پرویز مشرف اور اہل چترال……

پرویزمشرف شدید تنہائی کا شکار ہیں، سیاسی قوتیں نہ خود ان کے قریب جاتی ہیں اور نہ انہیں اپنے قریب پھٹکنے دیتی ہیں، اگر کوئی سیاسی رہنما ان سے مل لے تو باہر آکر وضاحتوں پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بے چارے نے کئی بار سیاسی کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی معاملہ عوامی سطح پر ہے، کوئی قوم، قبیلہ یا انتخابی حلقہ ایسا نہیں جہاں پرویز مشرف کے لیے ویلکم ویلکم کے نعرے گونج رہے ہوں، البتہ اس ماحول میں بھی حیرت انگیز طور پر ایک علاقہ اور قوم ایسی ہے، جو آج بھی پرویزمشرف پر جان چھڑکتی ہے، پرویز مشرف آج بھی اس علاقے کے قائد ہیں۔ جی ہاں! میرا اشارہ چترال اور اہل چترال کی طرف ہے۔

چترالی جہاں کہیں رہتا ہو اور جس جماعت سے بھی وابستہ ہو، وہ پرویز مشرف کے لیے ضرور ہمدردی رکھتا ہے۔ مذہبی طبقے کو مشرف کا بدترین مخالف سمجھا جاتا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے، میں زندگی میں کل پانچ چترالیوں سے ملا ہوں، ان میں سے چار باقاعدہ عالم دین ہیں اور ایک مذہبی جماعت کے پرجوش کارکن ہیں، مگر اس کے باوجود یہ چاروں مشرف کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پانچواں بھی مشرف کا فین ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں پورے ملک میں کہیں بھی پرویز مشرف کی دال نہیں گلی، صرف چترال ہے جہاں سے ان کے امیدوار کو بڑی شان سے کامیابی حاصل ہوئی۔

ایک بات اور، عروج کے دور میں تو دوستوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں، اصل دوست کا تو زوال میں پتا چلتا ہے۔ اس وقت پرویزمشرف کا ملکی سیاست میں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا، یعنی ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا کوئی چانس نہیں، اس کے باوجود چترالی ان کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ جس طرح وہ عروج کے دور میں ان کے ساتھ تھے، آج زوال کی تنہائیوں میں بھی وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دو روز قبل یہاں کراچی کے ایک فائیواسٹار ہوٹل میں چترالی طلبہ نے مشرف کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی، 15 سو کے لگ بھگ نوجوان اس میں شریک تھے، مشرف کے حق میں لمبی چوڑی تقاریر ہوئیں، ان کا انتہائی والہانہ استقبال ہوا، سابق صدر بھی اس محبت میں بچھے جارہے تھے۔ اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں شرکاء کو گھیرگھار کر نہیں لایا گیا، نہ کسی کی منت سماجت کی گئی، بلکہ نوجوان پانچ پانچ سو میں ٹکٹ خریدکر اس تقریب میں شریک ہوئے۔ جہاں آج کل لوگ کسی کو چائے پلاتے ہوئے بھی دس بار سر کھجاتے ہوں، ان کا اس طرح پانچ پانچ سو روپے خرچ کرکے تقریب میں شریک ہونا پرویز مشرف سے محبت کا ایک بڑا ثبوت ہے۔

