ذوالفقارمرزا بڑی بڑی باتیں کرتے
رہتے ہیں، یہ سچ بھی ہوسکتی ہیں اور کچھ میں مرچ مسالے کا بھی امکان ہوتا
ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ’’میڈیائی دھماکے‘‘ محض پوائنٹ
اسکورنگ کے لیے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کی باتوں کو خواہ وہ
کسی بھی مقصد کے لیے اچھالی گئی ہوں، سو فیصد درست سمجھتی ہے۔اس کے برعکس
بہت سے لوگ مرزا صاحب کے دعوؤں کو ذرہ برابر اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں۔
مرزا کی باتیں سچ ہوتی ہیں یا جھوٹ، یہ ایک طویل بحث ہے، البتہ یہ ضرور ہے
کہ انہیں آصف علی زرداری کے معاملے میں مستند گواہ سمجھا جانا چاہیے۔ اس کی
بڑی ٹھوس وجوہ ہیں۔
آصف زرداری، ذوالفقارمرزا اور نواب شاہ کے سریوال کی دوستی مشہور تھی۔
زرداری ان میں سب سے غریب لیکن ’’کامریڈ‘‘ طبیعت کے مالک تھے، ذوالفقارمرزا
کے خاندان کا نام بڑا تھا لیکن بے حساب دولت ان کے پاس بھی نہیں تھی، البتہ
ان کے تیسرے دوست عبدالستار سریوال کا معاملہ مختلف تھا، وہ ان دونوں سے
امیر تھے۔ آصف زرداری کے شادی کے اخراجات انہوں نے ہی برداشت کیے تھے،
زرداری یاروں کے یار ہیں، اس لیے اقتدار میں آتے ہی انہوں نے دوستوں کو
مالامال کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ زرداری نے سپرہائی وے کے دونوں اطراف جتنے
بھی سرکاری پٹرول پمپ تھے، وہ سب سریوال کے حوالے کردیے، اسی طرح مرزا
خاندان کو شوگر انڈسٹری کا کنگ بنادیا۔ ذوالفقارمرزا جب یہ کہتے ہیں کہ ان
کے جسم پر جو کپڑے ہیں وہ بھی آصف نے دیے ہیں، تو اس میں مبالغہ نہیں ہوتا۔
بلاشبہ زرداری نے مرزا خاندان کو چند برسوں کے اندر اندر زمین سے اٹھاکر
آسمان پر پہنچادیا۔ زرداری کی سیاسی طور پر بھی اس خاندان پر بڑی نوازشات
ہیں، ذوالفقارمرزا کو صوبائی وزیر داخلہ، بیگم کو اسپیکر قومی اسمبلی
بنوایا، صرف یہی نہیں، بلکہ پورے علاقے میں پیپلزپارٹی کو مرزا خاندان کے
حوالے کردیا گیا، انہوں نے جس کو چاہا عہدہ دیا، جسے چاہا پارٹی سے نکال
باہر کیا۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ آصف زرداری اور ذوالفقارمرزا کے
باہمی تعلقات کا کچھ اندازہ لگاسکیں۔
ذوالفقارمرزا اپنے سابقہ باس اور دوست کے بارے میں جو انکشافات کررہے ہیں،
انہیں محض سنی سنائی باتیں کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ گھر کے بھیدی کی
گواہی ہے، کسی ایرے غیرے یا سیاسی مخالف کی ہوائی باتیں نہیں ہیں۔ مرزا نے
اپنے دوست کی ایک نفسیاتی کیفیت سے بھی پردہ سرکایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ
زرداری جو اچھی چیز دیکھتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیز ہر صورت ان
کے پاس آجائے، دولت کی ہوس ختم نہیں ہورہی، ہزاروں ایکڑ زمین حاصل کرلی،
درجنوں فیکٹریاں لگالیں، مگر اب بھی ان کا دل نہیں بھرا، آخر لالچ کی بھی
کوئی انتہا ہونی چاہیے۔ شواہد ذوالفقارمرزا کی اس بات کی تایید کرتے ہیں،
پچھلے دنوں پاکستان کی ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت صدرالدین ہاشوانی کی
کتاب منظرعام پر آئی ہے،جس میں انہوں نے پوری کہانی بیان کی ہے کہ کس طرح
آصف زرداری نے ان سے فائیواسٹار ہوٹل اور دیگر املاک ہتھیانے کے لیے حکومتی
ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس کتاب کے متعلق زیادہ لکھنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ
معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے۔ عدالت ہی فیصلے کرے گی کہ ہاشوانی کے
الزامات میں کہاں تک صداقت ہے۔
آصف زرداری سیاست کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مال اینٹھنے کی، جس ذہنی کیفیت
سے دوچار ہیں، اس کی عوامی سطح پر کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ٹھٹہ کے قریب
دیوان سٹی کے نام سے ایک صنعتی زون قائم ہے، اس میں شوگر مل اور گاڑیوں کی
فیکٹری قائم ہے۔ مشہور ہے کہ زرداری صاحب کی شروع دن سے ان فیکٹریوں پر نظر
تھی، وہ دیوان خاندان کو مجبور کرتے رہے کہ انہیں بھی شراکت دار بنایا جائے،
