ناصرؔ کاظمی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
(پیدائش8 دسمبر 1925 ۔ وفات
2مارچ 1972)
دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
آج پاکستان کا ہر بڑاشہر دہشتگردی کے ہاتھوں سائیں سائیں ہی تو کر رہا ہے
اور پوری قوم بے بسی کے عالم میں ہر روز بے قصو ر ہلاک ہونے والوں کے غم
میں اُداس رہتی ہیں۔ ناصر کاظمی نے 40سال پہلے ہی اس صورت حال کا ذکر کردیا
تھا۔ وہ اس وقت اس قدر اداس تھا تو آج اس کی کیا کیفیت ہوتی۔ دنیا بھی اُسی
طرح آباد ہے لیکن وہ خوبصورت شاعر آج ہم میں نہیں ۔ اسے ہم سے جدا ہوئے
43سال ہوچکے ہیں ۔ ناصر کی بیماری نے رفتہ رفتہ معدے کے کینسر کا روپ
اختیار کرلیا اوراس نے 2مارچ 1972کو طویل علالت کے بعد البرٹ وکٹر اسپتال
میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیشہ ہمشہ کے لیے ہم سے دور چلا گیا ۔لیکن
اس کی یاد ہمارے درمیان آج بھی موجود ہے اس کی خوبصورت شاعری اسے ہمیشہ
زندہ رکھے گی۔ناصرؔکاظمی نے اپنے والدین کے ہمراہ ہندوستان سے ہجرت کی اس
کی پیدائش بھی برطانوی ہندستان کے شہرانبالہ میں 8دسمبر 1925کو ہوئی۔ اس
حوالے سے ناصرؔ کو انبالہ سے خاص محبت تھی ۔ اس شہر کے بارے میں ناصر ؔ نے
کہا تھا
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
ناصرؔ کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا لیکن وہ ناصر ؔ کاظمی کے
نام سے ہی معروف تھا ۔ناصرؔ کے والدمحمد سلطان بن شریف الحسن فوج میں ملازم
تھے بلکہ سپہ گری اور فوجی میں خدمت ناصرؔ کے خاندان کا طرٔ ہ امتیاز تھا۔
چنانچہ ناصرؔ کی پرورش اور تربیت بھی فوج کے مخصوص ماحول میں ہوئی۔ ناصر
ؔکا کہنا تھا کہ وہ بھی فوج میں خدمات انجام دینا چاہتا تھا اور فوج میں
ملازمت کی بھی لیکن جلد فوج کی ملازمت سے کنارہ کشی کر لی۔ اس کی وجہ ان کا
ادبی مزاج اوران کے اندر کا وہ شاعر تھا جس نے فوج کے ماحول کوقبول نہیں
کیا۔وہ تو شاعری کے لیے پیدا ہواتھا، شاعری اس کی نس نس میں رچی بسی ہوئی
تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بچپن ہی سے جن مشاغل کی جانب مائل تھا وہ فنون
لطیفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دیہاتی موحول میں رہتے ہوئے اس سے لطف اندازہونا،
دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے اتارچڑھاؤ سے خوش ہونا، گھڑ سواری ، شکار
کھیلنا، پہاڑوں کا نظارہ کرنا، پھولوں، درختوں، کلیوں اور پتوں کو دیکھ
دیکھ کر قدرت کی کرشمہ سازی کو داد دینا اور قدرت کے حسین نظاروں ، سورج،
چاند، طلوع و غروب کے مناظر، صبح و شام کے مناظر،آسمان، ستاروں ، بارش،
سردی اور گرمی کے اتار چڑھاؤ سے ناصرؔ اور شاعری لازم و ملزوم ہوگئے۔ ناصر
کے گھر کا ماحول بھی ادبی تھا، اس کے گھر میں کتابیں تھیں، جنہیں پڑھا جاتا
تھا، ان پر گفتگو کی جاتی تھی، شاعروں سے محبت اس کے گھر کی پہچان تھی،
شاعروں کو پڑھا جاتا تھا، ان کے کلام کو محبت اور عقیدت کے ساتھ ایک دوسرے
کو سنا یا جاتا، خاص طور پر میر انیسؔ اس گھرانے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ناصر
کا کہنا تھا کہ اس نے شاعروں کو پڑھا، ان کا مطالعہ کیا، شیخ سعدی اور
فردوسی کو بھی ناصر ؔ نے دلچسپی سے پڑھا۔ناصرؔ کا کہنا تھا کہ ’اساتذہ کا
