مولانا محمد شاکر علی نوری اکابراور ارباب دانش کی نظر میں
(از:عطاء الرحمن نوری, MALEGAON DIST NASHIK MAHARASHTRA INDIA)
اصلاح فکر واعتقاد کی عالمگیر
تحریک سنّی دعوت اسلامی کے امیر
داعی کبیرحضرت علامہ محمد شاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کی
شخصیت خدمت دین کی بدولت پوری دنیا میں انفرادی حیثیت کی حامل
ہے۔۵؍ستمبر۱۹۹۲ء کوممبئی عظمیٰ کی سرزمین پرخداورسول اکرمﷺ کے کرم وعنایت
پر بھروسہ کرتے ہوئے’’ تحریک سنّی دعوت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔حضرت
موصوف کی قائدانہ صلاحیتوں نے اس تحریک کو عالمی تحریک بنادیا۔یہ تحریک
ممبئی سے اٹھی اوردیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس کا
غلغلہ بلند ہونے لگا۔آپ جہان بھر میں اپنی خطابت کے ذریعے اصلاح امت کا
فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں،ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے ذریعے بھی رہ نمائی
فرمارہے ہیں۔آپ نے ملک وبیرون ملک کے طول وعرض میں متعدددارالعلوم ا
وراسلامی انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام فرمایاہے۔ہر پانچ سالوں پر دی رائیل
اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ
سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔۲۰۰۹ء اور ۱۵۔۲۰۱۴ء کی سروے
رپورٹ میں مولاناموصوف کانام بھی فہرست میںموجودہے۔آپ کو خانۂ کعبہ
میںنماز اداکرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔مولانا شاکر علی نوری نے اپنے اصلاحی
کاموں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور
اہل سنت کے عظیم عالم دین ہیں۔آپ کی شخصیت کے گوناگوں اور آفاقی پہلوئوں
کی مکمل عکاسی کرناراقم کی بساط سے باہر ہے اس لیے حضرت موصوف کی سیرت
وشخصیت کو اہلسنّت کے اکابر و ممتازعلمائے کرام کے تاثرات و اقوال کی روشنی
میں پیش کیاجاتا ہے۔
حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی
۱۷؍مارچ ۱۹۶۰ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی جناب
عبدالکریم میمن نوری کے یہاںمولاناشاکر علی نوری کی ولادت ہوئی۔آپ کے یہاں
اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور
علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتہ چلتاہے۔’’مولانا موصوف نے
ایس ایس سی (میٹرک)تک تعلیم جونا گڑھ میں حاصل کی ،مدرسہ عرفان العلوم
اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میں حفظ قرآن کیا۔ وہیں تجوید وقراء
ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل مینارہ مسجد
ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر
تبلیغ کے میدان میں آگئے، مولانا کے چند اساتذۂ کرام یہ ہیں۔
حضرت مولانا غلام غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا نور الحق (سابق استاذ
دارالعلوم محمدیہ)، مولانا محمد حنیف خان اعظمی مبارکپوری، مولانا مجیب
الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان صاحب صدر المدرسین
دارالعلوم محمدیہ، حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد
برکاتی اساتذۂ دارالعلوم محمدیہ وغیرہ سے تعلیم حاصل کی اور اشرف العلما
حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے وقتاً فوقتاً استفادہ
کرتے رہے۔
مولاناشاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کا سوانحی خاکہ محقق
مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی (صدر شعبۂ افتا الجامعۃ
الاشرفیہ مبارکپور، اعظم گڈھ، یوپی)کے قلم سے پیش خدمت ہے :
’’مولانا موصوف کو سند الفقہائ،حبر الامہ، حضرت سیدی مفتیٔ اعظم ہند مولانا
مصطفی رضا خان قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت اور تاج
الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری دام ظلہٗ اور سجادہ نشین آستانۂ
عالیہ قادریہ بغداد سے شرف خلافت حاصل ہے، یہ حسن اتفاق کہ مولانا بھی نوری
ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ بھی نوری ہیں، اور آپ کے والد مرحوم بھی نوری
تھے اور یہ بندہ گنہگار راقم الحروف بھی اسی سلسلۂ نوریہ سے منسلک ہے اور
آج تو ایک جہان اسی نور عرفان سے روشن ومنور ہے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
لیکن مولانا نے نوری پیر سے جو اکتساب نور کیا وہ قابل رشک ہے کیونکہ مرشد
