مولانا نذیراللہ خان' ایک عہد ساز شخصیت

 برادرم محترم مولانا نذیراللہ خان صاحب مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک مکمل تحریک تھے۔زیرک' معاملہ فہم'مہم جو، علاقے کے معاملات پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ملکی امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ قومی اخبارات میں روزنامہ ''نوائے وقت '' کو بالاستیعاب پڑھنے کا معمو ل رکھتے تھے۔یہ مولانا مرحوم کی نظریہ پاکستان سے عقیدت کا مظہر تھا' کیونکہ روزنامہ نوائے وقت نظریہ پاکستان کا سب بڑا حامی اخبار سمجھا جاتا ہے۔گلگت کی مقامی انتظامیہ' پولیس' فوجی اداروں اور اعلیٰ ملکی اداروں سے لے کر ملک کے سربراہوں تک سے روابط وبے تکلف تعلقات رکھتے تھے اور انہی صاحب اقتدار لوگوں سے دینی و سماجی خدمات لینا مولانا کا خاص خاصہ تھا'اور ان کی خدمت و ضیافت اور تواضع خاطر کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔گلگت کے مخصوص کشیدہ حالات میں مرحوم کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ ہر حال میںا من و آمان قائم ہو' اس کے لیے صرف فکرمندنہیں رہتے بلکہ آپ کے ان خدمات کا اعتراف حکومتی احباب سے لے تمام مکاتب فکر کے لوگ او ر زعماء بھی کرتے ہیں۔اگر آپ کے علم میں یہ بات آئے کہ بدآمنی میں کسی کی واضح غلطی ہے تو آپ اس کو معاف بھی نہیں کرتے تھے۔خوش پوش اور اعلیٰ درجے کی قراقلی پہنتے تھے۔شادی بیاہ اور عام مجالس اور محفلوں میں آپ کی ایک امتیازی شان ہواکرتی تھی۔راقم الحروف نے جب آنکھ کھولی توآپ کے ساتھ ایک بھائی کی طرح واسطہ پڑا۔ آبا جان مرحوم کی شاگردی سے لے کر فراغت کے بعدمرحوم سے ہماری بڑی بہن کا رشتہ ہوا یوں وہ ہمارے گھرانے کے ایک بزرگ فرد تھے ۔

امی جان فرمایا کرتی تھیں کہ میری (نثاراحمد)پیدائش کی اطلاع ہوتے ہی وہ ہمارے گھر آئے اور سب سے پہلے اپنی بندوق سے فائر کی' یہ فائر خوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس دور میں یہ ایک معمول تھا۔ نرینہ اولاد کی پیدائش پر فائر کرکے اطلاع کی جاتی تھی' رشتہ دار اور ہمسایہ سمجھتے تھے کہ جس کے گھر میں فائر نگ ہورہی ہے وہاں کوئی نرینہ اولاد پیدا ہوئی ہے۔اتنے میں ماموں جان اور مولانا عزیرالرحمان بھی پہنچے اور اپنی اپنی بندوقوں سے فائرنگ اور بھر پور خوشی کا اظہا رکیا ۔

ساتویں روز سارے احباب جمع ہوئے۔ چونکہ آبا جان سفر ِحج پر تھے،جب نام رکھنے کی بات آئی تو یہ بات سامنے آئی کہ اباجان ایک پرچے پر بیٹا اور بیٹی کی پیدائش پر دونوں کے لیے الگ الگ نام تجویز کرکے لکھ کر گئے تھے۔مولانا مرحوم نے جب پرچی اٹھا کر دیکھا اور کہنے لگے کہ میرا بھی یہی اندازہ تھا کہ حضرت ضرور نام تجویز کرکے گئے ہونگے۔