کلام جب میں پڑھتا تھا تو یوں لگتا تھا کہ زمانے اور صدیاں ، میرے ساتھ ہم
کلام ہیں بلکہ میں اُن صدیوں میں پہنچ گیا ہوں۔ ایسے ماحول نے ناصرؔ کو
شاعر بنانے میں بنیادی کردارادا کیا۔ ناصر کی شاعری کی ابتدا 1940سے ہوئی،
اس وقت ناصرؔ زندگی کی پندرھویں بہاروں کا لطاف لے رہے تھے یعنی 15سال کے
تھے۔ یقینا اسکول سے فارغ ہونے کا وقت ہوگا یا کالج کی دہلیز پر قدم رکھ
لیا ہوگا۔ اس نے پہلا شعر کب کہا اور وہ کون سا شعر تھا ناصر کا کہنا ہے کہ
اسے صحیح تو یاد نہیں لیکن جب پہلا شعر کہا تو ناصرؔ اسلامیہ کالج لاہور
میں زیر تعلیم تھا ۔شعر کچھ اس طرح تھا
قبول ہے جنہیں غم بھی تیری خوشی کے لیے
وہ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی کے لیے
ناصرؔ کاظمی نے ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول انبالہ سے حاصل کی۔ ہائی
اسکول میں آئے تو والد بہ سلسلہ ملازمت پشاور چلے گئے چنانچہ ناصرؔ نیشنل
ہائی اسکول پشاور کے طالب علم بھی رہے ۔ شملہ میں بھی ناصر نے پڑھا،میٹرک
کے بعد کالج کا رخ کیا جس کے لیے لاہور کا انتخاب کیا ۔
لاہور شہر ناصرؔ کو پسند تھا ۔ پڑھائی کے بعد بھی ناصرؔ نے لاہور ہی کو
اپنا مستقل مسکن بنا یا ۔لاہور کے حوالہ سے ناصرؔ نے یہ شعر کہا
شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو
فوج میں شمولیت اور جلد ہی اس سے واپسی کے بعد ناصرؔ نے 1950میں رسالہ
’اوراقِ نو‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ بعد ہی ناصرؔ معروف
رسالے ’ہمایوں‘ کے مدیر اعلیٰ رہے اور پانچ سال اس کی ادارت کی لیکن یہ
رسالہ ناصرؔ کاظمی کے ہاتھوں ہی بند ہوا۔ اب ناصرؔ رسائل و جرائد کی دنیا
کی جانی پہچانی شخصیت بن چکے تھے۔ انہیں کسی بھی معروف ادبی رسالے کی ادارت
کا مل جانا مشکل نہیں تھا لیکن انہوں نے ملازمت کے بجائے اپنا ادبی رسالہ
’خیال‘ کے نام سے جاری کیا ۔یہ سال تھا 1957۔ لیکن بات کچھ بنی نہیں ۔
رسالے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے منتظم یا انتظامیہ کو بہت کچھ اپنے ظمیر
کے خلاف بھی کرنا پڑتا ہے۔ رسالہ بڑے بڑے لکھاریوں کے ناموں اور ان کے کلام
و مضامین سے نہیں چلتے بلکہ اس کے لیے تجارتی اداروں سے راہ و رسم رکھنا
ضروری ہوتا ہے تاکہ اشتہارات ملتے رہیں اور رسالہ نکلتا رہے۔ ناصرؔ کا تو
یہ مزاج ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے رسالے کے لیے تجارتی اداروں اور مخیر حضرات
سے رسالے کو جاری رکھنے کے لیے اپنا ہاتھ پھیلاتے ۔ چنانچہ ان کا اپنا
رسالہ جلد خاموش ہوگیا۔ اب انہوں نے محکمہ سماجی بہبود پھر محکمہ ولیج ایڈ
میں ملازمت اختیار کرلی۔ محکمہ کے رسالے ’ہم لوگ‘ کی ادارت بھی کی۔ یہ
سلسلہ 1964تک جاری رہا ۔ اب وہ پاکستان کے معروف اور معتبر شاعروں میں شمار
کیے جاتے تھے چنانچہ انہیں ریڈیوپاکستان لاہور سے وابستہ ہوگئے اور ریڈیو
پاکستان سے وابستگی ان کی باقی ماندہ زندگی تک قائم رہی۔
اِن سہمے ہُوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سُنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
ناصر ؔ کاظمی کو پاکستان کے ان شعراء میں جنہوں نے پاکستان میں آکر یا
پاکستان میں پیدا ہونے کے بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھا میں ایک منفرد