بر حق کے فیضان نے انہیں سنت کا عامل بھی بنا دیا اور شریعت کا مبلغ بھی ۔۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔عمامہ شریف برابر زیب سر رکھتے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا
کرتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے احکام سے روشناس کرنے اور سنت کے مطابق زندگی
گزارنے کے لئے تقریباََ سترہ سال پہلے ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک
تحریک چلائی جو بہت مقبول ہوئی، ہندوستان، برطانیہ، کناڈا، امریکہ، افریقہ
وغیرہ میں اس کے پرچم تلے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور
برطانیہ میں عظیم الشان پیمانے پر سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں۔ وادیٔ نور
آزاد میدان ممبئی میں تقریباََ پانچ لاکھ فرزندانِ توحید جمع ہوتے ہیں۔ ان
اجتماعات میں راقم الحروف نے بھی بارہا شرکت کی ہے، ان میں اصلاح عقائد اور
اصلاح اعمال کے مختلف موضوعات پر علما کے نورانی بیانات ہوتے ہیں، خود
مولانا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی روشنی میں بہت عمدہ اور اثر انگیز
خطاب فرماتے ہیں، اجتماعات کا ایک اجلاس فقہی احکام ومسائل کے لئے خاص ہوتا
ہے ،جس میں لوگوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔
وہابیوں،دیوبندیوں کے عقائد اور احکام کے تعلق سے بھی سوالات ہوتے ہیں جن
کے تفصیلی جوابات کتاب وسنت کی روشنی میں دئیے جاتے ہیں۔اسٹیج کافی وسیع
وعریض ہوتا ہے جو علما، فقہا، ائمہ، قرا، حفاظ اور شعرا سے بھرا ہوتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایسا شخص جس کی کل تعلیم درجۂ خامسہ تک ہو اور وہ
ایسے کارہائے نمایاں انجام دے،قابل رشک وقابل تقلیدہے، میں تو یہ سمجھتا
ہوں کہ یہ مرشد بر حق حضور سیدی ومولائی وملاذی مفتیٔ اعظم ہند مولانا شاہ
مصطفی رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نوری فیضان ہے جو
مولانا موصوف پر برس رہا ہے۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۳۸)
نبیرۂ رئیس القلم مولاناخوشتر نورانی
نبیرۂ رئیس القلم مولاناخوشتر نورانی صاحب (ایڈیٹر جام نور،دہلی)نے اپنے
میگزین کے لیے امیر سنّی دعوت اسلامی کا انٹرویولیا۔ ادارتی نوٹ میں امیر
سنّی دعوت اسلامی کے دعوت وعزائم و تصنیفی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے
مولاناخوشتر نورانی صاحب رقم طراز ہیں:
’’مولانا تعلیم دین کو عام کرنے کے لیے ایک سو گیارہ مدارس قائم کرنے کا
عزم رکھتے ہیں جب کہ اب تک ایسے ۲۵؍مدارس اسکول قائم ہوچکے ہیں۔مولاناکے
منصوبوں میںانگلش میڈیم اسکول اور ہاسپٹل کا قیام بھی شامل ہے۔مولاناموصوف
کا وقت تبلیغی اسفار،تربیت،مبلغین،تحریک کی بہتر تنظیم اور اپنے مدارس کی
نگرانی اور تجارت جیسے امور میں صرف ہوتاہے۔ہر سال حج وعمرہ کی سعادت سے
سرفراز ہوتے ہیں۔موصوف کوخانۂ کعبہ مقدسہ کے اندرون میں عبادت کرنے کا
اعزاز بھی تین سال قبل حاصل ہوا۔ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ
مبارک پور کا ایک سہ روزہ فقہی سمیناراورآخر میں اجلاس عام بھی منعقد
کراتے ہیں۔تصنیف وتالیف سے بھی رشتہ ہے۔ماہ رمضان کیسے گزاریں؟،گلدستۂ
سیرت النبیﷺ،مژدۂ بخشش (نعتوں کا مجموعہ)،عظمت ماہ محرم اور امام
حسین،قربانی کیا ہے ؟،امام احمد رضااور اہتمام نماز،بے نمازی کا انجام،مسلم
کے چھ حقوق، حیات خواجہ غریب نواز،خواتین کا عشق رسول اور خواتین کے واقعات
‘‘وغیرہ آپ کے اصلاحی قلم کی شاہکار ہیں۔مولانااپنے خون جگر سے اپنی
اصلاحی تحریک ’’سنّی دعوت اسلامی ‘‘کی سینچائی میں مصروف ہیں۔‘‘(جام
نور،ص۴۴،نومبر۲۰۰۹ئ)
یہ تو رہاسوانحی خاکہ اور دعوتی عزائم کی چندجھلکیاں۔اب اہل سنت کی بڑی
خانقاہوں کے سجادگان اور ممتاز علمائے کرام کے تاثرات اورتقریظات کے
اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت سیدشاہ آل رسول نظمی مارہروی علیہ الرحمہ
شہزادۂ حضورسیدالعلماء حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی
مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے
ساتھ جب امیر سنّی دعوت اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ
نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:
’’اس مستانے کی نذر جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو
اس کے حبیب ﷺکی سنت ہے،یعنی تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری
