وہ با ر ہو یں جما عت کا ہینڈ سم
نو جوان ا پنے گھر محلے اور کا لج میں سب کی آ نکھ کا تا رہ تھا عبد ا للہ
نہ صرف ذ ہین و فطین تھا وہ حسن و جما ل میں بھی بے مثا ل تھا وہ ذات کا
پٹھان تھا جو ا رادوں کے پکے اور ا عصاب کے مضبو ط ہو تے ہیں اسکی مستقل ر
ہا ئش تو خیبر پختو نخواہ کے ایک چھو ٹے سے گا و ں میں تھی مگر وہ اپنی
پڑھا ئی کی و جہ سے شہر میں اپنے دو ستو ں کے سا تھ ہو سٹل میں رہ ر ہا تھا
کیو نکہ اسکا ا یڈ میشن شہر ہی کے ایک مشہو ر کا لج میں میرٹ پر ہو گیا تھا
ا یسے معجزا ت پا کستان میں کم ہی ہوا کر تے ہیں مگر یہ عبد ا للہ کی خو ش
قسمتی تھی کہ ا سکا ایڈ میشن بغیر کسی سفا رش کے ایک نا مور تعلیمی ادارے
میں ہو گیا تھا اس نے بھی مو قع کو غنیمت سمجھا اور ا علی تعلیم حا صل کر
نے کے لیئے ا پنے گھر سے کو سو ں دور چلا آ یا کچھ دن تو شہر میں اسکا اپنے
گھر وا لو ں کے بغیر دل ہی نہ لگا مگر جب اس کے وا لد ین نے اسے ا پنی محبت
کے وا سطے د یئے تو وہ و ہا ں ر ہنے اور پڑ ھنے پر مجبور ہو گیا اسکا لمبا
قد بڑی بڑی آ نکھیں کشادہ سینا مضبو ط ہا تھ تو نا ئی سے بھر پور تھرا تا
ہوا جسم تھا اور گفتگو سے کو ئی مد بر معلوم ہو تا اسکے حسن کو دیکھ کر ا
کثر کلا س میں سے آوا زیں آ تیں کہ حسن یو سف کہو ں اسکو اور کچھ نہ کہے
خیر کو ئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عبد ا للہ ا پنی اور ا پنے حسن کی تعر یف پسند نہ کر تا تھا وہ ا کثر
کہتا میر ے منہ پر میر ی تعر یف نہ کیا کرو میں خوش فہم ہو جا وں گا اور
خوش فہم لو گ مجھے ب لکل بھی پسند نہیں ہیں جب وہ کلا س میں آتا تو پرو
فیسر صا حب اسے میرا بیٹا میرا بیٹا کہہ کر مخا طب کر تے پر و فیسر خلجی صا
حب اس سے ا سکی ذ ہا نت و فطا نت کی و جہ سے ا نسیت ر کھتے تھے اور ہمیشہ
شفقت سے پیش آ تے کلاس میں وہ وا حد لڑ کا تھا جس سے کو ئی بھی متا ثر ہو
ئے بغیر نہ رہ سکتا تھا وہ ہو نہار طا لب علم ایک کا میا ب ا نجینئیر بننے
جا ر ہا تھا اسکی آ نکھو ں میں کچھ کر د کھا نے کی چمک تھی ا را دو ں کے
مضبو ط عبد ا للہ کے ا را دے ٹو ٹنے وا لے ہیں اسے خبر تک نہ تھی وہ ا پنی
پڑھا ئی میں مشغول ر ہتا یا دو ستو ں کے سا تھ گپ شپ کر لیا کر تا وہ گپ شپ
کے دوران ا کثر ا پنے گا وں کی با تیں کر تا اور ا پنے بہن بھا ئیو ں کو
بہت یا د کیا کر تا اسکے ۔۔۔۔۔اسکے علا وہ دو بھا ئی اور ایک بہن تھی جو کہ
ا بھی چھو ٹے تھے اور ا پنے وا لس ین کے سا تھ گا و ں ہی میں ر ہتے تھے اور
وہ بھی عبد اللہ کیطر ح قابل تھے ا نکے وا لد نے ا نھیں اس لیئے پڑ ھا نے
کا سو چا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے گا و ں اور ملک کا نام روشن کر یں گے
اور گا وں کے مجبو ر و بے کس لو گو ں کی مدد کر یں گے لو گو ں میں شعور