اب سوال یہ ہے، آخر پرویز مشرف نے چترال کے لیے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے، جو وہاں کے باشندوں نے اسے سر پر بٹھارکھا ہے۔ چترالی بتاتے ہیں کہ پرویز مشرف کے اقتدار سے پہلے سردیوں میں شدید برف باری کی وجہ سے چترال کے سارے راستے بند ہوجاتے تھے، اس طرح ان کا کئی ماہ تک ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہوجاتا تھا، جو چترال میں ہوتا وہ وہاں سے نکل نہ پاتا اور جو چترال جانا چاہتا وہ جا نہ پاتا۔ شادی بیاہ تو ایک طرف، لوگ اپنے پیاروں کے جنازوں تک میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، بہت سارے چترالی معاش کے لیے ملک کے دیگر حصوں میں مقیم ہیں، جبکہ ان کے اہل خانہ چترال ہی میں رہتے ہیں، اس طرح کے خاندان کئی کئی ماہ تک ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے تھے۔ ان دنوں میں چترال سے نکلنے اور وہاں جانے کا صرف ایک راستا تھا، وہ اس طرح کہ افغانستان سے ہوتے ہوئے چترال آیا اور جایا جاسکتا تھا، لازمی بات ہے اس سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جو ہر چترالی کے بس کی بات نہیں تھی۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے صوبہ خیبر پختونخوا (تب سرحد) میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں چترالیوں کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کی تھی،مگر قومی خزانہ اس کے اخراجات زیادہ دیر برداشت نہ کرسکا، اس لیے یہ سروس شیرپاؤ صاحب کی مہربانی سے چند ہی مہینے چترالیوں کے کام آسکی۔

چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کے لیے پہاڑوں کو کھودکر سرنگ بنانا ایک بہترین آپشن تھا، اس منصوبے کا آغاز ذو الفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا لیکن سیاسی عدم استحکام اور بیوروکریسی کی شرارتوں کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء میں پڑا رہا، یہاں تک کہ پرویزمشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے لواری ٹنل کے اس منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرایا، اس طرح اب چترالیوں کا سال بھر اس سرنگ کے ذریعے اپنے علاقے سے رابطہ بحال رہتا ہے، مرمتی کام کی وجہ سے رکاوٹیں تو آتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی سرنگ کے آرپار آنا جانا لگارہتا ہے۔ اس سرنگ نے چترالیوں کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا ہے، جو چھ ماہ کی نہیں پورے سال کی ہوتی ہے۔ اب انہیں ماضی کی طرح چھ چھ ماہ کے لیے خوراک کا ذخیرہ بھی نہیں کرنا پڑتا، وہ بھی ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی طرح معمول کی زندگی گزاررہے ہیں، ان سب باتوں کا سہرا یقینا پرویز مشرف کے سر ہے، اگر وہ یہ سرنگ نہ بناتے تو چترالی آدھا سال ملک سے کٹے رہنے کے باعث آدھے پاکستانی ہی رہتے۔ یہ وہ احسان ہے، جس کی وجہ سے سارا چترال پرویز مشرف کے گیت گاتا ہے۔

اس معاملے سے ایک اور ایشو بھی جڑا ہوا ہے، اس پر بھی کچھ بات ہو جانی چاہیے، مشرف نے چترالیوں کا دیرینہ مسئلہ بلکہ یوں کہہ لیں سب سے بڑا مسئلہ حل کیا، اب وہ اس احسان کا بدلہ چکا رہے ہیں، یہ بات تو ٹھیک ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے مگرکیا سیاسی طور پر بھی یہ رویہ درست ہے؟ بعض لوگ اس سلسلے میں چترالیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ سیاست کو علاقائی مفادات کی بجائے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ چترالی محض اپنے ایک علاقائی مسئلے کی وجہ سے پرویز مشرف کے تمام قومی جرائم کو نظرانداز کررہے ہیں۔ گویا نظریات، ملکی سا لمیت کے معاملات جیسے اہم ایشوز کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ان ناقدین کے مطابق چترالیوں کو مشرف کی حمایت کی کوئی حدبندی کرنا چاہیے، اپنا پورا دل اس کے قدموں میں ڈال دینا قومی سیاست کے لیے نقصان دہ ہے۔ چترالیوں کو مشرف کے احسان کا بدلہ ضرور احسان سے دینا چاہیے مگر سابق صدر کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ آپ نے جو قومی جرائم کیے ہیں، اہل چترال اس پر دکھی ہیں اور وہ آپ کا غیرمشروط طور پر ساتھ نہیں دے سکتے۔ یہ اعتراضات کہاں تک درست ہیں، اہل چترال پر ان کاجواب دینا لازم ہے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102006 views i am a working journalist ,.. View More