اباجان فرماتے تھے کہ جب مولانا نذیراللہ دیوبند سے تعلیمی فراغت کے بعد گلگت آئے تو میں نے ان کا امتحان لیا،تب اندازہ ہوا کہ مولانا اچھی استعداداور قابلیت کے حامل تھے خصوصا فلسفہ اور منطق میں خوب مہارت تھی۔ابتداء مولانا اباجان کے ساتھ تدریس میں مصروف رہتے تھے۔ مولانا لطیف الرحمان صاحب مہتمم ضیاء العلوم بیگم پورہ لاہور والے فرماتے ہیں کہ'' میں نے محلے کی مسجد میں مولانا کو دیکھا کہ ایک طالبعلم کو ہدایہ پڑھاتے تھے' جب میں بھی مولانا کے گھر میں رہتا تھا۔ میں چھٹیوں پر آیا ہواتھا'مولانا نے رات کو مطالعہ بھی نہیں کیا تھا باوجودا س کے بہت ہی بہتر طریقے سے پڑھارہے تھے اور پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بڑا دلربا تھا''۔

مولانا نذیراللہ خان مرحوم فرماتے تھے''ہمیں حضرت قاضی صاحب(میرے والد ماجد) نے صرف ونحو مضبوط بنیادوں پر پڑھایا تھا بلکہ رٹوایا تھا' جس کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں بھی ہمیں امتیازی حیثیت ملی تھی،حضرت قاضی صاحب کی سختی نے ہمیں انسان اور علم دوست بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ مولانا مرحوم ساری زندگی اباجان رحمہ اللہ کے ساتھ عاشقانہ، والہانہ اور جذباتی حد تک احترام و محبت کا تعلق رکھتے تھے۔

مولانا مرحوم گلگت کے مخصوص حالات کی وجہ سے تجارت سے منسلک ہوئے'ساتھ ساتھ مقامی سیاست سے بھی وابستہ ہوئے۔F.C.R(ایف سی آر)کے دور میں سرکاری جرگوں میںجانا'دیگر عوامی معاملات کی تصفیہ کرنا اور B.D کی ممبر شب اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے علمی و تدریسی مشغلہ میں تعطل آگیا۔ آپ تجارت میں کامیاب ہوئے اور گلگت کے بڑے تجار میں شمار ہونے لگے۔ اس حوالے سے اس دور کے معتبر اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست 'سرکاری و سماجی اور خدمت خلق میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ اس حوالے سے ایک خاص ٹیم تھی جن میںمنشی عبدالجبار، سلطان محمدکیڑو،جناب ٹھیکیدار کاکا صاحب'جناب شمشادعلی اورجناب حوالدار عبدالحکیموغیرہ- رحمہم اللہ -گلگت میں بڑے فعال اور سماجی خدمات میں شہرت رکھتے تھے۔

جب 1972ء کو تنظیم اہل سنت والجماعت کی بنیاد ڈالی گئی تو مولانا مرحوم بھی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور اہل سنت کے لئے وسیع پیمانے پر خدمات انجام دیں۔گلگت کے مشہور بازار ،راجہ بازار میں مولانا کی دو کان تھی جوگلگت کے سیاسی و مذہبی معاملات کے حوالے سے ایک مرکز ہوا کرتی تھی۔ وہاں شہر کے معززین اور سرکاری آفیسران کا آنا جانا ہوتا تھا۔سائلوں اور حاجت مندوں کا تانتا بندھتا تھا' لوگ مولانا کے پاس ہر قسم کے مسائل لے کر آجایا کرتے تھے۔ ان لوگوں میں تمام مسالک کے لوگ ہوتے تھے اور مولانا بلاتفریق مسلک و مذہب تما م لوگوں کے مسائل سنتے اور ارباب حکومت سے رابطے کرتے ' کبھی خود چل کر مختلف دفاتر میں جاتے اور لوگوں کے مسائل حل کرواتے۔ لوگوں کی دعوتیں بھی بڑی اہتمام سے کرتے تھے اور گویا یہ آپ کا معمول بن چکا تھا 'طبیعت کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ مولانا کے چونکہ ایڈمنسٹریشن کے ساتھ قریبی تعلقات تھے تو آپ ان کی حمایت اور اطاعت کی وجہ سے ابا جان مرحوم کی ناراضگی بھی مول لیتے تھے۔ مگر بہت جلد ہی آباجان کو راضی کرکے دم لیتے۔یہ مرحوم کی ایک نرالی صفت تھی ،جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔

میں مرحوم کے ظرفِ سینہ کا اس طرح بھی معترف ہوںکہ ہمارے اباجان جان حضور سخت گیر اور خوب گرفت رکھنے والے تھے اور والد صاحب کی سخت کلامی کو مولانا مرحوم بخوشی سہتے ہی نہیں بلکہ اباجان کو ایک والد کا احترام دینے کے ساتھ ساتھ ایک صالح تلمیذ کی طرح خدمت بھی کرتے تھے۔ مزاج کے فرق کے باوجود ان دونوں بزرگوں کا تعلق دیدنی تھا۔ اباجان کے پاس کوئی اچھی شئی آجائے تو آپ مولانا کو پیش کرتے اور اگر گھر میں کوئی اچھا اور لذیذ کھا ناپکتاتھا تو اباجان ان کو بلواتے اور اپنے اکثر امور میں ان سے مشاورت بھی کرتے تھے۔بعض اوقات ہم نے اباجان سے سنا کہ میرے تین بیٹے ہیں' یعنی مولانا نذیراللہ بھی میرا بیٹا ہے ۔گو ہمارے چھ بہنویوں میں سب بھائی کی طرح ہیں مگر آپ کے ساتھ تعلق خصوصی تھا اور تمام بہنویوں میں سب سے بڑے بھی تھے۔

1983ء کو آپ کی دکان ایک سازش کے تحت جلائی گئی اس کی وجہ بھی گلگت کی مذہبی کشیدگی تھی۔ ایک ڈپٹی کمشنربدرالاسلام نے موجودہ متنازعہ روڈ پرتحریر دی تھی کہ اس سال ماتمی جلوس پرآمن گزارا جائے آئندہ کے لیے روڈ تبدیل کردیا جائے گا۔ محرم گذرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر اپنے وعدہ اور تحریرسے مکر رہا تھا اور ڈی سی کے خیال میں یہ تحریر آپ کے دکان میں تھی مگر یہ تحریر اب بھی مولانا لقمان حکیم صاحب کے پاس محفوظ ہے۔ جب آپ ایف آئی آر درج کروانے تھانہ گئے تو ڈپٹی کمشنربدرالاسلام موجود تھا ۔ آپ سے سلام کے بعد ایف آئی آر درج کروانے کو کہا تو مولانا مرحوم نے انہیں کہا کہ آپ میرے مجرم ہیں۔ تم نے ہی میرے دکان میں آگ لگوایا ہے مجھے اس بات کا مکمل یقین ہے۔یہ بھی مولانامرحوم کی خصوصیات میں تھی کہ آپ سرکاری آفیسروں کا بڑا خیال رکھتے اور جب ان پر برستے تو خوب برستے 'ان کے اس نرالے انداز سے ان کے مردآزاد ہونے کا خوب اندازہ ہوجاتاہے۔

اس دکا ن کا جلنا آ پ کے لیے اتنی راست آئی' وقتی طور پر کشمیری بازار میں اسلحہ کی دوکان کھولا، راجہ بازار کی دوکان حاصل کرنے کے بعد کرایہ پر دے دیا۔ 1984ء کو دارالعلوم نصرة الاسلام کا باقاعدہ اجراء کا فیصلہ ہوا۔ اس کی مشاورت سونیکوٹ میں دریا کے کنارے ہوئی۔ راقم الحروف گھر سے فروٹ اور چائے لے کر برلب دریا مجلس مشاورت میں لے گیا تھا۔ اس مجلس میں اباجان ، جناب مولانا نذیراللہ خان ، جناب مولانا گل شیر خان ، جناب مولانا لقمان حکیم صاحب تھے۔مولانا نذیراللہ خان کو اباجان نے اہتمام کی ذمہ داری سونپ دی۔ اورفوری ضروریات کے لیے اباجان نے فرمایاکہ جناب حبیب اللہ میر صاحب سے تعاون لو یا قرض لو، چنانچہ میر صاحب نے پانچ ہزار روپے عنایت فرمائے۔جناب مولانا نذیراللہ خان صاحب جامعہ نصرة الاسلام کی میٹنگوں اور جلسوں میں ان پانچ ہزار روپیوں کا اکثر وبیشتر ذکر کیا کرتے تھے۔چنانچہ آہستہ آہستہ مدرسہ کی خدمت میں اتنے مشغول ہوئے کہ مدرسہ کے ہی ہوکر رہ گئے۔اکثر فرمایاکرتے تھے کہ میری موت بھی مدرسے میں آئے۔

