انسان کس کس بات پر حکمران کی بے
حسی، نا اہلی اور ناکامی کا ماتم کرے۔ سارے دن میں بیسیوں مسائل ایسے نظر
آتے ہیں جو نام نہاد گڈ گورننس کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ کہتے
ہیں پورے پاکستان کی نسبت لاہور کے حالات سب سے بہتر ہیں۔ میں لاہور کا
مکین ہوں۔ اگر یہ بہتر حالات ہیں تو جہاں بہتر نہیں وہاں کیا ہوگا؟ سوچ سوچ
کر انسان پاگل ہو جاتا ہے۔
میرے کچھ عزیز پاکستان سے باہر ہیں۔ ان کا آبائی گھر شام نگر چوبرجی میں
واقع ہے۔ چونکہ وہ ان کی آبائی زمین ہے۔ اس لیے اردگرد تمام عزیز و اقارب
کے گھر ہیں۔ چار دن پہلے ایک عزیز کو صبح پانچ بجے کے قریب ان کا کمرے کا
دروازہ توڑنے کی آواز آئی۔ اس نے شور مچا دیا۔ تین نوجوان بھاگ کر گھر سے
باہر نکلے اور سب کے سامنے یہ جا وہ جا۔ گھر مین دیکھا تو سوائے اس پچھلے
کمرے کے جس کا دروازہ ابھی ٹوٹا نہیں تھا۔ باقی تمام کمروں سے قیمتی اشیاء
اور کپڑے غائب تھے۔ ٭٭٭کی تمام چیزیں جو ٭٭ یا دھاتوں کی بنی ہوئی تھیں
اتار کر رکھی ہوئی تھیں۔ بہت سا سامان بندھا ہوا تھا جو شور مچنے پر چھوڑ
گئے تھے۔ پتہ چلا کہ چوری کی ایسی وارداتیں اس علاقے کا معمول ہے۔ پولیس
موقع واردات پر آئی اور یہ کہہ کر کہ نشے کے عادی لوگوں کا کام ہے، چلی گئی۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا المیہ ہے کہ چوری ہونے کے باوجود اپنے سامان
کے حصول کی جستجو کے لیے پاکستان نہیں آتے۔ اس لیے کہ ایک تو سامان لٹ گیا
اور اگر آکر پولیس کے پیچھے پڑیں تو پولیس علیحدہ لوٹتی ہے۔ آنے جانے کا
کرایہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ تو مزید لٹنے سے بچنے کے لیے صبر شکر پر گزارہ کرتے
ہیں۔
وہاں قریب ہی پرانا پمپنگ اسٹیشن ہے اور نالا بھی گزرتا ہے۔ نالے کے کنارے
کنارے ساری سرکاری زمین وہاں کے ایک با اثر شخص نے کرائے پر دی ہوئی ہے اور
اس زمین پر بہت سے خانہ بدوش نما لوگوں نے جھگیاں بسائی ہوئی ہیں۔ یہ جگیوں
میں رہنے والے زیادہ تر لوگ جرائم پیشہ ہیں۔ مگر اس با اثر شخص کی وجہ سے
پولیس بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ آئے بھی تو اپنا حصہ وصول کر کے واپس چلی
جاتی ہے۔ سارے علاقے کو ان لوگوں اور ان کے جرائم کے بارے میں مکمل معلومات
ہیں مگر انہیں یقین ہے کہ شکایت کی صورت میں کوئی کاروائی نہیں ہوگی اور
الٹا انہیں برے نتائج کا بھی سامنا ہوگا۔ اس لیے کوئی زبان کھولنے کو تیار
نہیں۔ میں نے جب انہیں شکایت کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ کس سے
اور کس کی شکایت کی جائے۔ پولیس کو پہلے ہی سب کا پتہ ہے وہ کاروائی کرنا
چاہے تو کر سکتی ہے۔ مگر کیوں کرے؟ چوروں اور ڈاکوؤں سے اپنے خوشگوار
تعلقات کیوں خراب کرے؟ یہاں تو روزانہ چوری ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی ڈاکہ
پڑتا ہے۔ پولیس کا معمول ہے آتی ہے، رسمی کاروائی کرتی ہے، متاثرین کو
حوصلہ دیتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ کوئی تھوڑا با اثر ہو تو مجبوراً ایف آئی
آر کا اندراج بھی ہو جاتا ہے، مگر یہ بہت کم ہوتا ہے۔
اسی دن میں رائے ونڈ روڈ پر واپس آرہا تھا۔ رائے ونڈ روڈ سیوریج کی کھدائی
کے سبب ایک طرف سے مکمل کھدی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف دونوں اطراف کی ٹریفک
چلتی ہے۔ LDA ایونیو کے قریب ایک مرغیوں سے بھرا ٹرک سامنے سے آرہا تھا۔
یکایک ایک ویگن پیچھے سے آئی اور اس ٹرک کو اوور ٹیک کرنے لگی جبکہ اوور
