مذہبی رواداری اور اوبامہ کی دوہری پالیسی

امریکی صدر باراک اوبامہ کچھ دنوں قبل ہندوستان کے دورہ پر تھے جس میں انہوں نے اپنے میزبان وزیراعظم کے اقتدارمیں جاری مذہبی انتہاء پسندی پر حکومت ہند کی خوب سرزنش کی ۔ امریکہ جانے کے بعد بھی انہوں نے ہندوستان میں جاری مذہبی عدم تحمل کی طرف ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کرائی ، ہندوستانی قیادت کو گاندھی جی کے عدم تشدد کا سبق یاددلایا۔ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہاکہ ہندوستان میں گذشتہ چند سالوں میں مذہبی انتہاء پسندی میں جس قدراضافہ ہوا ہے اسے اگر مہاتماگاندھی دیکھ لیتے تو وہ بہت دل برداشتہ ہوتے۔وہاں کے مشہوراخبارنیویارک ٹائمز نے بھی اپنے سربراہ کی آوازمیں آوازملاکر اس سلسلے میں ان کی تائیدکی اور مذہبی انتہاپسندی کے سلسلے میں خاموشی پرمودی کو کٹہرے میں لاکھڑاکیا۔

امریکی صدر باراک اوبامہ کا یہ بیان بظاہر مسلمانوں کے تئیں ہمدری پرمبنی لگ رہاتھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے اس پرزیادہ خوشیاں نہیں منائیں کیوں کہ اوبامہ کی پالیسی دیگر امریکی صدور کے مقابلے میں مختلف ہے اور مسلم دنیا اب اس حقیقت کواچھی طرح سمجھ چکی ہے۔یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ جب اوبامہ صدارتی انتخابات لڑرہے تھے تو پوری مسلم دنیا ان کی کامیابی کے لئے دعاء گو تھی اس امیدکے ساتھ کہ اوبامہ کی پیدائش ایک مسلم گھرانے میں ہوئی ہے اس لئے وہ مسلم دنیا کے تئیں اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے ۔دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی تباہی کا سلسلہ بند کریں گے۔ صدر بننے کے بعد قاہر ہ یونیورسیٹی سے انہوں خطاب کرتے ہوئے عالم اسلام کو کچھ ایسی ہی امیدیں بھی دلادیں جن کی ان سے توقع تھی لیکن بعد کے حالات نے ان امیدوں کا جنازہ نکال دیا اوراوبامہ اپنے پیش رو صدور سے بھی زیادہ ظالم نکلے ۔ بش نے صرف افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی لیکن انہوں نے توپورے مشرق وسطیٰ کو ہی خاک و خون میں تبدیل کردیا ہے ۔

چنانچہ نریندر مودی کو اوبامہ کی گئی نصیحت کے پیش نظر یہ ہر گز نہیں تھا کہ ہندوستان کے مسلمان شدت پسندوں ہندوؤں کے مظالم کے شکار ہیں ان کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں دو کڑور عیسائی بھی رہتے ہیں جنہیں مختلف مسائل کاسامناہے۔ آر ایس ایس کے نشانے پر جس طرح مسلمان ہیں اس طرح عیسائی بھی ہیں ۔ گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں سے زیادہ عیسائیوں کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔ عیسائیوں کی مذہبی عبادت گاہ چرچ پر حملے کا سلسلہ دن بہ دن بڑھتاجارہاہے ۔

جہاں تک بات ہے مذہبی انتہاپسندی کی تو یہ روایت سب سے زیادہ عیسائیوں میں پائی جاتی ہے۔ ابتداء اسلام سے لے کراب تک کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے عیسائیوں نے ہر موڑ پر مسلمانوں کے ساتھ انتہاپسندانہ رویہ اپنایا ہے ۔ مسلمانوں کوصفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ہیں ۔ یور پ کے ممالک میں یہ چیزں سب سے زیادہ امریکہ میں پائی جاتی ہیں ۔9/11 کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اور پگڑی باندھے سکھوں کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جاتا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں پیش آئے چند واقعات نے اس صداقت پر ایک مرتبہ پھر مہرثبت لگادیا ہے ۔

