قومی ڈرگ پالیسی اور اتائیت کا ناسور
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
اہل وطن !مبارک ہو۔ پاکستان کی
تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی ڈرگ پالیسی بنائی گئی ہے جس میں دوائیوں کی
قیمتوں میں کمی کی جائیگی جو کہ تین سال تک لاگو ہوگی۔مزید یہ کہ کمی کی
شرح10 فیصد تک ہوگی جو کہ 2016 تک برقرار رہے گی۔ قیمتوں کا تعین بھی ڈرگ
پالیسی بورڈ جو کہ پندرہ ممبران پرمشتمل ہے ، کریگا۔ اور اس میں ڈرگ
ریگولیٹری اتھارٹی کو قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر کوئی اختیار نہ ہوگا۔ ان
برانڈڈ ادویات پر ہر سال 10 فیصد کمی ہوگی اور مسلسل تین سال تک ہوتی رہے
گی یعنی کہ تین سال بعد یہ ادویات تیس فیصدسستی ہو جائینگی۔ جبکہ نیء بنائے
جاتے والی ادویات کی شرح قیمت بھارت اور بنگلہ دیش کی خوردہ قیمت کی بنیاد
پر طے کی جائیگی۔ سستی ادویات بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی جبکہ
ادویات اور متعلقہ آلات کی فراہمی اور فروخت کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
پالیسی کے برعکس چلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ اور
صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف
بلا امتیاز کارروائی بھی عمل میں لائی جائیگی۔یہ سارے بیانات وزیرمملکت
سارہ افضل تارڑ اور وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ہیں
یہ بات مبنی برحقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈرگ کے حوالے سے کبھی بھی کوئی خوش
آئند قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ جعلی ادویات کی بھرمار، زائد المعیاد ادویات کی
فروخت،استعمال شدہ آلات کا استعمال، اتائیت کے موت بانٹتے مراکز، ناقص اور
غیر معیاری اجزا کی آمیزش،قوت خرید سے باہر قیمتوں کے لیبل، ڈاکٹرز کا من
پسند اور مراعات دینے والی کمپنیوں کی غیر موثر اور مہنگی ادویات کا لکھنا۔
غریبوں سے ڈاکٹرز کا غیرانسانی و غیر اخلاقی رویہ اور اسی طرح کے دیگر
معاملات لمحہ بہ لمحہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔یہ تمام مسائل
عفریت کا روپ دھار چکے ہیں اور غریب و لاچارعوام کو نگلے جارہے ہیں۔ آج کے
اس نفسا نفسی کے دور میں غریب سے لیکر ا میر تک ہر پہلا شخص ذہنی جسمانی
اخلاقی اور روحانی بیمار دکھائی دیتا ہے۔ کوئی ڈپریشن کا شکار ہے تو کسی کو
بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے۔کوئی شوگر سے متاثر ہے تو کوئی یرقان زدہ
ہے۔کوئی عملا کوڑھ زدہ ہے تو کوئی دماغی خلل مبتلا ہے کوئی فرعونیت کے
لبادے میں الجھا ہے تو کوئی نمرودیت کی کھال میں گھسنے پر تلا ہے۔ایسے میں
دوا دارو کی ضرورت ایک لازمی امر ہے لیکن دوائیں(راہ راست) اور شفا ہیں کہ
ہم کافی دور ہیں۔ ایسے میں حکومت کا ادویات کے حوالے سے ریلیف فراہم کرنے
کا اعلان ہوا کاایک خوشگوار جھونکا محسوس ہوتا ہے لیکن ڈرگ مافیا اتنابڑا
طاقتور اور منظم ہے کہ اسکے خلاف کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔سینکڑوں مثالیں
تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں جعلی ،ناقص اور زائد المعیاد ادویات کے حوالے سے
متعدد کیس پکڑے گئے لیکن کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی ۔ان میں بہت سی وجوہات
کے ساتھ ساتھ خاص وجہ واضح قوانین کا نہ ہونا اور اگر کوئی ہیں تو ان میں
اتنے سقم موجود ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی ممکن نظر نہیں آتی۔اتائیت کے
حوالے سے کوئی لائحہ عمل نہیں بن سکا۔ گلی گلی محلے محلے اور دیہاتوں میں
جگہ جگہ یہ موت بانٹتے ناسور ہمارے معاشرے کو انسانوں کو اخلاقی اقدار کو
داغدار کررہے ہیں ان کو کوئی پکڑنے والا نہیں۔ انہوں نے بندے مارنے کا
لائسنس لیا ہوا ہے جب تک کوئی ذی روح داعی اجل کو لیبک نہیں کہہ لیتا ہماری
حکومت اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انسانی جان کی بھینٹ کے
بعد بے بس ارباب اختیار و اقتدار حرکت میں آتے ہیں۔اس میں بھی پہلے تو ملزم
پکڑا نہیں جاتا بالفرض اگر پکڑلیاجائے تو وہ جو ،ایک یا زائد انسانی جانوں
سے کھیل چکا ہے،اس کو پکڑنے پر سوائے جرمانہ کے کوئی تکلیف نہیں دی
جاتی۔جرمانہ بھی ایسا کہ وہ بآسانی اور بخوشی ادا کرکے پھر سے موت بانٹنے
کا لائسنس ایشو کروالیتا ہے۔
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے افسران سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان سے اتائیت
اور اس کے خلاف نافذالعمل کی جانیوالی سزاؤں بابت بات چیت ہوئی تو بڑی
حیرانی اور افسوس ہوا کہ اس محکمے میں بھی اتائیت کے خلاف کوئی واضح قوانین
موجود نہیں اس کمیشن کے کرتادھرتاؤں کا کہنا ہے کہ ہمارے اختیار میں زیادہ
سے زیادہ یہ ہے کہ ہم اس ہسپتال یا کلینک کو سیل کردیں اور مرتکب شخص کو
زیادہ سے زیادہ 20 ہزار روپے جرمانہ کردیں۔ملوث و مرتکب افرادکے خلاف کیا
کارروائی کی جائے گی۔کس حد تک کیجائے گی۔ کس کس دفعہ کے تحت کی جائے گی
کوئی قانون موجود نہیں اس کی وضاحت موجود نہیں اور جو دفعات ہیں وہ اتنی
minor (ہلکی) ہیں کہ جس سے مرتکب افراد پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ اس
سزا کو بغیر حیل و حجت قبول کرلیتے ہیں
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے ک گورنمنٹ پالیسی بھی بنائے اس پر عمل
بھی کرائے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں واضح اور قابل گرفت قوانین بھی
وضع کرے تاکہ یہ ادویات جعلی ہیں کہ ناقص، مہنگی ہیں کہ زائدالمعیاد ان کے
پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جاسکے اور مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی
کی جاسکے۔ اسی طرح نیم حکیم نیم ڈاکٹر اور اتائیت کے ان پروردہ ناسوروں کو
جڑسے اکھاڑاجائے ان کی سرپرستی کرنے والے ڈاکٹرز کے لائسنس منسوخ کئے جائیں
ان کی پریکٹس ضبط کی جائے اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ قومی ڈرگ
پالیسی بنانے کا مقصد پورا ہوسکے اور اس کے ثمرات سے عوام کو مستفید کیا
جاسکے۔نہ کہ یہ بھی پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی طرح ربڑ سٹیمپ بن کر رہ
جائے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.