برکاتی سے ہے جنہیں میں اپنے بھائی کی طرح چاہتاہوں۔‘‘(اہل سنت کی
آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)
اس جملے پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی توفیق احسن برکاتی لکھتے ہیں:
’’غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت
اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت
مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین
گوئی بھی عکس ریز ہے۔(مرجع سابق)
حضرت سید نظمی میاں علیہ الرحمہ نے امیر سنّی دعوت اسلامی کو ۱۷؍صفرالمظفر
۱۴۳۳ھ کو خلافت سے نوازاتھااور خلافت عطا کرتے وقت فرمایاتھاکہ :
’’شاکر بھائی!خوب لگن سے دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ
فقیر برکاتی اور خاندان برکاتیت آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت
دیتاہوںجو حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ
کو دی تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور قدیمہ دونوں کی خلافت دیتاہوں۔(مرجع سابق)
امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب
مولاناشاکر علی نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی
توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا
اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ
نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ)امیر سنّی دعوت اسلامی کی کتاب ’’برکات شریعت ‘‘کی تقریظ
میںرقم طراز ہیں:
’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی تحریک ’’سنی دعوت
اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک میںشامل ہوکر
صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اللہ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال وکمال
اور تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین بجاہ الحبیب
الامین وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین(برکات شریعت ،حصہ
اول ،ص۳۴)
حضور شرف ملت حضرت سید محمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی
اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن
رائٹر حضورشرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف
انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور
طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں۔ امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ
کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر حضور شرف ملت اپنے تاثرات ان الفاظ میںتحریر فرماتے
ہیں:
’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی شخصیت
اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی اظہار سے
میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن اور روح
کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔
نعت نبیﷺ بڑا ہی سخت میدان ہے۔ اس راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ
رسالت مآب ﷺمیں عمر بھر کیلئے معتوب بنا سکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل
نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور
لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسولﷺ
پر سمجھوتہ۔
شاعری، شاعر کے دل کی ترجمانی کرتی ہے، جناب شاکر نوری کو اپنے پیرانِ
سلسلہ اور تحریک سُنی دعوت اسلامی سے والہانہ عقیدت و محبت ہے، ان دونوں
جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی
سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت،
جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا عجز اور
اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے آنکھیں
خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔ (مژدۂ بخشش نعتوں کا مجموعہ،ص۵)
برادر گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد ؔ رضوی نے مولانا محمد شاکر نوری کی
شاعری پر ۲۰۰۶ء میں ’’مولانا محمد شاکر نوری ـ: دبستان بریلی کے خوش فکر
شاعر ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا تھا جو سہ ماہی سنی دعوت اسلامی
، ممبئی ، شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا ۔ چار صفحے کا یہ
مضمون بڑی عمدگی اور محنت سے لکھا گیا تھا ، اس مضمون کے اخیر میں مشاہدؔ
رضوی لکھتے ہیں :
