ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ میں یہ
انکشاف کیا گیا ہے کہ اگلے دو سال میں بھارتی معیشت اس قدر استحکام حاصل
کرلے گی کہ معاشی میدان میں خطے میں اپنے مدمقابل چین کو پیچھے چھوڑ دے گی
۔ واشنگٹن میں قائم ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا جائزہ لینے والے ایک ادارے
نے بھارتی حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے معاشی و اقتصادی اصلاحات کو
موزوں اور موثر قراردیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جن کی حکومت
اتنے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں نہیں آسکی تاہم اقتدار سنبھالنے کے
بعد مودی سرکار نے اعلان کیا تھا کہ ہماری چھوٹی سرکار ملک کے مفاد میں
ایسے بڑے بڑے فیصلے عمل میں لائے گی جن سے معاشی ترقی کے اہداف کا حصول
ممکن ہوسکے گا ۔
ورلڈ بینک نے اپنی جاری شدہ رپورٹ ’’ گلوبل اکنامک پراسپیکٹس‘‘ میں کہا ہے
کہ بھارت کی نومنتخب حکومت نے جہاں معاشی ترقی کے لئے نئے منصوبوں کا آغاز
کیا ہے وہیں ایسے کئی فیصلوں سے پیچھے ہٹنا مناسب سمجھا جو معاشی ترقی کی
راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے ۔ رواں مالی سال کے دوران بھارتی سرکار نے
کوئلے کی صنعت میں پرائیویٹ انوسٹمنٹ کی نئی راہیں کھولتے ہوئے 10 فیصد
شیئرز فروخت کے لئے پیش کئے اس کے ساتھ ساتھ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے
تعین کے حوالہ سے قانون سازی میں ترامیم کی گئیں ہیں جن سے پالیسی برائے
خزانہ (Fiscal Policy) پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ مزید برآں لیبر
مارکیٹ قوانین میں نرمی کی گئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے
بھی کوششیں عمل میں لائی گئی ہیں ۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
اس وقت چین کی معیشت خطے میں سرفہرست ہے لیکن بھارتی معیشت جس طرح تیزی سے
بہتری کی طرف گامزن ہے 2017ء تک یا اس سے قبل ہی یہ چین کے مدمقابل کھڑی
ہوگی ۔ معاشی ماہرین کے مطابق 2017ء تک بھارت میں شرح نمو (Growth Ratio)
7% تک پہنچ جائے گی جبکہ اس وقت چین کی شرح نمو 6.9 فیصد ہوگی ۔ معاشی
ماہرین کے مطابق بھارتی حکومت محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری کے حوالے سے
سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے جو معیشت میں اضافے
کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ اس وقت بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت میں اپنا
بزنس شروع کرچکی ہیں جبکہ بیسیوں کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو بھارت میں سرمایہ
کاری کے لئے پر تول رہی ہیں ۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2011ء کے بعد بھارت کی
برآمدات میں اضافہ جبکہ درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ بتدریج
جاری ہے ۔ حال ہی میں امریکی صدر براک اوبامہ کے دورہ ء بھارت کو بھی معاشی
حوالے سے ایک کامیاب دورہ قرار دیا جارہا ہے ۔ اس دورے میں جہاں دونوں
ممالک کے درمیان کئی معاشی و تجارتی معاہدے کئے گئے ہیں وہیں یہ فیصلہ بھی
کیا گیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے مابین تجارت کے موجودہ حجم 100 بلین
ڈالر سے بڑھا کر 500 بلین ڈالر کیا جائے گا ۔
