پچھلے دنوں ایک مدرسہ میں جانے
کا اتفاق ہوا مغرب کے بعد کا وقت تھا بچے کم روشنی میں قرآن شریف حفظ کر
رہے تھے تقریباً 60 بچوں کیلئے ایک بلب تھا روشنی نسبتاً کم تھی اکثر بچے
دقت کے ساتھ الفاظ پڑھ رہے تھے جب قاری صاحب سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے
فرمایا کہ مہتمم مدرسہ جان بوجھ کر زیادہ بلب نہیں لگواتے کہیں بچے بلب نہ
توڑ دیں کئی مرتبہ کہا گیا مگر توجہ نہیں کرتے پچھلے سال سے پہلے کی بات ہے
کہ ایک بچے کی اسی طرح بینائی کمزور ہو گئی تھی۔ مناسب علاج نہ ہوسکنے کے
باعث بچہ نابینا ہو گیا تھا۔ اس کے والدین نے اس بچے کو زندہ درگور کرنے کی
بجائے دوبارہ مدرسہ بھیج دیا تاکہ حفظ کر نے کے بعد تمام عمر مسجد کے ٹکڑوں
پر پلتا رہے۔یہی حال سرکاری تعلیمی اداروں میں راقم بھی تعلیم و تعلم سے
وابستہ ہے پچھلے دنوں ایک ایسے ہی بچے کے احوال سامنے آئے ہیں اس بچے کو
بلیک بورٖ ڈمدھم نظر آتاتھا استاد نے بھانپ کر غریب دیہاتی والدین کو
بتلایا۔ والدین نے معمولی سمجھا مگر جب تکلیف بڑھی تو چیک اپ کرایا گیا اس
وقت تک ایک آنکھ اندھی ہو چکی تھی۔ارباب اختیار کو محض فوٹو سیشن کرانے اور
بڑے بڑے پینا فلیکسز پر اپنے نام کندہ کرانے سے شاید فرصت نہیں کہ کچی
آبادیوں کے مسائل پر نظر التفات فرما سکیں۔پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں
ضلعی حکومتیں اور سول سوسائٹی سیلاب زدہ یا آفت زدہ علاقوں میں این جی اوز
کی مدد سے سروے کراتی ہیں۔اگر مرض کی زیادتی ہو تو وہاں پروگرام شروع کرایا
جاتا ہے شاید ہمارے پسماندہ شہر کی سول سوسائٹی بھی پسماندہ ہے کہ ایسے
مفید پروگرام بذریعہ سیاسی عمائدین کرانے سے عاری ہے جس پر کوئی پیسہ بھی
خرچ نہ ہوتا ہے۔ سائیٹ سیور (Sight Saver) برطانیہ کی NGO ہے پاکستان کے
لئے ان کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے صوبائی دفاتر چاروں صوبوں میں واقع
ہیں صوبہ پنجاب کا صوبائی دفتر لاہور میں ہے ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال شعبہ آنکھ کے
انچارج یا DCO مندرجہ ذیل پتہ پر مذکورہ NGOکو متعلقہ ڈسٹرکٹ میں آنے کی
دعوت دے سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم (PUPECP) King Edward University
Lahore. (042-37355998) اگر سروے کے بعد سرکاری سکولوں یا مدارس کے بچوں
میں بصارت کے مسائل زیادہ پائے جائیں تو یہ NGO متعلقہ ضلع میں ایک سال کا
پروجیکٹ شروع کر دیتی ہے۔ اب یہ پروجیکٹ جنوری 2016ء تک مظفر گڑھ میں
متوقع ہے اور ضلع لیہ میں بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اگر شعبہ
بصارت کے ڈسٹرکٹ انچارج (ڈاکٹر ذیشان مرزا) مذکورہ پتہ پر ڈیمانڈ لکھ
چھوڑیں ۔ اگر سیلاب زدہ علاقوں میں سروے کی بات کی جائے تو بلاشبہ مندرجہ
ذیل بصارت کے مسائل بہت ملتے ہیں۔ اندھا پن(Blindness)، آنکھوں کا ٹیڑھا پن
(Squint)، کم نظر آنا (Low vision)،آنکھ کی سرخی (Conjuncion) ، آنکھ کا
موتیا (Cataract) سرِ فہرست امراض ہیں۔چناچہ ان مذکورہ امراض کی بیخ کنی
کیلئے ہم سب کو آگے آنا ہوگا ہمارے پسماندہ شہر میں دکھی انسانیت کی خدمت
کے حوالے سے سول سوسائٹی کے بہت سے نمائندے متحرک ہو چکے ہیں جو کہ ہمارے
جاگنے کی علامت بھی ہے۔ یونائیٹڈ فرینڈز کیبینٹ لیہ (UFC) بھی ایک ایسی ہی
متحرک سوسائٹی کا روپ دھار رہی ہے اور یقینا ان میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ
مذکورہ لیہ کی شخصیات سے گزارش کر سکیں کہ NGO's کو لیہ میں بھی آنے کی
دعوت دی جائے تاکہ دوسرے امراض یا بیروز گاری جیسے مسائل پر قابو پایا
جاسکےUFC کے مقاصد میں محض اپنے دوستوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ان
کی سیاسی لوگوں تک رسائی کرانا اورہسپتال وغیرہ کے کام کروانا شامل تھے۔
مگر اب UFCنے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر لیا ہے اور مان لیا ہے کہ غریب کے
بچے بھی ہمارے دوست ہیں اگر لیہ میں کو ئی NGOنہ بھی آئے تو تب بھی یہ فری
آئی کیمپ منعقد کروا کر بچوں میں مفت عینکیں تقسیم کرسکتے ہیں کیونکہ ایک
ایسی ہی سوسائٹی Sight Saver کیساتھ نشتر ہسپتال ملتان میں بھی متحرت ہے۔
جس کا مقصد WHOکے وژن 2020 کے تحت آنکھ کے امراض کو انتہائی کم سطح پر لے
کر آنا ہے۔ اگر ہمارے شہر میں بھی مذکورہ سوسائٹی یا اس جیسی دوسری سوسائٹی
آنکھیں کھلی رکھنا شروع کر دے گی تو اکثر نابینا مخیر حضرات کو بھی ’’دِل
بینا‘‘ کی عطا شروع ہو جائے گی۔ |