’’ حضرت مولانا موصوف کی نعتیہ شاعری میں دبستان بریلی کے معاصر شعراے کرام
کی طرح سوز وگداز ، کیف وجذب اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تڑپ
اور کسک پائی جاتی ہے ، آپ کی شاعری کے مضامین میں آورد نہیں بلکہ آمد
آمد ہے ۔ طرز ادا کا بانکپن ، اظہار مدعا میں عاجزانہ پن ، آسان اور سہل
الفاظ میں بات کو پیش کرنا ، افراط وتفریط سے مبرا ، محتاط وارفتگی کے ساتھ
شاعرانہ پیکر تراشی کا چابک دستی سے استعمال اور جان ایمان مصطفی جان رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت والفت کا اظہار واشتہار آپ کے کلام کی
نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ‘‘(سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ، ممبئی ، شمارہ جنوری تا
مارچ ۲۰۰۶ء ص: ۴۳)
علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب
امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی جو باغ
وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے زیر
اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے سالانہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب نے تحسین
آفرین کلمات ارشاد فرمائے،ملاحظہ کریں:
’’پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہلسنّت سنّی دعوت
اسلامی کی جان، مسلک امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کو پھیلانے والا
انسان، نازش سنّیت، حضرت مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں
کہ حضور مفتی اعظم ہند کی روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اللہ کا بڑافضل
واحسان ہے کہ ان کے کام کو نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام
کو انگلینڈکی زمین پر بھی دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے
پروگرام،لسبن کے پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم
اسلامی میں منانی گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدللہ!سولہ ملک
میں جانا ہوا،کہیں ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا،ہر جگہ بستر لگاہوامل گیا۔وہ
بستر اٹھاتے پھرتے ہیں جن کا کوئی نہیں،ہماراتو سب کچھ ہے ؎
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہئے
دینے والا ہے سچاہمارا نبی
اللہ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ
حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد
میں ہم گئے پہلے یہ گئے،سب بستر لگے لگائے مل گئے۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل
۲۰۰۸ء ،نندوربارمہاراشٹر)
خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ
جملے:’’منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ
بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی
نوری صاحب کی بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔
مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب مصباحی
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب (سکریٹری جنرل
ورلڈ اسلامک مشن،برطانیہ)روز اول ہی سے سنّی دعوت اسلامی کی نہ صرف سرپرستی
فرمارہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں تحریک کی بنیادوں کوبھی مستحکم کررہے
ہیں۔آپ جابجااپنے خطبات میں تحریک کی سرگرمیوں کو سراہتے اور امیر تحریک
کی خدمات کاتذکرہ فرماتے ہیں۔سنّی دعوت اسلامی کے مقاصد پر آپ نے ایک
خصوصی خطاب فرمایا،جس میں آپ نے تحریک کے اغراض ومقاصد کویوں پیش کیا:
’’سنی دعوت اسلامی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ صدیوں کی سوئی ہوئی قوم کو عمل
کی طرف راغب کیاجائے،قوم مسلم کو اس کے فرائض اور محسوسات کو یاد
دلایاجائے،اس کی ذمہ داریاں اسے بتائی جائیں،اسے مائل بعمل کیاجائے تاکہ جس
زوال سے آج قوم مسلم دوچار ہے اس زوال کے ماحول سے وہ خود کو نکال سکے اور
ترقی کی راہوں پرگامزن ہوسکے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۳۰۶)
اسلام ایک مکمل نظام زندگی فراہم کرتاہے۔اسی لیے امیر تحریک اور ان کے
تربیت یافتہ وفیض یافتہ مبلغین صرف چھ باتوں کی نہیں بلکہ مکمل اسلام کی
دعوت پیش کرتے ہیں۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے مفکر اسلام اپنے خطاب میں
فرماتے ہیں:
’’میں مبارک باد دیتاہوں سنی دعوت اسلامی کے قائدین کوکہ انہوں نے اس ضرورت
کو پہلی بار محسوس کیاہے کہ اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے
متعارف کرایاجائے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۰۱)
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’پورااسلام پیش کرو،مکمل اسلام پیش کرو،سنّی دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے
نکلنے والاآپ کا داعی ،آپ کا مبلغ اور آپ کا نوجوان ساتھی اس یقین کے
ساتھ نکل رہاہوکہ میرے شکم میں ایک دانہ بھی حرام نہیں ہے۔اس یقین کے ساتھ
نکل رہاہوکہ میری نگاہ کبھی کسی نامحرم کو اختیاری نہیں دیکھے گی۔دل ونگاہ
کے ایمان کے ساتھ نکل رہاہو۔میرے عزیز و!خوشی کی بات ہے کہ اس تحریک میں
نوجوان زیادہ شامل ہیں۔خوداس تحریک کے جو امیر ہیں،وہ بھی نوجوان ہیں۔بہت
اچھے وقت میں یہ ذمہ داری انہوں نے سنبھالی ہے۔خداان کو طویل عمر عطا
فرمائے۔لیکن کسی بھی تحریک کے پھلنے اور پھولنے کے لیے آدھی صدی تو چاہیے
نا؟انہوں نے ایسے وقت میں سنبھالہ ہے کہ آدھی صدی تک ان شآء اللہ اس کی
ذمہ داری کو وہ نبھاسکتے ہیں۔نوجوانوں کو بھی انہوں نے ساتھ لیاہے اور
یادرکھوجب کسی قوم کا نوجوان سنبھل جاتاہے تو پوری قوم سنبھل جاتی
ہے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۱۶)
حضور مفکر اسلام نے ان پچاس سالوںپر مزیدتبصرہ کرتے ہوئے کس قدر ہمت افزا
کلمات ارشاد فرمائے ہیں:
’’ابھی توآپ نے کام کاآغاز کیاہے اور اللہ اکبر!یہ جم غفیر ہے۔دوسروں کا
کام آج کا نہیں پچاس سال پرانا ہے۔پچاس سال میں تو آپ کے بینرکے نیچے ان
شآء اللہ پورا ہندوستان ہوگا۔اگر آپ کا اخلاق رہا،آپ کی محبت رہی،پوری
دنیاہوگی۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۴۵)
عالمی اجتماع میں دوران تقریر مفکر اسلام کایہ جملہ بھی ملاحظہ فرمائیں جس
میں مفکر اسلام جیسے عالمی خطیب امیر تحریک کو اپناامیر تسلیم کرتے ہیں:
’’میراامیر Bycycle(سائیکل)پر چلتا ہے ،ڈھائی سوگز کے مکان میں رہتاہے،اور
جب وہ آواز دیتا ہے تو ڈھاٹیں مارتاہوا سمندرموجود ہے۔‘‘(عالمی
اجتماع،۲۰۱۰ئ)
اس جملے سے جہاں مفکراسلام کی سنّی دعوت اسلامی سے کلّی وابستگی کا علم
ہوتاہے وہیںپوری دنیامیں امیر تحریک کے اثرات کا یقین بھی ہوتاہے۔ساتھ ہی
علامہ قمرالزماں اعظمی جیسی مہتم بالشان شخصیت کی عاجزی و انکساری بھی
مترشح ہوتی ہے کہ باوجود اس قدر اعلیٰ اوصاف کے وہ مولاناشاکر علی نوری
صاحب کو محض آپ کی ہمہ گیر دعوتی سرگرمیوں کے سبب اپناامیر فرمارہے ہیں ۔
پیغام اعظمی نامی خطاب میں حضور مفکر اسلام امیر محترم کی خدمات کے اعتراف
کے ساتھ سنّی دعوت اسلامی میں شمولیت کی دعوت کس حسین پیرائے میں دے رہے
ہیں:
’’میں سلام کرتاہوں حضرت مولاناقاری شاکر کی خدمات کواور ان کی تحریک کو
اور ان کی تعمیر کو ان کی انسان سازی کو اور نوجوانوںپر ان کے اثرات کو۔میں
آپ سے استدعاکرتاہوں کہ صرف سن کر مت چلے جائیے گا بلکہ کام کا طریقہ یہ
ہے کہ سنّی دعوت اسلامی کے باضابطہ رکن بن جائیے،اپنے بچوں اور نوجوانوں کو
شامل کیجئے اس تحریک میں اور اس تحریک کو عالمگیر تحریک بنادیجئے۔‘‘(خطبات
اعظمی نمبر۱،بیان نمبر۱۵)
حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی صاحب قبلہ
امیرسنّی دعوت اسلامی نے مسلمانوں کے اعمال ،افعال، اخلاق ،کردارکی اصلاح
ودرستی کی ہر ممکن کوشش کی۔کل تک جو لوگ فلمی نغموں کے شوقین تھے اب وہ نعت
مصطفیﷺکے اسیر ہوچکے ہیں۔چنانچہ پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت علامہ غلام
عبدالقادر علوی صاحب قبلہ(سجادہ نشین خانقاہ فیض الرسول و ناظم اعلیٰ
دارالعلوم فیض الرسول، برائوں شریف،یوپی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ موصوف اپنے گوں نا گوں خصائل حمیدہ کے سبب خواص علما و مشائخ کی نگاہ
میں انتہائی قدر و عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اصلاح عقائد و اعمال کی عالمی
تحریک ’’سُنّی دعوتِ اسلامی‘‘ کے بانی، امیر و سربراہ کی حیثیت سے ان کی
مذہبی خدمات کا سلسلہ کئی بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کے
لوگ دین کی تڑپ لے کر جب اس پاکیزہ تحریک سے وابستہ ہوئے تو ان کی زندگی
میں اعتقادی، عملی و فکری حیثیت سے ایسا انقلاب آیا کہ وہ تحمل و بردباری،
سنجیدگی و متانت، ایثار و خود داری، دین کے لئے جاں نثاری و فدا کاری کا
مرقع اور صاحب کردار مسلمان کی عملی تصویر بن گئے۔ کچھ نے تو راستیِ گفتار
