٹوں کو پیدل چلتے ہوئے دنیا کا چکر
لگانے کا حکم بھی دیں تو فرماں برداری کی انتہاء کرتے ہوئے وہ کبھی انکار
نہ کریں ۔ یہ شاید اس لیے ہے کہ بیٹوں کے دل میں باپ کااحترام اور محبت
موجود ہے انہیں اس بات کا احساس ہے کہ باپ صبح سے شام تک جو محنت مزدوری
کرتا ہے وہ ان کے لیے ہی کرتا ہے ۔ میں سمجھتاہوں اولاد کے دل میں اگر یہی
احساس پیدا ہوجائے تو کوئی بیٹا اپنے باپ اور ماں کی حکم عدولی نہ کرے ۔
جب ہم یہ باتیں کررہے تھے تو وہیں بیٹھا ہواایک اور عمر رسیدہ شخص بولا کہ
ہم اپنے باپ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ سردیوں کے ایام میں جب کہ انتہائی
ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا باپ کے حکم کے تعمیل کرتے
ہوئے میں جوہڑ کے برفانی پانی میں ننگے جسم اتر جاتے تھے اور تہہ کی ملائم
مٹی نکال کر غلیلے بنایا کرتے تھے جس سے میرے والد شکار کھیلتے تھے ۔ رات
کے کسی بھی وقت والد یا والدہ کو پیاس لگتی تو ان کی زبان سے پانی کالفظ
سنتے ہی ہم پانی لینے کے لیے دوڑ پڑتے لیکن آج کل کی اولاد کو اگر کوئی کام
کہہ دیا جائے تو پہلے ان کے چہرے پر شکن پیدا ہوتی ہیں پھر ناگواری کے
اثرات نمایاں ہوتے ہیں پھر زبان سے انکار نکل آتاہے ۔ وہ باپ جو ساری عمر
ان کے سکھ اور چین کے لیے اپنی جوانی اور صحت قربان کردیتا ہے وہ ماں جو
اپنے بچوں کو جوان دیکھنے کے لیے دعائیں مانگتی مانگتی بوڑھی ہوجاتی ہے
لیکن جب بیٹے جوان ہوجا تے ہیں تو وہ ماں کو بوجھ اور باپ کو فالتو چیز
تصور کرکے قدم قدم پر ان کی توہین کا باعث بنتے ہیں ۔
مسجد میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ جب ابو الحسن کو خوش نصیب انسان کی صورت میں
حسرت سے دیکھ رہے تھے تو ان کے چہرے پر فخریہ تبسم ابھر رہاتھا وہ فخر کیوں
نہ کریں ان کے فرماں بردار بیٹوں نے ان کا سر اپنی فرماں برداری سے معاشرے
میں اونچا کررکھا ہے وہ شہنشاہ کی طرح ٹہلتے ہوئے جب مسجد سے اپنے گھر کی
جانب جارہے ہوتے ہیں تو ان کے بیٹے غلاموں کی طرح ان کے پیچھے پیچھے آرہے
ہوتے ہیں مجال ہے کہ بیٹے با پ سے چند قدم بھی آگے نکل جائیں ۔
میں جب ان تاثرات کااظہار کررہا تھا تو قاری محمد اقبال صاحب نے فرمایا کہ
بے شک ابوالحسن صاحب کے صاحبزادے اس وقت فرماں برداری کی بہترین مثال بن
چکے ہیں لیکن شادی کے بعد ان کے رویوں میں کیا تبدیلی آتی ہےٗ اصل حقیقت اس
وقت ہی پتہ چلے گی ۔ |