12فروری 2015کوامریکی ریاست شمالی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے تین مسلمان طلبا23 سالہ دیا برکت 21سالہ ان کی اہلیہ یسر محمد ابو صالحہ اور19سالہ ان کی بہن رزن محمد ابو صالحہ طلبہ کی لاشیں کیرولائنا یونیورسٹی کے قریب چیپل ہل کے اپارٹمنٹ میں پائی گئیں ۔ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ46سالہ کریگ سٹیون ہکس نے قتل کی اس واردات کو انجام دیا ہے ۔ پولس کا کہنا ہے اس قتل کا سبب پارکنگ کی وجہ سے ہونے والی لڑائی ہے لیکن اصل وجہ مذہبی انتہاپسندی ہے کیوں کہ یہ سب اسلامی شعائر کے پابندتھے۔
عیسائی انتہاپسندی کے اس واقعہ کی گونج ابھی دھیمی بھی نہیں پڑی تھی کہ ایک دوسر اواقعہ وہاں کے شہراسٹیل میں پیش آیا۔واشنگٹن کے شہر اسٹیل میں میں ایک مندر پر شرپسندوں نے حملہ کیا اور دیوار پر لکھ دیا ’’ گیٹ آؤٹ ‘‘ ۔ اس کے قریب میں واقع ایک اسکول کی دیوار پر سواستک کا نشان بناکر لکھا ’’ مسلمس گیٹ آؤٹ ‘‘۔ اس سے قبل بھی دو ہندوستانیوں پر امریکہ میں حملہ ہوچکا ہے ۔ ہندوستان کے امت پٹیل کو پولس نے ان کی دکان میں محض اس لئے گولی سے بھون دیا کہ ان کا رنگ سفید نہیں تھا ۔ جبکہ اس سے قبل الاباما شہر میں ایک ہندوستانی بزرگ کو پولس نے بری طرح مارا تھا ۔

گزشتہ دنوں اسی ریاست میں ایک معروف یونیورسٹی ڈیوک میں مسلمان طلبہ کو جمعہ کی اذان سپیکر پر دینے کی اجازت پرانتہاء پسند عیسائی تنظیموں نے دھمکیاں دی تھیں جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اذان کی اجازت واپس لے لی۔امریکہ میں یکے بعد دیگر پیش آنے والے ان واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے مذہبی عدم تحمل کے حوالے سے جتنی نصیحت کی ضرورت ہندوستان کی حکومت کو ہے اتنی ہی خود باراک اوبامہ کو ہے ۔ باراک اوبامہ کی ہندوستان کو کی گئی نصیحت یقینا دررست ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اوبامہ پہلے خود اس پر عمل کریں۔

اوبامہ کے نزدیک مہاتما گاندھی ان کی پسندید ترین شخصیت ہے ۔ اپنے دورہ ہندوکے دوران انہوں نے مہاتماگاندھی کی سمادھی پر بھی حاضری دی تھی ۔ وہ گاندھی اور مارتن لوتھر کی تعلیمات کو آئیڈیل مانتے ہیں ۔ اس لئے میں انہیں مہاتما گاندھی کا یہ واقعہ یاد دلانا چاہتاہوں ویسے مجھے امید ہے کہ انہوں نے اسے فراموش نہیں کیا ہوگا۔

واقعہ ہے کہ ایک دن ایک والدین اپنے بیٹے کو لے کر آئے اور گاندھی جی سے کہا کہ یہ گڑ بہت کھاتا ہے۔گاندھی جی نے ان سے کہا کہ آپ اگلے ہفتے آئیے، ایسے ہی کچھ ہفتے گزرتے گئے اور گاندھی جی اگلے ہفتے پھر آنے کو کہتے رہے۔ایک دن گاندھی جی نے بچے کو سمجھایا کہ زیادہ گڑ مت کھاؤ، تو ماں باپ نے باپو سے کہا کہ یہ بات تو آپ پہلے بھی کہہ سکتے تھے۔توگاندھی جی نے کہاکہ میں اس وقت خود بہت گڑ کھاتا تھا۔ اب بند کر دیا ہے۔میں جو کام خود نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے دوسروں کو نہیں کہتا ہوں۔

اوبامہ صاحب کو یہ ڈائیلاگ بھی یاد ہوگا کہ جن کے گھر شیشوں کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کے گھر پتھر نہیں پھینکتے اور بڑے بڑے ملکوں میں ہونے والی ہربات چھوٹی نہیں ہوتی ۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163168 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More