کیا عمران خان اپنے ووٹ بچا پائینگے
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
آپریشن’’ ضرب عضب‘‘ کا آغاز تو
سانحہ پشاور سے پہلے ہی ہو چکا تھا ۔ لیکن اس آپریشن میں سیاسی قیادت شریک
نہیں تھی ۔ سیاسی قیادت نے دہشتگردوں کو اپنا دشمن اس وقت جانا جب ان شیطان
صفت انسانوں کی جانب سے ایسی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس کا احاطہ الفاظ
میں ممکن نہیں، ڈیڑھ سو کے قریب نو نہالوں اور قوم کے معماروں کو خون کے
دریا میں نہلا دیا۔ اس واقعے کے بعد سیاسی قیادت میں جو اتحاد نظر آیا اس
کو دیکھ کر لگا جیسے قوم کے یہ رہنمااپنے اتحاد کیلئے ان معصوموں کے خون کے
بہنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور اب جب یہ کام ہو گیا ہے تو انہیں بھی اب
اس اتحاد کا مظاہرہ کر ہی دینا چاہیے ۔ اس واقعے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا
کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آئی ۔ لیکن افسوس کہ جونہی سینیٹ
کے الیکشن کا ماحول گرم ہو ا تو یہی رہنما اپنی اپنی بولیا ں بولتے نظر
آنے لگے ۔ وہی انتشار ، وہی افراتفری ، وہی اختلاف اور وہی ووٹوں کی خرید
و فروخت ۔ منظر پھر سے پہلے جیسا ہے کہ فوج دہشتگردوں کیخلاف جنگ لڑ رہی ہے
تو سیاستدان اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں اور اس جنگ میں وہ بھی برابر کے
شریک ہیں جنہوں نے 21ویں ترمیم کو سپورٹ کرنے سے اس لیے راہ فرار اختیار کی
کہ اس میں دینی مدارس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ ووٹو ں کی خرید و فروخت میں
ان کا دامن بھی اسی طرح رنگا ہوا ہے جیسے کسی دوسرے کا بلکہ اس وقت تو وہ
دوسروں سے بھی کچھ آگے ہی نظر آرہے ہیں ۔ ایک طرف شراکت اقتدار تو دوسری
طرف سینیٹ الیکشن کیلئے اپوزیشن کے ساتھ گٹھ جوڑ،سیاسی انتشار کو بڑھانے کا
باعث تو قرار دیا جا سکتا ہے سیاسی استحکام پیدا کرنے کا نہیں ۔ ایسے میں
جب ارباب سیاست کی توجہ اقتدار کے کھیل نمٹانے پر مرکوز ہو تو دیگر امور
نظر اندازہو ئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ایسے میں پاک انسٹیٹیوٹ فار کا نفلیکٹ
اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے نام سے اسلام آباد میں قائم ایک تھینک ٹینک کی یہ
رپورٹ توجہ طلب ہے جس میں رواں سال کے پہلے ہی دو ماہ کے دوران رونما
ہونیوالے دہشتگردی ، بدامنی اور تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار بیان کرتے
ہوئے انہیں تشویشناک قرار دیا گیاہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران
آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے باعث ایک طرف فا ٹا اور خیبر پختونخو ا میں ریاست
مخالف تشدد میں کمی واقعہ ہوئی لیکن دوسری جانب سندھ ، بلوچستان اوربلخصوص
پنجاب میں جنگجو حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔رپورٹ میں فرقہ وارانہ
تشدد میں زبردست تیزی بیان کی گئی ہے اور کہا گیا کہ اس عرصے میں ملک میں5
واقعات ہوئے ۔ ان 5 میں سے 4 حملے امام بارگاہوں پر ہوئے جنہیں خود کش
حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ۔ دوسری جانب صرف فروری کے مہینے میں ٹارگٹ
کلنگ کے واقعات میں اہلسنت والجماعت کے 4 رہنمائوں کو شہید کر دیا گیا ۔اسی
مہینے کے دوران دہشتگردوں کے 82حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 112افراد جاں
بحق اور 204زخمی ہوئے ان میں 55عام شہری بھی شامل تھے ۔یہی نہیں بلکہ ان