مگر دیوان خاندان بھی خاصا اثرورسوخ رکھتا تھا، اس لیے وہ زرداری کے دباؤ
میں نہیں آئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بے نظیر زندہ تھیں، ان کے قتل کے روز
ایک خاص منصوبے کے تحت دیوان سٹی پر ’’عوامی‘‘ حملہ کرایا گیا۔ فیکٹریوں کو
تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ مالکان نے ہمت کی اور فیکٹریوں نے دوبارہ کام
شروع کردیا۔ زرداری صدر پاکستان بنے تو دیوان سٹی کی شامت آگئی، زرداری کا
ایک ہی مطالبہ تھا کہ پورے کاروبار میں انہیں بھی شراکت دار بنایا جائے،
آخر ایک دن مالکان کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے فیکٹریوں پر تالے ڈال
دیے، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افراد کا روزگار زرداری کی حرص کی بھینٹ
چڑھ گیا۔
کراچی کے سونے کے تاجر کا قصہ بھی آپ کے ذہن میں ہوگا، حسب عادت زرداری نے
ان کے کاروبار میں بھی پارٹنر بننے کی کوشش کی، وہ نہ مانے، صدر پاکستان نے
اپنے دوست صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کے ذریعے کراچی کے اس تاجر پر
بدین کی گلیوں میں چرس بیچنے کا مقدمہ بنوایا۔ صرف مقدمہ نہیں بنا، تاجر کو
باقاعدہ چرس بیچنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا، اسے کراچی سے ہتھکڑیاں لگاکر
اور پولیس موبائل میں پیچھے بٹھاکر بدین لے جایا جاتا تھا، مقصد صرف یہ تھا
کہ تاجر ڈرکر اپنا سونے کا کاروبار زرداری کے حوالے کردے مگر وہ نہیں جھکا،
اس نے سیاست کا جواب سیاست سے دیتے ہوئے فنکشنل لیگ جوائن کرلی، پیسا بہت
تھا، اس لیے اسے فنکشنل لیگ کا اہم عہدیدار بنادیاگیا، یوں اس بے چارے کی
جان اور کاروبار کو تحفظ ملا، اس تاجر نے گزشتہ عام انتخابات میں کراچی کے
علاقے ڈیفنس سے اس نشست پر الیکشن لڑا تھا جہاں سے پی ٹی آئی کے عارف علوی
کامیاب ہوئے تھے۔
1988ء سے ہمارے جھڈو کے حلقے سے پیپلزپارٹی کے حاجی حیات سندھ اسمبلی کے
رکن منتخب ہورہے ہیں، وہ اپنے کام دھندوں میں لگے رہتے ہیں۔ پارٹی میں ان
کی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے، پارٹی ٹکٹ جیسے تیسے مل جاتا ہے، بے نظیر کے
قتل کے بعد انہوں نے سوچا قیادت آصف زرداری کو منتقل ہوگئی ہے، ان سے سلام
دعا بڑھانی چاہیے تاکہ آیندہ کے لیے لائن کلیئر رہے، زرداری صدر منتخب ہوئے
تو وہ انہیں مبارکباد دینے پہنچ گئے، عوام میں مشہور ہے کہ جب ایم پی اے
صاحب ایوان صدر پہنچے اور آصف زرداری کو صدر مملکت بننے پر مبارک باد پیش
کی تو زرداری نے کہا ’’ٹھیک ہے تمہاری مبارکباد ہوگئی، پیسے کہاں ہیں؟‘‘ بے
چارہ ایم پی اے پاگلوں کی طرح منہ تکنے لگاکہ یہ کیا مصیبت گلے پڑگئی، مجھے
نہیں معلوم صحیح ہے یا غلط، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ زرداری نے ان سے 10 کروڑ
روپے مانگے تھے، ایم پی اے چونکہ زرداری کے بہنوئی میرمنورتالپور کے رشتے
دار ہیں، اس لیے 3 کروڑ روپے دے دلاکر جان چھڑائی، یعنی ایم پی اے صاحب کو
یہ مبارکباد 3 کروڑ میں پڑی۔
زرداری صاحب کو زرعی زمینوں کا بھی بہت شوق ہے، سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمین
ان کے قبضے میں جاچکی ہے، تقریباً ہر ضلع میں زرداری فارم بن چکے ہیں، مگر
آپ اس چیز کو ثابت نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ زمینیں آصف زرداری کے ہاریوں اور
دوستوں کے ناموں پر ہیں، سندھ کے بڑے زمیندار اکثر ایسا کرتے ہیں، انہیں اس
بات کا خوف تو ہوتا نہیں ہے کہ کوئی ان کی زمینوں پر قبضہ کرلے گا۔ اسی طرح
سندھ کے بیشتر شوگرملوں پر بھی زرداری کا کنٹرول ہے۔ ان ملوں میں کام کرنے
والے کھلے عام یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کے باس آصف زرداری ہیں مگر بات وہی
ہے یہ کاروبار بھی دوسرے لوگوں کے ناموں پر ہورہا ہے۔
ویسے اس کالم کا کیا فائدہ؟ اگر میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ آصف زرداری
کرپٹ سیاست دان ہیں تو انہیں ایمان دار سمجھتا کون ہے، اس لیے مزید کہانیاں
بیان کرنے سے بہتر ہے کالم یہیں پر ختم کردیا جائے۔ اس نعرے کے ساتھ کہ ایک
زرداری، سب پہ بھاری…… |