پیدا کر یں گے اور بتا ئیں گے کہ ا پنے حق کے لیئے کیسے لڑا جا سکتا ہے ا
پنے سا تھ ہو نے وا لی ز یا د تیو ں اور ظلم کا خا تمہ کیسے ممکن ہے و ہا ں
کے لو گ بے حد غر یب اور سا دہ تھے بجلی گیس تو دور کی با ت صاف پا نی تک
میسر نہ آ تا بعض او قا ت تو مو یشیو ں اور ا نسا نو ں کو ا یک ہی جگہ سے
پا نی پینا پڑتا جسپر گور نمنٹ اور میڈ یا خا مو ش تما شا ئی نظر آ تا ہے
یا شا ئد کسی کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ اس رو ح ار ضی پر عبد ا للہ کے گا و
ں جیسے بھی گا و ں بستے ہیں لو گو ں کو ا پنی چھو ٹی چھو ٹی ضرو رتیں پو ری
کر نے کے لیئے شہر آ نا پڑتا اور خوا ہشیں تو شا ئد ا یسے علا قو ں میں ر
ہنے وا لے لو گ پا لتے ہی نہیں ہیں عبدا للہ کی عمر تو چھو ٹی تھی مگر وہ
با تیں بڑی بڑی کیا کر تا تھا ا یک دن جب عظم و حو صلہ کا پہا ڑ عبدا للہ
کلا س میں آ یا تو اسکی آ نکھو ں سے آ نسو چھلک ر ہے تھے اسکی آ نکھو ں میں
یہ آنسو کیسے تھے جو کہ آب روا ں کیطر ح بہتے جا ر ہے تھے آج اسکے کند ھے
جھکے ہو ئے تھے حلیہ بگڑا ہوا تھا آ نکیھں سر خ ہو ر ہیں تھیں وہ زارو قطار
رو رہا تھا اور بو لتا جا رہا تھا خلجی صا حب سب کچھ ختم ہو گیا ۔۔۔۔۔۔اب
آپ ہی بتا ئیں میں کہا ں جا و ں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟عبد ا للہ میر ے بیٹے کیا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔؟ پرو فیسر نے بے چین ہو کر پو چھا کیو ں خلجی صا حب انکے سا تھ
ایسا کیو ں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔؟ ان معصو مو ں کا کیا قصور تھا ۔۔۔۔۔؟ آ خر ا نھو ں
نے کسی کا کیا بگا ڑا تھا ۔۔۔۔۔۔؟ ا نکی کسی سے کیا د شمنی تھی ۔۔۔۔۔؟سب جا
ننے کے لیئے بے چین تھے کی آ خر ہوا کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ میر ی د نیا لٹ گئی ہے
پر و فیسر صا حب میر ے محبت کر نے وا لے ماں باپ اور لا ڈ لے بہن بھا ئی سب
کے سب ملبے کا ڈ ھیر بن چکے ہیں میں اس د نیا ں میں تنہا رہ گیا ہو ں لو گو
۔۔۔۔۔۔۔! وہ اب چیخ ر ہا تھا اور د ھا ڑ یں ما ر مار کر رو رہا تھا میرا
گھر ملبے کا ڈ ھیر بن گیا ہے ا مر یکہ کی طر ف سے دا غے جا نے وا لے ڈرون
حمو ں کی نظر ہو گیا پھر وہ للکار للکا ر کر کہنے لگا اب میں ا پنے ما ں با
پ کا بد لہ ضرور لو ں گا اب میں ز ندہ ر ہنا نہیں چا ہتا اور ہا ں اب میں
خود کش د ھما کو ں سے بھی باز نہ آو ں گا وہ سسک ر ہا تھا آ ہیں بھر رہا
تھا اور پو را کا لج اسکا تما شا د یکھ ر ہا تھا اسکی آہ و بقاء سننے وا لا
کو ئی بھی نہ تھا لہذا اسکے بعد کئی دن گزر گئے مگر عبدا للہ کا لج نہ آ یا
جب پرو فیسر صا حب اسکے پاس گئے تو اس نے بتا یا کہ اسکا اب پڑھا ئی میں دل
نہیں لگتا پرو فیسر صا حب نے اسے بہت دلا سہ د یا اور وہ سب کچھ بھلا دینے
