| یہ “گرینڈ پلان” کے نام پر ایک نئی کہانی گھڑی جا رہی ہے، دراصل منصوبہ کم اور خواہش زیادہ ہے۔ آئین، پارلیمان اور عوام کو زحمت دیے بغیر خاموش کمروں کے فیصلوں کو دانش کے لباس میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سیاست دان ناکام، جمہوریت بوجھ اور ووٹ غیر ضروری قرار پا جائے تو پھر ہر دور کی طرح ایک نیا ونڈر بوائے تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ نہیں، سیاسی تھکن کی شاعری ہے۔ ریاست کہانیوں سے نہیں، سوال، شفافیت اور جواب دہی سے چلتی ہے—ورنہ ہر خواہش خود کو گرینڈ کہلوانے لگتی ہے۔ |
|
|
“May not lead off with, “I don’t give a damn what you think.” |
|
“گرینڈ پلان” یا فکری قحط کا اشتہار؟
پاکستان میں صحافت جب خبر سے تھک جاتی ہے تو کہانی کا سہارا لیتی ہے، اور جب دلیل میسر نہ رہے تو تمثیل ایجاد کر لی جاتی ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب کی حالیہ تحریر اسی فکری سفر کا آخری پڑاؤ محسوس ہوتی ہے جہاں صحافت، تجزیہ چھوڑ کر ادبی چٹکلے اور سیاسی فال بینی کے میدان میں آ کھڑی ہوئی ہے۔
ماضی میں سہیل وڑائچ صاحب نے پرمزاح، نیم غیر سیاسی پروگرام کر کے عوام میں مقبولیت پائی، پھر کالم نگاری کے ذریعے رائے سازی میں قدم رکھا، مگر اب جو روش اختیار کی گئی ہے وہ نہ صحافت ہے، نہ سنجیدہ تجزیہ—بلکہ ایک ایسی تخیلاتی سیاست ہے جس میں نہ کردار حقیقی ہیں، نہ مکالمہ مستند، اور نہ نتیجہ قابلِ اعتبار۔
فکشن کا سہارا یا فکری دیوالیہ پن؟
جارج اورویل کی 1984 اور Animal Farm یا ایچ جی ویلز کی War of the Worlds کا حوالہ دینا آسان ہے، مگر یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ان تخلیقات کی بنیاد گہری فکری دیانت، تہذیبی شعور اور فلسفیانہ سوالات پر تھی۔ ان میں طاقت کے مراکز پر طنز بھی تھا اور عوامی شعور کو جھنجھوڑنے کا مقصد بھی۔
اس کے برعکس “گرینڈ پلان” نامی بیانیہ ایک ایسے صحافی کی تخلیق ہے جو بظاہر خود کو *پردہ نشین رازوں کا امین* ظاہر کرنا چاہتا ہے، مگر درحقیقت قیاس، افواہ اور خواہش کو خبر اور تجزیہ کے لباس میں پیش کر رہا ہے۔ یہ فکشن نہیں—یہ فکری سہولت کاری ہے۔
اصل ہدف: سیاست نہیں، سیاست دان
سہیل وڑائچ صاحب کی تحریروں کا ایک مستقل مزاج یہ ہے کہ
* حکمران ناکام ہیں * سیاست دان نالائق ہیں * جمہوری عمل بوجھ ہے اور * نجات کسی “غیر مرئی عقلِ کل” کے پاس ہے
یہ سوچ نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ خطرناک بھی، کیونکہ یہ بالواسطہ طور پر اس تصور کو تقویت دیتی ہے کہ ریاست کا مسئلہ سیاست ہے، اور حل سیاست کے بغیر ممکن ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں صحافت، نادانستہ یا دانستہ، اس بیانیے کی آلہ کار بن جاتی ہے جو پارلیمان کو بے معنی، ووٹ کو مشکوک اور عوام کو نااہل ثابت کرنے پر تلا ہوتا ہے۔
“خاموشی ہے زبان میری” — یا جواب دہی سے فرار؟
یہ کہنا کہ موجودہ نظام کا طرۂ امتیاز خاموشی ہے، دراصل سیاسی جواب دہی کے تصور سے فرار ہے۔ جمہوریت میں خاموشی فضیلت نہیں، بلکہ اعلانِ پالیسی، وضاحت اور عوام کو اعتماد میں لینا لازم ہوتا ہے۔
اگر کوئی “گرینڈ پلان” واقعی موجود ہے تو:
* وہ پارلیمان سے خفیہ کیوں ہے؟ * عوام سے اوجھل کیوں؟ * آئین سے بالا کیوں؟
اور اگر نہیں ہے—تو پھر اسے مسلسل موضوعِ سخن بنا کر کیا **ذہنی انتشار** پیدا کرنا صحافتی دیانت کہلاتا ہے؟
ونڈر بوائے، پی ایچ ڈی کابینہ اور خوابوں کی سیاست
یہ خیال کہ ملک کے مسائل کسی “ونڈر بوائے” یا پی ایچ ڈی کابینہ سے حل ہو جائیں گے، نہ صرف سادہ لوحی ہے بلکہ پاکستان کی سماجی حقیقت سے لاعلمی بھی۔ یہ ملک تجربہ گاہ نہیں، جہاں ہر چند سال بعد نیا فارمولا آزمایا جائے۔
تاریخ گواہ ہے: ایوب خان کے خواب تھے، بھٹو کے نظریات تھے، ضیاء کے ایجنڈے تھے، مشرف کے دعوے تھے، باجوہ ڈاکٹرائن بھی آ چکی—
نتیجہ؟ ریاست وہیں کھڑی ہے، عوام مزید تھکے ہوئے۔
اصل سوال: سہیل وڑائچ کیا چاہتے ہیں؟
یہ تحریر کسی تجزیے سے زیادہ " ایک ذہنی تمنا" کا اظہار ہے:
* سیاست کمزور ہو * پارلیمان بے اثر ہو * اور کوئی غیر منتخب بندوبست “نجات دہندہ” بن کر ابھرے
یہی وجہ ہے کہ تحریر سوال پیدا نہیں کرتی، بلکہ " رائے مسلط" کرتی ہے—وہ بھی کہانی کے پردے میں۔
نتیجہ: افواہ صحافت نہیں ہوتی
یہ درست ہے کہ پاکستانی قوم سیاسی گپ شپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، مگر صحافت کا کام اس گپ شپ کو "تقویت دینا نہیں، فلٹر کرنا" ہوتا ہے۔ ہر سرگوشی کو کالم بنانا، اور ہر خواہش کو “اندر کی خبر” کہنا، صحافت نہیں—یہ فکری انتشار ہے۔
گرینڈ پلان ہو یا نہ ہو، اصل خطرہ یہ نہیں کہ کوئی منصوبہ بن رہا ہے، اصل خطرہ یہ ہے کہ " ہم منصوبوں کی افواہوں کو حقیقت سمجھنے لگے ہیں"
اور یہی وہ مقام ہے جہاں صحافی کو کہانی کار نہیں، " ضمیر کا نگہبان" ہونا چاہیے۔ |