واقعات میں سکیورٹی فورسزکے 21اہلکار بھی جام شہادت نوش کر گئے ۔کیا اس
صورتحال کو بہتری کی جانب گامزن قرار دیا جا سکتا ہے تو اس کا جواب ہو گا
یقینا نہیں۔ دہشتگردی اور دہشتگردوں کیخلاف جاری غیر معمولی فوجی آپریشن
اور اسی کیساتھ ساتھ سیاسی سطح پر اپنائے جانیوالے قومی ایکشن پلان کے
باوجود دہشتگردوں کی یہ کارروائیاں لمحہ فکریہ ہیں اور اس بات کا احساس دلا
رہی ہیں کہ یہ جنگ اس قدر جلدی ختم ہونے والی نہیں بلکہ اس کیلئے ابھی بہت
کچھ کرنا با قی ہے ۔ سیاسی محاذ پر جاری سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ
لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں اور اس
کیلئے وہ ہر جائز و نا جائز کرنے کو تیار ہیں ۔ ملک کے انتخابی نظام کو
دھاندلی سے پاک کرنے کیلئے حکومت نے تحریک انصاف کے جوڈیشل کمیشن کے قیام
کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی
سینیٹ کے الیکشن کو دھاندلی سے پاک کرنے کی وزیر اعظم کی تجویزکو ہوا میں
اڑا دیا ۔ جب ملک میں اس طرح کے کھیل کھیلے جا رہے ہوں تو دہشتگردی کیخلاف
جنگ میں یکسوئی کیسے پیدا ہو گی؟ اس کیلئے تو سب کو مل کر یہ سوچنا ہو گا
کہ یہ جنگ صرف حکومت وقت کی نہیںبلکہ اس ملک میں بسنے والے ہر فرد کی ہے ۔
لیکن یہاں اور تو اور خود حکومت میں بھی اس حوالے سے یکسوئی نہیں جبھی تو
ملک میں اس وقت یہ تاثر موجود ہے کہ جیسے دہشتگردوں سے نمٹنے کا کام صرف
اور صرف فوج نے اپنے کاندھوں پر لے رکھا ہے اور حکومت کیلئے اس وقت سب سے
زیادہ اہم کام سینیٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کرنا ہے ۔ آج سینیٹ
آدھی خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن ہونے جا رہا ہے شام تک دودھ کا دودھ
اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور قوم یہ بات جان سکے گی کہ کون کون سے
سوداگر ارکان اسمبلی کے ضمیر خریدنے میں کامیاب رہے ۔ اس وقت سب سے زیادہ
دبائو تحریک انصاف کے سربراہ پر ہے ،مخالفین ان پر بھی ٹکٹ دینے کیلئے
15کروڑ لینے کا الزام لگا رہے ہیں ۔ یہ الزام ان پر جوابی کارروائی کیلئے
ہر وقت تیار رہنے والے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کی جانب سے لگایا
گیا ہے جس کے جواب میں خان صاحب نے یہ کہہ کر کہ رقم کی پیشکش کرنے والے کا
نام نہیں بتائوں گا دال میں کالے کاجواز پیدا کرنے کے علاوہ پرویز رشید کو
مزید الزام لگانے کا موقع فراہم کر دیا ہے اگران کی جانب سے مناسب وضاحت
پیش نہ کی گئی تو مزید شکوک و شبہات جنم لیں گے ، ووٹوں کی سب سے زیادہ
فروخت کا خطرہ بھی تحریک انصاف کو ہے جس طر ح کمزور دل حضرات کیلئے دل کا
زیادہ بڑا جھٹکا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے تو اسی طرح کمزور ضمیر حضرات
کیلئے کروڑوں کی بولی ضمیر لیوا ثابت ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے
کہ کون کون سے وہ باضمیر لوگ ہیں جو اس جھٹکے کو برداشت کر لیں گے ۔ یہ
الیکشن تحریک انصاف کیلئے الیکشن 2013ء سے بڑا امتحان ہے جس میں ایک طرف پی
ٹی آئی کے مد مقابل پیسہ ہے تو دوسری جانب آصف زرداری ، نواز شریف اور
مولانا فضل الرحمن جیسے بڑے بڑے سیاستدان ۔ اگر پی ٹی آئی ان کو شکست دیتے
ہوئے اپنی تمام سیٹیں بچا گئی تو یہ عمران خان کے روشن مستقبل کیلئے ایک
بڑی دلیل ہو گی ۔ ورنہ عمران خان ووٹوں کی فروخت کی صورت میں صوبائی اسمبلی
توڑنے کی دھمکی تو دے ہی چکے ہیں۔ |
|