کی تلقین بھی کی لیکن بے سود۔۔۔۔۔ اس نے تو جیسے بد لہ لینے کا فیصلہ ہی کر
لیا تھا وہ بد لہ لینا چا ہتا تھا مگر کس سے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور کیسے۔۔۔۔۔؟ وہ دن
را ت یہ ہی سو چتا ر ہتا پھر ایک دن ا چا نک اس کے ذہن میں ا چا نک و ہی
جملے گر دش کر نے لگے جو اس نے جذ با ت میں آ کر یو نہی کہ د یئے تھے میں
کسی طر یقے سے بھی کفار کا مقا بلہ ضرور کروں گا اور اسکے لیئے میں خود کش
د ھما کو ں سے بھی باز نہ آو ں گا اسکے ذ ہن پر یہ صد مہ اس قدر ا ثر کر
گیا تھا کہ اب وہ نہ کچھ کھا تا تھا نہ پیتا تھا بس ایک ہی رٹ تھی کہ میں ا
پنے ما ں باپ اور بہن بھا ئیو ں کے خون کا بد لہ ضرور بہ ضرور لو ں گا خون
کا بد لہ بس خون ہی ہو سکتا ہے اس مقصد کے لیئے وہ پا کستان کے کو نے کو نے
میں مارا مارا پھر تا ر ہا کہ شا ئد اسے طا لبان جیسی کو ئی طا قت مل جا ئے
جو ا مر یکہ کی س شمن ہے وہ دن رات میڈیا پر اور لو گو ں کی سنی سنا ئی با
تو ں پر یقین کر کے طا لبا ن کو ڈھو نڈنے نکل پڑا تھا مگر پا کستان میں طا
لبان نا می کو ئی طا قت ہو تی تو اسے ملتی اس نے تو یہ بھی سنا تھا کہ طا
لبان ہی کی تلا ش میں ا مر یکہ نے اس کے گھر کو ملبے کے ڈ ھیر میں بد ل کر
رکھ دیا تھا آ خر ۔۔۔۔۔۔سال بھر پا کستا ن کا چپا چپا چھا ننے کے بعد وہ اس
نتیجے پر پہنچا کہ پا کستان میں ا یسی کو ئی اور طا قت نہیں ہے جو ا مر یکہ
کی د شمن ہو بلکہ اس دن کے بعد وہ اور اس جیسے کئی دوسرے نو جوان ا مر یکہ
کے خلا ف ضرور ہیں پھر عبد اللہ نے سو چا پا کستان کی حکو متیں مفاد پر ست
اور ا مر یکہ کی دو ست ہو سکتی ہیں مگر عوام نہیں عوام ضرور اسکا ساتھ دے
گی پھر وہ پا کستان کی با اثر عوام سے چلا چلا کر کہتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔کہ خدارا
مجھے ا نصاف چا ہیئے ا گر مجھے ا نصاف نہ ملا تو میں کسی حد تک بھی جا سکتا
ہو ں مگر اسکی آواز کسی نے بھی نہ سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ خر وہ ا یک دن تھک ہار کر
پرو فیسر خلجی سا حب کے پاس آ یا تو خلجی سا حب نے اسے گلے تو لگا لیا مگر
۔۔۔۔۔۔۔اس معا ملے میں اسکی مدد کر نے سے صا ف ا نکار کر دیا اور بتا یا کہ
وہ پو ری طر ح بے بس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے کسی صورت بد لہ لے کر نہیں دے
سکتا کچھ دیر تو وہ رو تا اور سسکتا ر ہا پھر ا پنے آ نسو پو نچھتا ہوا یہ
کہ کر وآ پس پلٹ گیا ۔۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔۔۔خلجی صا حب آج مجھے ہتھیا ر ا ٹھا نے
سے کو ئی بھی نہیں رو ک سکتا ۔۔۔۔۔۔۔اب عبدا للہ کی د شمنی ہر اس شر پسند د
ہشت گرد سے تھی جو بے گنا ہ مسلما نو ں کا خون بہا تے ہیں اس نے سو چا آج
سے وہ د ہشتگر دو ں کے لیئے د ہشت گرد ہے ۔۔۔۔۔۔صر ف اور صرف د ہشت گرد
۔۔۔۔۔!!! |