ٹیک کرنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ میں نے بچنے کے لیے تیزی سے گاڑی فٹ پاتھ کے
ساتھ لگا دی۔ فائدہ ہوا کہ گاڑی سامنے سے نہیں لگی ورنہ میں بھی خطرے میں
ہوتا۔ بہرحال ویگن سامنے سے ٹکرانے سے بچ گئی مگر میری گاڑی کے دونوں
دروازے اور پچھلا حصہ بری طرح تباہ کرتی گزر گئی۔ لوگوں نے شور مچادیا۔
ویگن تھوڑے فاصلہ پر رک گئی۔ ڈرائیور میرے پاس آگیا اور معافی مانگنے لگا
کہ غلطی ہو گئی مگر میرا قصور نہیں۔ اوور ٹیک کرتے وقت گاڑی کی بریک نے کام
نہیں کیا، گاڑی کیسے روکتا۔ ڈراوئیور کی حمایت میں اس کی ویگن کی سواریاں
بھی پہنچ گئیں۔ وہ بھی گواہی دینے لگیں کہ جناب اس کا کوئی قصور نہیں واقعی
بریک نہیں لگی۔ پوچھا بھائی آپ کو کیسے پتہ؟ بتانے لگے کہ پیچھے کافی راستے
سے نہیں لگ رہی تھی۔ اس لیے بہت آہستہ آرہا تھا۔ یہاں بیچارے نے اوور ٹیک
کرنے کے لیے ذرا تیز کی تو آپ سامنے آگئی۔ یعنی سامنے آنا میرا قصور تھا۔
مجھے افسوس ہوا کہ کس قدر بے حس لوگ ہیں کہ ایک ڈرائیور ان کی زندگی سے
کھیل رہا ہے اور وہ پھر بھی اس کے ہمدرد ہیں۔ ایسی ہی کوئی بس جب کسی آئل
ٹینکر سے ٹکراتی ہے اور پچاس ساٹھ مسافر مر جاتے ہیں تو کوئی اصل قصور وار
نہیں پہنچتا۔ آئل ٹینکر کو کوستے ہیں۔ اس ڈرائیور، گاڑی کے مالک، اس علاقے
کے ٹرانسپورٹ کے انچارج کہ جس نے گاڑی کو سڑک پر چلنے کے لیے فٹ قرار دیا
پھانسی پر کیوں نہیں لٹکاتے؟ اگر یاسا کر دیں تو مستقبل کے بہت سے حادثات
سے بچا جا سکتاہے۔
ایک خوبصورت سا نوجوان مجھے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا غریب آدمی ہے، اس
سے آپ کو کیا ملے گا؟ میں کہہ کر اس سے آپ کو ہزار روپیہ دلا دیتا ہوں۔ آپ
کی گاڑی انشورڈ ہوگی، انشورنس والوں سے صحیح کروا لیں۔ یہ ہزار روپیہ نفع
سمجھیں۔ برخوردار یہ 2006ء کا ماڈل ہے۔ انشورنس والے ایسی پرانی گاڑیاں
انشورنہیں کرتے۔مگر جب تک تم جیسے بے حس اور بے غیر نوجوان ہم میں موجود
ہیں ہماری حالت نہیں بدل سکتی۔ میرے تلخ لہجے کے نتیجے میں وہ فوراً کھسک
گیا۔ اس دوران بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ کہاں سے آئے معلوم نہیں۔ وہ لوگ
چلیں جی چلیں کہہ رہے تھے۔ مگر کہاں؟ جاوید صاحب نے کہا کہ ٹھوکر پر تشریف
لے آئیں سب مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ پولیس کو فون کیا ہے آرہی
ہوگی۔ جواب ملا کہ پولیس نہین آئے گی۔ جاوید صاحب نے کہہ دیا ہے کہ وہ
مسئلہ حل کر رہے ہیں۔ اب پولیس کا کوئی کام نہیں۔ اس ڈرائیور کے پاس کوئی
گاڑی کے کاغذ نہیں تھے، کوئی لائسنس نہیں تھا۔ ایک چالان کی پرچی تھی وہ
بھی شاید جعلی تھی۔ وہاں ایک مکینک نے مجھے کہا کہ ٹھوکر مت جائیں۔ یہ
بدمعاش لوگ ہیں۔ جاوید ٹھوکر پر اڈے کے مالک ہیں اور ان تمام ویگنوں سے
ماہانہ لیتا اور انہیں پولیس اور ٹریفک پولیس سے بچانا اس کا کام ہے۔ ویگن
وہاں پہنچ کر محفوظ ہے اور آپ غیر محفوظ۔ تمام ڈرائیوروں کو جو جاوید کو
ماہانہ دیتے ہیں۔ چالان کی ایک جعلی پرچی دے دی جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت
ہے کہ یہ جاوید کے بندے ہیں۔ پولیس پرچی دیکھ کر انہیں کچھ نہیں کہتی بلکہ
تحفظ دیتی ہے۔ بہرحال میرا مسئلہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی پر نپٹا۔ مگر
کیا یہ بات جو مجھے چند لمحوں میں پتہ چل گئی۔اہل اقتدار کو نہیں پتہ ہوگی۔
یقینا ہوگی مگر یہ باقی ان کے کارندے ہونگے یا لے پالک۔ جن سے ان کے اقتدار
کی عمارت قائم ہے۔ |