اور بلند مقام حاصل ہے۔ غزل ناصرؔ کی پہچان ہے جسے اس نے ایک نئی زندگی
دی۔ناصرؔ میر تقی میرؔ اور فانی ؔ بدایونی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ یہی وجہ
ہے کہ ان کی شاعری میں میر ؔ اور فانیؔ کی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہے۔ان کے
ابتدائی دنوں کی شاعرمیں میرؔ والا جذباتی دھیما پن، کسک، سپردگی کا لہجہ
اور انداز نمایاں نظر آتا ہے۔ میرؔ اور فانیؔ کے علاوہ ان کی شاعری پر ہندی
شاعری کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
سایے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
کہا جاتا ہے کہ ناصر ؔ کے ہاں ’احساسِ محرومی‘ کی وجہ بھی ناصرؔ کا میرؔ سے
متاثر ہونا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد ناصر ؔ نے شاعری میں اختر شیرانی کی قر
بت حاصل کی لیکن جلد وہ باقاعدہ حفیظ ہوشیار پوری کے شاگردہوگئے اور غزل
کہنے کا باقاعدہ سلسلہ انہی کی شاگردگی میں شروع ہوا ۔
ناصرؔ غم و الم اور دکھوں بھری شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
سایے کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
ہمارے گھر کی دیواروں پہ، ناصرؔ
اداسی بال کھولے سورہی ہے
خوش رہنے کے ہزار بہانے ہیں دہر میں
میرے خمیر میں ہے مگر غم کی چاشنی
شاعری کے بارے میں ناصر ؔ نے اپنے ایک انٹر ویو میں جو ان کی زندگی کا آخری
انٹر ویو تھا اور انتظار حسین نے بطور خاص لیا کہاکہ ’شاعری صرف مصرعے
لکھنے کا نام نہیں ۔ شاعری تو ایک نطقۂ نظر ہے زندگی کو دیکھنے کا، چیزوں
کو دیکھنے کا، اُ ن کو ایک خاص موزوں طریقے سے بیان کرنے کا نام شاعری
ہے‘۔ناصرؔ کاکہنا تھا کہ ’میری شاعری میں رات کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی
وجہ ، رات ، اندھیری رات یا وہ جسے ہمارے جدید شاعرایک تاریکی کا استعارہ
کہتے ہیں ۔ رات تخلیق کی علامت ہے۔ دنیا کی ہر چیز رات میں تخلیق ہوتی ہے ۔
پھولوں میں رس پڑتا ہے رات کو، سمندر میں تموج ہوتا ہے رات کو، خوشبویں رات
کو جنم لیتی ہیں۔ حتیٰ کہ ، فجر تک، فرشتے رات کو اتر تے ہیں۔ سب سے بڑی
وحی بھی رات کو نازل ہوئی ‘۔ناصرؔ نے غزل کے علاوہ نظم بھی کہی، نثر میں
بھی طبع آزمائی کی، ڈرامے لکھے، فیچر تحریر کیے اور تراجم بھی کیے لیکن
ناصرؔ کی پہچان غزل ہی ٹہری۔ناصرؔ غزل کہنے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ اس کی کہی
ہوئی غزلیں جس قدر مقبول اور عام ہوئیں اس کی مثال کم کم ملتی ہے
کہتے ہیں، غزل قافیہ پیمائی ہے، ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی ذرا کرکے تو دیکھو
شاعری کے بارے میں ناصر ؔ کا کہنا تھا کہ ’شاعری مردہ لمحوں کو زندہ کردیتی
ہے۔ وقت جو مرگیا جسے کوئی بھی زندہ نہیں کرسکتا ، شاعر زندہ کرسکتا ہے ۔
شاعری صرف مصرے لکھنے کا نام نہیں بلکہ خیالات و افکار کو اچھوتے اور دلکش
انداز سے شعر کا روپ دینے کا نام شاعری ہے۔
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
کیوں ٹہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
ناصرؔ کاظمی کو بجا طور پر عہد ساز شاعر کا رتبہ حاصل ہے۔ اس کی شاعری میں
پیکرتراشی کا منفرد پہلو جلوہ نما ہے۔ ناصرؔ کی پیکر تراشی پر ہندوستان کی