و پاکیزگیِ کردار سے آراستہ ہو کر اپنے ماحول میں دعوت و اصلاح کے لئے خود
کو اس طرح وقف کر دیا کہ دوسروں کے لئے رہبر و رہنما بن گئے۔‘‘(برکات شریعت
،مجلد،ص۴۳)
حضرت علامہ مولانا افتخار احمد صاحب قادری مصباحی
حضرت علامہ افتخار احمد صاحب مصباحی (استاذ دارالعلوم قادریہ غریب نواز،
لیڈی اسمتھ، سائوتھ افریقہ)کا یہ اقتباس بھی چشم غور سے پڑھنے کے قابل ہے :
’’حضرت علامہ حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی امیر سُنّی دعوتِ اسلامی
جماعت اہلِ سنت کے قابل رشک علما میں سے ہیں، اعلاے کلمۃ اللہ کے سلسلے میں
وہ اپنی تحریروں، تقریروں اور سرگرمیوں میں امتیازی شان کے مالک ہیں۔ ان کی
خدمات کا دائرہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بھی پھیلا ہوا
ہے۔ ان کی نگارشات بڑی وقیع، اہم اور قرآن و سنت کی روشنی سے منور ہوتی
ہیں۔ ان کا اسلوب دل کش، موثر اور جاذب قلب ہوتا ہے۔ جو فرماتے یا لکھتے
ہیں اپنی ذات کو اس کا اولین مخاطب کرتے ہیں اس لیے بے شمار پروانے ان کی
شمعِ حیات کے گرد رقصاں اور نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کے رشحات
قلم سے رونما ہونے والی متعدد نگارشات اس حقیقت پر شاہدِ عدل ہیں۔‘‘(برکات
شریعت برائے خواتین،ص۴۳)
ایک اور مقام پر یوں لکھتے ہیں:
’’جو حضرات دعوت کی فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہ یقینا عظیم و جلیل ہیں، کیوں
کہ نبی کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخی
خطبہ میں فرمایا تھا ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ‘‘ حاضرین پر
فرض ہے کہ میرا یہ پیغام غائبین تک پہنچا دیں۔گویا یہ حضرات نبی رحمت صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم و فرمان کو بجا لانے کی سعادت و برکت سے بہرہ
ور ہوتے ہیں۔ امت کا جو فرد بھی یہ فریضہ انجام دے گا وہ رسول صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کا اطاعت شعار اور سعادت مند امتی ہوگا۔ لیکن یہی فریضہ
اگر علما انجام دیں گے تو اس کی اہمیت و جلالت دو چند ہوجاتی ہے۔ علما کی
یہ مجلسیں سراپا نور و برکت ہوتی ہیں، زبانِ نبوت سے اس کا تعارف پڑھیے۔
سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے محبوب صحابی جو حضور کی
نعلین مبارک اور مسواک مقدس اٹھایا کرتے تھے اور حضور کو پیش کرتے اور
دوسری خدمات بھی انجام دیتے وہ عظیم صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ہیں، ان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے
عبداللہ! علم دین کی مسجد میں تیرا بیٹھنا اس طرح کہ نہ تو قلم چھوئے اور
نہ کوئی حرف لکھے یہ ایک ہزار غلاموں کے آزاد کرنے سے بھی افضل و بہتر ہے
اور عالم کے چہرے کو تیرا دیکھنا ایک ہزار گھوڑوں سے افضل ہے جسے تو راہِ
خدا میں صدقہ کرے اور عالم کو تیرا سلام عرض کرنا ایک ہزار سال کی عبادت سے
افضل ہے۔(لباب الحدیث از امام سیوطی)سُنّی دعوتِ اسلامی کے امیر محب گرامی
حضرت علامہ مولانا محمد شاکر علی نوری صاحب زید مجدہ کو مذکورہ حدیث کے
مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو حسن ظن کہتا ہے کہ آپ بھی اس حدیث کے
مصداق ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۴۵)
مولاناعطیف میاں قادری بدایونی
مینارہ مسجد میں منعقدہ حضور نظمی میاں علیہ الرحمہ کے محفل عرس چہلم میں
وقار ملت کی موجودگی میں خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف کے چشم وچراغ
مولاناعطیف میاں قادری بدایونی اپنے خطاب میں ضمناً مولاناشاکر علی نوری
برکاتی صاحب کا تذکرۂ خیر فرماتے ہوئے ڈاکٹر اقبال اور خمار بارہ بنکوی کے
اشعاریوں نذرکیاہے:
’’ آج پہلی بار اس محفل کی برکت سے امیر سنّی دعوت اسلامی حضرت مولاناحافظ
شاکر برکاتی کی زیارت ہوئی۔۔۔۔میں بمبئی میں تھا،سنا تھا کہ بمبئی میں
اجتماع ہوتا ہے،ایک دو بار گیا بھی تھاوہاں پر،میں سوچتاتھا ملاقات ہوگی تو
ایک شعر عرض کروں گا علامہ اقبال کا،کہتا ہے شاعر مشرق کہ ؎
نہ گھبرا تندی باد مخالف سے اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
دوسرا شعر خمار بارہ بنکوی کاکہ
نہ ہاراہے عشق اورنہ دنیا تھکی ہے
دِیاجل رہاہے ہواچل رہی ہے
علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب
سنّی دعوت اسلامی کے عالمی سالانہ اجتماع کی اہمیت وافادیت پر تبصرہ کرتے
ہوئے علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب(ڈربن) اپنے خطاب میںارشاد فرماتے ہیں:
