کارکن تحریک پاکستان حضرت مرشد شاھین گورایا نقشبندی مرشدی ؒ
(Alama Sajjad Ahmed, Hyderabad)
علم و عمل کی شخصیت
(جنہوں نے شہید بھٹو کو قائد عوام کا خطاب دیا تھا)
اٹل حقیقت ہے کہ جہان فانی میں جو بھی آیا اسے جانا ہے تا ہم کچھ ہمہ جہت
اورGeniousشخصیات اپنے کردار ، علمی ساکھ اور انسانیت کی خدمت کے حوالے سے
اتنی باوزن ہوتی ہیں کہ ان کا اٹھ جانا بھی ان کے علمی و عملی اثاثوں کی
واضح موجودگی کے باعث ناقابل یقین ہوجاتا ہے ۔ حقیقت پر مبنی مقولہ ہے کہ
’’عالمِ کی موت عالَم کی موت ہے‘‘ گویا علم و عرفان کا ایسا بہتا دریا سوکھ
جاتا ہے اورآنے والی نسلیں علمی پیاس بجھانے کے لئے ان شخصیات کے فیض سے
محروم ہوجاتی ہیں۔ایسی ہی شخصیات میں سے بالائی سندھ کی نابغۂ روزگار شخصیت
، دانشور ، مفکر ، صحافی ، شولہ بیاں مقرر ، واقف اسرار و رموز ، درویش حق
شناس ، باغبانِ گلشن صبر رضا ، نمونہ شریعت محمدی، کارکن تحریک پاکستان
بابائے خیرپور حضرت مرشد شاہین گورایا نقشبندی ، مجددی ، مرشدی ؒ(بابا
جی)ہیں۔ جن کے وصال کے بعد خیر پور میں علمی ، ادبی ، سیاسی ، صحافتی،
روحانی اور سماجی تاریخ کا ایک باب ختم ہو گیا ۔مرشد ی بابا جیؒ جنہوں نے
لوگوں کے لئے لاکھوں صفحات تحریر کئے ،ان کی ذات بابرکات پریہ خصوصی تحریر
کچھ بھی نہیں ۔ مگرانہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے کچھ حالاتِ زندگی نذر
کر رہا ہوں تا کہ عوام الناس کے لئے مشعل راہ بنے۔
مرشدی شاہین گورا یا نقشبندی ؒ حضور ﷺ کے ایک سچے عاشق تھے اور ان کی ذات
علم کے متلاشیوں کے لئے اندھیرے میں اجالے کی طرح تھی ان کی زندگی کھلی
کتاب کی مانند تھی ،اپنے دامن کو ہر قسم کے داغ سے محفوظ رکھا عمر بھر ذاتی
تشہیر اور خودنمائی سے دور رکھا ،عجز و انکساری کاعظیم پیکر تھے ۔اسلامی
اور برصغیر کی تاریخ میں انہیں اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا انہوں نے قیام
پاکستان میں بھرپورحصہ لیا۔قائداعظم ؒ ، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب
نشتر، علامہ عنایت ا ﷲ خان المشرقی ، آغا شورش کاشمیری اور دیگر کے ساتھ
پاکستان کے قیام کی تحریک میں شانہ بشانہ رہے۔قیام پاکستان کے بعد خیرپور
کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا اور یہاں پر عوام کی خدمت کے ذریعے رضائے الٰہی
کے اصول میں مصروف عمل ہوگیا۔ مرشدی بابا جی ؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ
انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام کا خطاب دیا تھا۔وہ شولہ
بیاں مقرر اور14زبانوں پر عبور رکھتے تھے انہوں نے خیر پور سے صحافت کا
آغاز کیا اور سب سے پہلے ہفتہ روزہ وادی کشمیر نکالا بعد میں اس کے بند
ہونے پر ہمراہی نکالا اور پھر ہفتہ روزہ پیر و مرشد کا اجراح کیا اور پیر و
مرشد کے ذریعے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ حق و صداقت کی
آواز بلند کرتے رہے بعد اذاں روزنامہ سندھ ایوننگ کی بنیاد رکھی ۔ ان کے
بعد ان کے صاحبزادے احمد عمران شاہین مرشدی نے پیر ومرشد اور سندھ ایوننگ
کا سلسلہ مشنری طور پر جاری رکھا ہوا ہے ۔مرشدی گورایا ؒ تحمل وبرداشت کا
نمونہ تھے ان میں لوگوں کو جمع کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی
صلاحیت تھی وہ ایک آفاقی شخصیت تھے ۔مرشدی بابا جی سلجھے ہوئے سیاست دان
اور بھرپور علمی و سماجی شخصیت تھے اور یہ ممکن ہی نہ تھا کہ دنیا کے کسی