ایک مصنفہ سمیہ تمکین نے ایک کتاب’ ناصر کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی‘
بھی مرتب کی ۔ ناصرؔ کے حوالے سے بہت کام ہوا۔ پاکستان میں بھی بہت کچھ
لکھا جاچکا ہے او الکھا جاتا رہے گا۔ تحقیق کی جاچکی اور آئندہ بھی ناصرؔ
پر تحقیق کا عمل جاری رہے گا۔ناصرؔ کی شاعری میں ناامیدی بھی ہے اور حوصلہ
بھی ۔ پاکستان ہجرت کے بعد بے شمار لوگوں کے حالات اچھے تھے تو بہت سوں کے
اچھے نہیں بھی تھے۔ ہجرت میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔ ناصرؔ ؔ نے اچھے وقت کی
امید کا اظہار اپنے اس شعر میں خوبصورت انداز سے کیا
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اپنے ہم عصروں کی دنیا سے رخصتی یا اپنے دوستوں اور عزیزوں کے جدا ہوجانے
کا غم کسے نہیں ہوتا ۔ ناصرؔ کا انداز دیکھئے
جنہیں دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں
اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہوگئے کیسے کیسے گھر خاموش
زندگی میں اکثر قریبی دوستوں اور ساتھیوں سے بگاڑ کا پیدا ہوجانا، اَن بن
ہوجانا، اس اَن بن کا بڑھ کر قطع تعلق تک نوبت پہنچ جانا بھی ہو جاتا ہے۔
اس صورت حال کو ناصرؔ نے کس خوبصورتی سے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترک محبت کے با وجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصرؔ کاظمی کی غزلوں کا مجموعہ ’ برگ ِ نے‘ کے عنوان سے پہلی بار 1952میں
شائع ہوا۔پھر سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔یہ مجموعہ لاہور کے ادارے
مکتبہ کارواں نے شائع کیا تھا۔ ’دیوان ‘ ناصر’ کا دوسرا مجموعہ تھا جو
1972میں شائع ہوا۔ ’پہلی بارش‘ 1975 میں، ’نشاطِ خواب‘ 1977میں شائع ہوا۔
ناصرؔ کا منظوم ڈرامہ ’سر کی چھایا‘ 1981میں منظر عام پر آیا تھا۔ ناصرؔ کی
نثر ی تحریروں پر مبنی کتاب ’خشک چشمے کے کنارے‘ 1982میں شائع ہوئی
تھی۔ناصرؔ نے چند کلاسیکی شعراء کے انتخاب بھی کیے جن میں ’انتخاب میر‘
1989میں شائع ہوا،’ انتخاب نظیر‘ 1990 میں شائع ہوا، ’انتخاب ولی‘ 1991میں
شائع ہوا اور انتخاب انشاء‘ 1991میں اشاعت پذیر ہوا۔ان کے علاوہ بہترین
شاعری 1963اور 1969یہ مجموعے ناصر ؔنے مرتب کیے ۔ فراق گورگھپوری کی غزلوں
کا انتخاب کے علاوہ سر کی چھایا چودہ سو مصرعوں نظم ادبی رسالے ’سویرا‘ میں
شائع ہوئی۔ بے شمار فیچر، ترجمے کیے، کتابیں ایڈٹ کیں۔ کئی کتابیں ناصرؔ کے
دنیا سے چلے جانے کے بعد منظر عام پر آئیں۔ناصرؔ کی ڈائری بھی کتابی شکل
میں شائع ہوچکی ہے۔
شام سے سوچ رہا ہوں ناصرؔ
چاند کس شہر میں اُْترا ہوگا
ناصرؔ مجلسی آدمی تھے، دوستوں کے درمیان رہنا، قصہ سنانا اور شعر سنانا اس
کا محبوب مشغلہ تھا۔ کیفے ٹیریا، کافی ہاوس اس کے ٹھکانے ہوا کرتے تھے۔ اسے
رات میں نیند نہ آنے کی بیماری تھی ۔ لکھنے ، پڑھنے والوں کو یہ مرض عام
ہوتا ہے، مَیں بھی اسی دیگر امراض کے ساتھ ساتھ اس مرض کا پرانہ مریض ہوں۔
ناصر ؔ نے اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے اسے دولتِ بیدار کہا ہے۔ شعر دیکھیئے
رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصرؔ
تم نے یہ دولتِ بیدار کہا سے پائی
اپنی شاعری کی ابتدائی دنوں میں ناصرؔ مشاعروں میں اپنا کلام ترنم سے پڑھا
کرتے تھے۔ جیسے جالب ؔ ترنم سے اپنا کلام سنا یا کرتے تھے۔ کلام اور مضمون