’’سنّی دعوت اسلامی کے امیر ہمارے امیر دعوت مولاناشاکر علی صاحب نوری نے
یہ سب کچھ اس لیے کیاہے کہ امت کے سامنے اس دنیاکی زندگی میںایک کامیاب
زندگی،خوشگوار زندگی اور پھر اس زندگی کے بعد جو آخرت کی زندگی ہے اس کے
لیے آپ کو اتناسرمایہ وہ دے دیں کہ جب آپ یہاں سے جائیں توآپ مالا مال
ہوکر جائیں۔‘‘(عالمی اجتماع ،۲۰۱۱ئ)
نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری صاحب
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو مقرر وخطیب بنایاہے کیوں کہ خطابت دعوت وتبلیغ کا
بہترین ذریعہ ہے۔آقا علیہ السلام نے حجۃ الوداع میں جو خطاب فرمایاوہ پوری
دنیا کے انسانوں کے لیے عظیم قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔امیر محترم کے خطابت
وکتابت کے متعلق نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری
صاحب (رضوی امجدی دارالافتائ، ممبئی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ مولانا حافظ وقاری محمد شاکر علی نوری امیر سنی دعوت اسلامی جس طرح اپنی
دلنشیں تقریر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح تحریر
ولٹریچر کے ذریعہ بھی تبلیغ واشاعت مسلک اعلیٰ حضرت کی نمایاں خدمات انجام
دے رہے ہیں۔ ‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۰)
حضرت مفتی محمد اختر حسین قادری علیمی صاحب
کسی مفکر کاقول ہے کہ لوگوں سے دعاکی گزارش کرنے سے بہتر ہے کہ خود کو اس
قابل بنائو کہ اہل زمانہ تمہارے لئے دعاکریں۔امیر محترم کی دعوتی خدمات
ارباب نقدونظر سے پوشیدہ نہیںہیں۔آپ کی سرگرمیوں اور اصلاحی کارناموں
کودیکھتے ہوئے جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر
حسین قادری علیمی خلیل آبادی(استاذ و مفتی دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی،
بستی یوپی)کے دل سے نکلے دعائیہ کلمات ملاحظہ فرمائیں:
’’خدائے بزرگ وبرتر ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے امیر، ارکان واعیان اور متعلقین
کو جزائے خیر دے جو اس دور پر فتن میں اسلامی اقدار و تعلیمات کو فروغ دینے
کا بار گراں اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے
پیہم عمل اور مسلسل جد و جہد میں مصروف ہیں ۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۳)
حضرت مفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی
اسی طرح حضرت علامہ مفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی دام ظلہ النورانی(مفتی
و قاضی ادارۂ شرعیہ مہاراشٹرا)بھی امیر محترم کے حق میں دعاگو ہیں:
’’اس دور پُر آشوب اور صلح کلی ماحول میں تحفظ عقائد اور صیانتِ دین و
مذہب کے لئے مؤثر انداز میں کتابوں کی اشاعت کی سخت ضرورت ہے۔ جان و مال
کا خوف دلا کر اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے دشمنوں
کے ساتھ مل بیٹھنے کا ایمان سوز حربہ شیاطین استعمال کر چکے، ایمان کی
کھیتیاں جل رہی ہیں، عقیدہ کا باغ جھلس رہا ہے، امتیازِ سُنیت مجروح ہو رہا
ہے، ایسے ماحول میں اسلام کے داعی، سُنیت کے مبلغ، مصلح قوم و ملت کی ذمہ
داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ دعا ہے کہ مولیٰ امیر سُنی دعوت اسلامی و ان کے
رفقائے کار اور دین و سُنیت کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا جذبہ
رکھنے والوں کو سرکارِ اعلیٰ حضرت سیدنا امام احمد رضا قادری حنفی بریلوی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلک کو خوب خوب عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(ماہ رمضان کیسے گزاریں؟ص۸)
فاضل جلیل حضرت مولاناصادق رضامصباحی
’’سنی دعوت اسلامی اور امیر سنی دعوت اسلامی اپنی دعوتی خدمات،اصلاحی
تحریکات،تبلیغی مساعی اورتذکیری جد وجہد کی بنیادپربر صغیر سے نکل کر دیگر
بر اعظموں میں حیرت انگیز کامیابیوں کے نقوش مرتسم کرچکے ہیں۔حقیقت یہ ہے
کہ اس تحریک نے اپنی غیرمعمولی اصلاحی کوششوں سے تاریخ کوچہرے کوضیابخشی ہے
اس سے انکارانصاف ودیانت سے انحراف ہوگا ۔ بیس سال قبل یہ تحریک وجودمیں
لائی گئی اور تب سے اب تک اس نے سلکِ تاریخ میں کامرانیوں کے وہ گہر پروئے
ہیں کہ بر صغیر کی دعوتی واصلاحی تاریخ اس کا تذکرہ کیے بغیر ہمیشہ نامکمل
سمجھی جائے گی۔ آج عالم یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں تحریک کاکام پھیلاہواہے