اس کے علاوہ صدر اوبامہ کے دورہ میں دفاع ، نیوکلیئر انرجی اور دیگر
اقتصادی شعبوں میں ایسے معاہدے کئے گئے ہیں جن سے بھارت کو آنے والے وقت
میں متعدد فوائد حاصل ہونے کی توقع کی جارہی ہے ۔ بھارت نے امریکہ کو یہ
باور کروایا ہے کہ خطے کے ہمسایہ ملک چین کی نسبت اس نے امریکہ کے ساتھ
تجارتی تعلقات اس قدر استوار کررکھے ہیں جیسا کہ اس وقت بھارت میں امریکہ
کی سرمایہ کاری کا حجم 13 بلین ڈالر ہے جبکہ اس کے مدمقابل چین کی سرمایہ
کاری صرف 500 ملین تک ہی محدود ہے ۔ ان اعدادوشمار سے بھی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعلقات کس قدر استوار ہیں
۔ جہاں امریکہ بھارت میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا خواہاں ہے وہیں کئی
بھارتی سرمایہ کار جن میں امبانی اور ٹاٹا گروپ سرفہرست ہیں امریکہ میں
سرمایہ کاری کے عمل کو مزید بڑھانے کے خواہشمند ہیں جس کے لئے انہوں نے
مذکورہ دورہ کے دوران ہی CEO فورم کے انعقاد میں امریکی صدر سے درخواست کی
کہ وہ اس بابت امریکی قوانین کو مزید لچکدار بنائیں تاکہ بھارتی سرمایہ دار
امریکہ میں سرمایہ کاری کے عمل کو مزید بڑھا سکیں ۔
اگر پاکستان کے چند معاشی اہداف کا موازنہ بھارتی معیشت کے ساتھ کیا جائے
تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے معاشی اہداف کے حصول میں کتنا فرق
موجود ہے ۔ اس وقت بھارت کا سالانہ ریونیو 172.10 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے
جو کہ عالمی سطح پر 23 ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان میں یہی ریونیو صرف
27.48 بلین ڈالر ہے جو کہ عالمی درجہ بندی میں 63 ویں نمبر پر ہے ۔ ریونیو
کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کا ریونیو پاکستان کے ریونیو سے 6 گنا زائد ہے
۔ اسی طرح بھارت کی برآمدات کا حجم 301.90 بلین ڈالر ہے جس کا عالمی درجہ
بندی میں 19 واں نمبر ہے جبکہ پاکستان میں برآمدات کا حجم صرف 24.71 بلین
ڈالر تک محدود ہے جو کہ عالمی درجہ بندی میں 69 ویں نمبر پر ہے ، یوں بھارت
کی برآمدات پاکستان سے 12 گنا زائد ہیں ۔ اگر دونوں ممالک کی گراس نیشنل
انکم کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی گراس نیشنل انکم 8 گنا زائد ہے اعداد
کے مطابق بھارت کی گراس نیشنل انکم 477 بلین ڈالر جبکہ پاکستان کی 60 بلین
ڈالر ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 2011ء سے قبل بھارت کی معاشی
ترقی کا عمل اتنا سبک رفتار نہیں تھا جیسے اب دیکھنے میں آرہا ہے ۔ 2011ء
سے قبل بھارتی سرکار کو بھی وہ تمام مسائل درپیش تھے جو اس وقت وطن عزیز کو
درپیش ہیں جن میں سرمایہ کاری میں کمی ، سیاسی بحران ، حکومتی اخراجات اور
قرضوں میں اضافہ وغیرہ ۔ تاہم بھارتی حکومت نے 2012ء میں ایسے فیصلے کئے
اور ایسی معاشی اصلاحات عمل میں لائی گئیں جن سے معاشی ترقی کی نئی راہیں
کھل گئیں ۔ پاکستان کو اس وقت کئی معاشی مسائل درپیش ہیں جن میں غربت ، بے
روزگار ی ، بجلی بحران ، کرپشن ، دہشت گردی ، سرمایہ کاری کا بحران اور
لاقانونیت سرفہرست ہیں ۔ تاہم ان مسائل سے چھٹکارا ممکن ہے لیکن اس کے لئے
ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں اور معاشی اصلاحات عمل میں لائی جائیں جن کے
نتائج دیرپا نوعیت کے حامل ہوں تب ہی پاکستان خطے میں اپنی قدروقیمت کا سکہ
منوا سکتا ہے ۔ |