نئی قومی ایوی ایشن پالیسی ، ایک اچھی کوشش

جدید دور میں فضائی سفر کی افادیت سے انکار نا ممکن ہے ، بلکہ کسی ملک کی ترقی میں ایوی ایشن ایک ستون کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ ایوی ایشن انڈسٹری نہ صرف فضائی سفر کی سہولیات کی دیکھ بھال کرتی ہے بلکہ ملکی خزانے میں خطیر اضافہ بھی کرتی ہے ، جسکی مثال گزشتہ سال میں سول ایوی ایشن کا نو ارب کا ٹیکس ہے ۔ مختلف قومی اور نجی فضائی کمپینیاں بھی ملکی خزانے میں ڈھائی ارب سے زیادہ کا سالانہ ٹیکس جمع کرواتی ہیں ۔ جن میں صرف پی آئی اے ایک ارب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہے ۔

مگر ایک بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی کم ہے ، پوری دنیا میں فضائی ٹرانسپورٹ انڈسٹری ۶۰ لاکھ کے قریب ملازمتیں دیتی ہے ، جبکہ دنیا کی اکنامی کو ڈھائی ٹریلین ڈالر بھی کما کے دیتی ہے ، اسی لیے ریسرچ کہتی ہے کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری دو سے تین گنا زیادہ منافع بخش ثابت ہو گی ۔ مگر پاکستان اس سرمایہ کاری میں دنیا کے ملکوں سے بہت ہی پیچھے ہے ، بھارت کی جی ڈی پی میں اس انڈسٹری کا حصہ 1.5 فیصد ہے جو نو ارب بھارتی روپے سے بھی تجاوز کرتا ہے جبکہ خطے کے دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ تھائی لینڈ (۹ فیصد) ملائشیاء (۶،۳ فیصد) اور فلپائن میں ڈھائی فیصد ہے ۔ جبکہ پاکستان ان سب ممالک سے بہت ہی پیچھے ہے کہ یہاں ایوی ایشن انڈسٹر ی کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 0.004 فیصد سے بھی نیچے ہے اور وہ بھی کُل انڈسٹری کا ، ظاہر ہے یہ کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے ، اور خاص طور پر اس صورت میں جبکہ فضائی سفر اب امراء کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ اب معاشرے کا ہر طبقہ اسے استعمال کرتا ہے ، پاکستا ن میں عوام سب سے زیادہ ٹیکس اسی فضائی سفر پر دیتی ہے جو کہ ۳۷ فیصد سے لیکر ۹۶ فیصد تک ہے جو کہ اس انڈسٹری میں سب سے زیادہ ٹیکس ہے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ، جہاں ملائشیا میں سب سے کم یعنی ڈھائی فیصد ٹیکس ہے ایک فضائی سفر پر جبکہ بھارت میں ۲۲ فیصد ایران میں ۸ فیصد ، سری لنکا میں دس فیصد اور بنگلہ دیش میں ۷ فیصد کے قریب ہے ۔

انہیں عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے ،وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر ۲۰۱۴ میں نئی ایوی ایشن پالیسی تشکیل دی گئی ہے ، تاکہ اس انڈسٹری سے فائدہ اُٹھایا جا سکے ، اور اسکی ترویج سے نہ صرف ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جا سکیں بلکہ ملکی خزانے کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکے ۔
اس نئی پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں : ایوی ایشن انڈسٹری کو تجزیاتی مطالعہ کے ذریعے سے دوبارہ تشکیل دیا جائے، پاکستان سول ایوی ایشن کی استعداد کو بڑھایا جائے اور انکی سروسز کو وسیع کیا جائے، پروفیشنلزم کو پرائیویٹ اور پبلک ساجھے داری میں بڑھایا جائے، پاکستانی ایوی ایشن کے کاروبار کو سہولیات دی جائیں ، بین الاقوامی انڈسٹریز کے لیے دروازے کھولے جائیں ، اور عمومی ایوی ایشن کو ترجعیحی طور پر سامنے لایا جائے۔ ہمارے ملک کے دس فیصد لوگ فضائی سفر کرتے ہیں ، جن میں ستر لاکھ اندرونی اور ایک کروڑ کے قریب بیرونی سفرکرتے ہیں ، جس میں پچاس فیصد گورنمنٹ کو ہر ٹکٹ پر ٹیکس ادا کیا جاتا ہے ۔ اسی لیے پاکستان سول ایوی ایشن کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے سروسز کو ریگولیشن سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جس میں بنیادی توجہ حفاظتی اقدامات کو دی جارہی ہے ، جسکی وجوہات ہمارے ہاں ہونے والے دھشت گردی کے واقعیات بھی ہیں ۔ اس کے لیے سیفٹی انوسٹیگیشن بورڈ (SIB) کو آزاد بنا کہ ایوی ایشن کے وزیر کو جواب دہ کردیا گیا ہے ۔ اور اسکے لیے ضروری قانون سازی بھی کی جائے گی ، اور حفاظتی اقدامات کو ترجعیحی بنیادوں پر ریگلولائز کیا جائے گا ، ان اقدامات کے علاوہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی بہتری کے لیے چیف آپریٹنگ آفیسرز کو تمام اہم ائیرپورٹ پر تعینات کیا جائے گا جو کہ ایوی ایشن کے تمام کاموں کی نگرانی کریں گے جو کہ دیگر ایجنسیاں اور انکے افسر انجام دیں گے ۔