اوربڑی برق رفتاری سے اس کے قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
امیر سنی دعوت اسلامی مولانامحمدشاکرنوری صاحب قبلہ بے حد مصروف شخصیت کا
نام ہے تنظیم کے بہت سارے کام ہیں جو ان کے دماغ سے ہروقت چمٹے رہتے ہیں
اورانہیں ہروقت متحرک رکھتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ سارے کام حسن وخوبی سے
اپنی منزل کو پہنچ رہے ہیں۔ان کاذ ہنی سفرہمیشہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں
جاری رہتاہے ۔ہمارے حضرت موصوف ملکی وغیر ملکی دعوتی دوروں کے ساتھ ساتھ
تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اپنی فیض رسانی کادائرہ وسیع سے وسیع
ترکرچکے ہیں ۔ان کی تقریبا دو درجن کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر
قارئین کی میز پر سج چکی ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۴)
مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی
خانقاہ برکاتیہ کا ترجمان مجلہ’’اہلسنّت کی آواز‘‘ہر سال مختلف عنوانات پر
قیمتی اثاثہ شائع کرتاہے۔سالنامہ کا اکیسواں شمارہ ’’خلفائے خاندان برکات
‘‘پر مشتمل ہے۔جس میں خلفائے شمس مارہرہ،خلفائے خاتم الاکابر،خلفائے سرکار
نور،خلفائے مجددبرکاتیت،خلفائے تاج العلماء خلفائے سیدالعلما،خلفائے احسن
العلما،خلفائے وارث پنجتن،خلفائے سید ملت ،خلفائے امین ملت اور خلفائے رفیق
ملت کے تذکرے شامل ہیں۔خلفائے سید ملت کے باب میںحضور امیر سنّی دعوت
اسلامی کے افکار وتعلیمات کے حوالے مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی صاحب رقم
طراز ہیں:
’’ مولانا محمد شاکر نوری اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتے ہیں جو امت
مسلمہ کی زبوں حالی ، تحصیل علوم کے تئیں ان کی عدم دلچسپی اور دین سے دوری
کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے ،ان کی خواہش ہے کہ سنی دعوت اسلامی کی
خدمات کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ ہماری نوجوان نسل دین سیکھنے پر آمادہ ،
اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے ۔ ان کے افکار میں دینی
روشنی موجود ہو ، ان کے کردار وعمل سے اسلام کی کرنیں پھوٹیں ، وہ دینی
وعلمی اعتبار سے پختہ کار ہوجائیں ۔اور سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ انھیں سچا
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہو جائے ۔ ’’ زمیں کے اوپر کام ، زمیں کے
نیچے آرام ‘‘، اور’’ اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ‘‘ نوجوان علما کا
مطمح نظر ہو ، ان میں دعوتی مزاج پیدا کیا جائے ، انھیں سیاسی شعور عطا کیا
جائے ، دور حاضر کے چیلنجز کا ادراک ہو ، جائز حدود میں رہتے ہوئے ماڈرن
ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے ، دینی وعصری تعلیم کا پختہ انتظام ہو اور
تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم تربیت کا بھی انتظام ہو ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا
ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے حضور مفکر اسلام دام ظلہ سے عرض کیا کہ اختلافات
کی ناگفتہ بہ پوزیشن میں دین کا کام کیسے کیا جائے ؟ تو بڑی پیاری بات
انھوں نے ارشاد فرمائی ، کہاکہ’’تم اپنے حصے کی شمع جلاتے جاؤ ۔ ‘‘ یعنی
کسی کی فکر کیے بغیر جتنا کام تم کر سکتے ہو اتنا ضرور کرو ۔ ‘‘ (اہل سنت
کی آواز،۲۰۱۴ئ،ص۴۴۳)
انتہائی قلیل عرصے میں اپنے مخلصانہ دعوتی رویوں سے مولاناشاکر علی نوری
صاحب نے عالمی سطح پر اصلاح فکر واعتقاد کا جو کار خیر انجام دیاہے اس
کویوں توسیکڑوں افرادمسلسل سراہتے رہتے ہیں۔ہم نے اپنے اس مختصر سے مضمون
میں اہل سنّت وجماعت کے ممتازاور جیداکابرعلماوقلم کار حضرات کے تأثرات
کوجمع کرنے کی کوشش کی ہے۔انشأ اللہ اس مضمون کی اگلی قسطوں میں دیگر
علمائے کرام کے ملفوظات قلم بند کیے جائینگے۔ تاکہ اس امر کاواضح طور پر
اظہار ہوسکے کہ خلوص وللہیت سے کام کرنے والے داعی دین مولاناشاکرعلی نوری
صاحب کو ہمارے یہ علماکیسی عزت بخشتے ہیںاور ساتھ ہی سنّی دعوت اسلامی جیسی
تحریک کو تحسینی نظروں سے دیکھتے ہیں۔سچ ہے کہ مولاناشاکر علی نوری صاحب کے
اچھوتے ،منفرد اور دل نشین طرز خطابت سے نہ جانے کتنے گم گشتہ راہ افراد نے
راہِ ہدایت پائی۔اللہ کریم جل جلالہ ،رسول کریم ﷺکے صدقہ وطفیل آپ کا
سایۂ عاطفت تادیر قائم رکھے۔ |
|