بھی خطے میں مسلمانوں پر اُفتاد ٹوٹے اور وہ خامو ش رہیں ، اجنیت تو چھو کر
بھی نہیں گزری تھی ۔وہ کتاب و سنت کے سچے پیر وکار اتحاد امت کے عظیم داعی
تھے۔ تحریک آزادی فلسطین اور یا تحریک آزادی کشمیر ہو ہمیشہ ان کے حقوق کے
لئے آواز بلند کرتے رہے۔ جریدہ پیر ومرشد میں ان کے لکھے گئے اداریے اور
پیر و مرشد کے فرمان میں ہمیشہ ملک وقوم کا درد اور عوام کے حقوق کی بات
ہوتی تھی انہوں نے بالائی سندھ میں صحافت کو ایک منفرد انداز میں آگے
بڑھایا۔عشق محمد ﷺ سے سرشار مرشدی بابا جی ؒ خیر پور میں عید میلاد النبی ﷺ
کے جلوس اور جلسہ سیرت النبی ﷺ کے بانی تھے۔ مرشدی گورایا ؒ ایک فرد نہیں
ایک ادارہ ، ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام تھا مرشدی گورایا ایک فکر ، ایک سوچ
اور ایک نظریہ کا نام تھا ان کی دینی ، سماجی، سیاسی ، صحافتی ، روحانی
خدمات کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا ۔مرشدی گورایا ؒ پیر
طریقت ، رہبر شریعت ، حضرت امام احمد رضا ؒ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور
وہ اپنے سُسر حضرت پیر رضا خان نقشبندی ؒ کے سجادہ نشیں اورجماعت مرشدی
پاکستان کے روہانی پیشوا بھی تھے ان کے دست مبارک پر ہزاروں افراد نے بیعت
کرکے روحانی فیوض پر برکا ت حاصل کیں جبکہ کئی غیرمسلموں نے بھی اسلام قبول
کیا۔ خصوصاً اوڈھ راجپوت برادری کے افراد مریدین میں شامل ہیں۔
مرشدی بابا جیؒ ماہر فلکیات بھی تھے ، بڑی بڑی شخصیات ان سے اپنے زائچے
بنواتی تھیں اور ان سے اپنے مسائل کا حل روحانیت کی روشنی میں پاتے تھے ان
کے کچے گھر میں وقت کے بڑے بڑے بادشاہ، سیاست دان آئے، مگر انہوں نے کبھی
بھی کسی سے ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا بلکہ ہمیشہ عوام کی فلاح وبہبود کے
حوالے سے ہی آواز بلند کی ،خیر پور سے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سکھر جانے کے خلاف
تحریک ہو یا خیر پور کی تباہ حال صنعتوں کی بحالی کا مسئلہ ہو ، امن و امان
کی صورتحال ہو یا پھر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو ان سب میں مرشدی بابا
جی ؒ پیش پیش رہتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہیں بابائے خیر پور کے لقب سے
نوازا گیا ۔ مرشدی گورایا ؒنے عوام کے حقوق کی جنگ میں قید و بند کی
صعوبتیں بھی برداشت کیں اورDPRکے تحت پابند سلاسل کئے گئے مگر ان کے حوصلے
کبھی بھی پشت نہ ہوئے۔
مرشدی بابا جی کی شخصیت اور ان کی زندگی کے ہر پہلو پر لکھا جائے ضخیم کتاب
مرتب ہو سکتی ہے لہذا وقت کی کمی کے باعث ان الفاظ پر مضمون کا اختتام کرتا
ہوں کہ مرشدی بابا جیؒ کی پیدائش 09نومبر 1925ء کو ہوئی تھی اور وصال 1مارچ
2012ء میں ہوا۔
مرشدی بابا جی کا وصال علم و ادب کی دنیا میں ایک ایسا خلاء پیدا کر گیا
جسے پورا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ علم و عمل کی وہ شخصیت تھے جن میں مفسر
، محدث ، واعظ، مصنف ، رہبر اہل شریعت و طریقت ، اہل معرفت و روہانیت کے
عظیم گوہر موجود تھے ضرورت اس امر کی ہے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور
میں مرشدشاہین گورایا نقشبندی مرشدیؒ کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں مرشدی
گورایاؒ چیئر قائم کی جائے تا کہ ان کے افکار کی روشنی میں علم کے پیاسے
علم کی پیاس بجھا سکیں۔ |
|