ان سب اقدامات سے نہ صرف ملکی خزانے کو فائدہ پہنچے گا بلکہ نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے ۔ پاکستان میں ایوی ایشن انڈسٹری کی ترقی سے ہم بہت اچھے ایوی ایشن پروفیشنلز پیدا کر سکیں گے اور اس سے ہماری سیاحت کی صنعت کو بھی بہت فائدہ پہنچے گااور پاکستان کے وقار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نجی شعبے کو بھی ایوی ایشن انڈسٹر ی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہی ہے ، اور خاص کر اُن علاقوں میں جہاں کارباری کمپنیاں اپنی ائیر سٹرپس (چھوٹے ہوائی اڈے ) اور فضائی سفر کی سہولیات دے سکتی ہیں اور سول ایوی ایشن انکی اس سلسلے میں رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے ۔ جو کہ پانچ سالوں میں ایک ہزار پائلٹس اور پچاس تربیتی طیاروں کو اس کے مختص کر رہی ہے ۔ مقامی طور پر تیار ہونے والا تربیتی طیارہ مشاق جو پاکستان ائیر فورس نے بنایا ہے ، اسکو بھی استعمال کیا جائے گا۔

ٹیکسز کے نظام کو مزید بہتر کر کہ ایوی ایشن انڈسٹریز کو فائدہ دیا جا سکتا ہے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو ، اور ہماری اس انڈسٹری کی ترقی سے ملک کی ترقی میں اضافہ ہو۔پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اندر یہ صلاحت بدرجہ اُتم موجود ہے کہ وہ فضائی سفر کی سہولیات کو بہتربنانے میں مدد دے ، اسی لیے اپنی مالی اور انتظامی صلاحیت کو بڑھایا جا رہا ہے ، جس میں ادا شدہ سرمائے کو دس سے پچاس کروڑ تک اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ کسی بھی ائیر لائن کو شروع کرنے کے لیے اب صرف تین طیارے جو کہ اندرونی فضائی سہولت دے سکیں ، ضروری ہونگے ، جب کہ بین الاقومی فضائی سفر کی خدمات شروع کرنے کے لیے پانچ طیارے ہونا لازمی ہونگے ۔ یاد رہے بین الاقومی فضائی سفر کی خدمات کی اجازت ایک سال تک اندرونی خدمات کے بعد ہی دیا جائے گی۔ اسکے علاوہ بارہ سال سے پرانے طیارے کے استعمال کی اجازت نہیں ہو گی ، اور طیارے کوبیس سال سے زیادہ استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا اورپچاس فیصد فلیٹ کو ڈرائی لیز پربھی رکھنے کی اجازت ہو گی ۔ ان اقدامات سے ملک میں فضائی سفر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا، اور ملک میں پہلے سے موجود فضائی خدمات کی کمپنیاں بھی استفادہ کر سکیں گیں ۔

پاکستان اﷲ کے فضل سے ایک وسیع رقبے پر پھیلا ملک ہے ، ہماری سرزمین ایک بہت اہم جگہ واقعیٰ ہونے کی وجہ سے ایک بہتری فضائی راستہ ہے جو کہ وسطی ایشائی ریاستوں کے لیے ایک بہت مختصر ائیر کوریڈور فراہم کرتا ہے ، اگر ہماری ایوی ایشن انڈسٹری مضبوط ہو گی تو ہم خطے میں بہت اہم کردار ادا کرسکیں گے ۔

پاکستان اپنی ایوی ایشن انڈسٹری کو توجہ دے رہا ہے اور انشااﷲ ہم جلد اس انڈسٹری میں بھی دنیا میں ایک بہترین مقام حاصل کر لیں گے ۔ اور سفری سہولتوں میں آسانی اور اضافے سے ملک کے اندراور باہر رہنے والے پاکستانیوں کو آمد ورفت میں آسانی ہو گی اور ساتھ ساتھ ہم اپنی پہچان بھی ایک ترقی کرتی ہوئی قوم میں کروا سکتے ہیں ۔ پاکستان کے پاس کبھی بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں رہی ، پاکستان اپنے خراب اندرونی حالات کے باوجود جدید دُنیا کے ہم آہنگ رہا ہے ۔ پاکستان کی سرکاری اور نجی فضائی کمپنیاں اس ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں ، اور پاکستان سول ایوی ایشن انکے ساتھ ملکر مزید ترقی کے مواقعے پیدا کررہا ہے ، اﷲ پاکستان کو دن دُگنی رات چُگنی ترقی دے ، آمین ۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39961 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.