کے ساتھ ساتھ ان کا انداز سننے والوں کو مست کردیتا تھا۔ ناصرؔ کا انداز
بھی اچھا تھا مجھے ناصر ؔ کو مشاعروں میں سننے کا اتفاق ہوا۔ ناصرؔ جب ہم
سے جدا ہوے تو میں جامعہ کراچی سے ماسٹر کرچکا تھا ۔ جامعہ میں رہتے ہوئے
ناصر ؔ کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا تفاق ہوا۔ ناصرؔ کا کہنا تھا کہ ایک
روز اسے یہ احساس ہوا کہ اسے ترنم سے اپنا کلام سنانے کے باعث داد ملتی ہے۔
ناصرؔ کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے مشاعرے کے بعد میں نے یہ عہد
کیا کہ اب مشاعرے میں ترنم سے نہیں پڑھوں گا اور ایسا ہی ہوا اس کے بعد
ناصرؔ نے ترنم سے غزل نہیں پڑھی۔ وہ تحت اللفظ
سے بھی اسی پسندیدگی اور چاہت سے سنا جانے لگا جیسے لوگ اسے ترنم کے ساتھ
سنا کرتے تھے۔
ناصرؔ کاظمی سے سوال کیا گیا کہ آپ شعر کیوں کہتے ہو؟ تو ناصرؔ کا جواب تھا
اس کا یک سبب یہ ہے کی خوبصورت چیزیں جو فطرت میں دیکھتا ہوں، میرے بس میں
نہیں آتیں۔ میری گرفت سے نکل نکل جاتی ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے چلی جاتی
ہیں۔ جو وقت مرجاتا ہے ، وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا ، مگر شاعری میں زندہ
ہوسکتا ہے۔ یہ بات ڈاکٹر توصیف تبسم نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے شائع کردہ
ناصر کے پاکٹ سائز انتخاب بعنوان ’دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ‘ میں اپنے
ابتدئیہ میں تحریر کیا ہے۔مَیں نے ناصر ؔ اپنی تحریر کا آغاز ناصرؔ کے اسی
شعر سے کیا تھا کہ ’ دل تو میرا اُداس
ہے ناصرؔ۔ شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے‘ سے کیا تھا اور اسی شعر پر اپنی
اس تحریر کا اختتام بھی کرتا ہوں ۔
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
ناصرؔ تم نے صحیح کہا تھا کہ دنیا آباد رہے گی وہ واقعی آباد و دائم ہے
لیکن اس دنیا میں تم نہیں اور نہ ہی تم جیسا کوئی اور ہے نہ ہوسکتا ہے، تم
تو تم تھے۔ لیکن تم اپنی شاعری کے ذریعہ اس دنیا میں موجود ہو اور جب تک یہ
دنیا آباد ہے موجود رہو گے۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا مَیں باہر جاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
انِ خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر ‘ وہ تیرا شاعر‘ وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھاتھا‘ پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر ؔ آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خُدا کچھ کہتی ہے
دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بُھول جا اُس کے قول و قسم‘ صبر کر صبر کر
آخر میں ناصر ؔ اس خوبصورت شعر پر اپنی تحریر کا اختتام کرتاہوں جس میں
ناصر ؔ کو اپنے آپ کو دبستان اَلَم کا دل کہا اور پھر یہ بھی کہا کہ دنیا
اس شادمانی کو تا دیر روئے یعنی یاد رکھے گی اور یہ حقیقت ہے کہ آج ناصرؔ
جداہوئے 43سال ہوگئے ادبی دنیا اسے نہیں بھلا سکی اس کے بعض بعض شعر تو
ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ جیسے ناصر ؔ زندہ ہے اور وہ شعر اس نے ابھی ابھی
کہا ہے۔ اﷲ ناصرؔ کی ادبی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کی مغفرت کرے۔
آمین۔(3مارچ2015) |
|