راقم الحروف کو B.A(بی اے) کے بعد دینی تعلیم بالخصوص درس نظامی کی تکمیل کے لیے کسی دینی ادارے میں جانے کے حوالے سے اصرار کرنے والوں میں مولانا مرحوم پیش پیش تھے۔ ان دنوں صدیقی ٹرسٹ کراچی والوں سے بھی حاجی سمیع اللہ صاحب کے توسط سے اباجان کا تعلق قائم ہوگیا تھا جنہوں نے جامعہ نصرة الاسلام کی بہترین خدمات انجام دیں ۔اللہ تعالیٰ جناب الحاج منصورالزمان صدیقی اور آپ کے تمام رفقاء و معاونین کودوجہانوں میں جزائے خیر سے نوازے۔نصرة الاسلام کی تعمیرات' طلباء کے اخراجات' گلگت کے مضافات میں مساجد کی تعمیر' جامعہ اسلامیہ داریل کی تعمیر'مساجد و مدارس کے چادریں اور دریاں فراہم کرنا'موسم سرما میںگرم کمبل اور کوٹ ٹرکوں میں بھر بھر کر ارسال کر نا یہ وہ خدمات تھی جو صدیقی ٹرسٹ والوں نے گلگت بلتستان میں انجام دیں اور مولانا نذیراللہ خان صاحب بنفس نفیس ان تمام اشیاء کو خود تقسیم فرماتے' نگرانی فرماتے ' دور دراز کے علاقوں میں جاکر مستحق اور غریبوں میں بانٹتے۔اس حوالے سے مولاناکو اکثر کراچی آنا ہوتاتوراقم الحروف کے پاس علامہ بنوری ٹاؤن میں رہتے۔جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤں کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ مولانا کا تعارف ہو اکہ آپ حضرت مولانا یوسف بنوری کے ابتدائی تلامذہ میں سے ایک ہیں تو بنوری ٹاؤن کے اساتذہ اور طلبہ آپ کا نہایت احترام اور خدمت کرتے۔برادرم مولانا منیر احمد صاحب تو مولانا کا بیگ لے تادم واپسی' آپ کی معیت میں ہوتے اور خدمت کے فرائض انجام دیتے۔زمانہ طالبعلمی کے دوران مولانا مرحوم نے میرے نام جو خطوط لکھے و ہ محفوظ ہیں۔مولانا جناب منصورالزمان صدیقی صاحب کا بے حد احترام کرتے اور ہر مجلس میں ان کا ذکر کرنا نہ بھولتے۔

1991ء میںجامعہ نصرة الاسلام کے پہاڑیوں پر چراغاں کرنے پر ایک تنازعہ کھڑاہوا۔ وہاں کچھ فسادات ہوئے۔انتظامیہ نے فسادات کرنے والے اور چراغاں کرنے والوں کو کچھ کہنے یا انہیں روکنے کے بجائے جامعہ نصرة الاسلام کے ذمہ داروں کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کو گرفتار کیا۔انتظامیہ نے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے ضعیف العمر علماء ' مولانا نذیراللہ خان ' مولانا لقمان حکییم' حاجی محمدعظیم صاحب داریل والے اور دیگر کئی بے گناہ افرادو طلبہ کو گرفتار کرکے قیدوسلاسل میںڈال دیا یوں ان بزرگوں نے سنت یوسفی کو زندہ کرتے ہوئے چھ ماہ کی اسارت کو کاٹ کر باعزت رہا ہوئے۔

مولانا مرحوم اور دیگر علماء کرام و طلباء کی رہائی کے لیے ہم تمام اہلسنت نے بے حد کوششیں کی ہیں اور دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ راقم الحروف کی طالبعلمی کا زمانہ تھا' سالانہ تعطیلات میں گلگت آیا ہوا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ راولپنڈی یااسلام آباد سے کسی نامور وکیل کو کیس کی پیروی کرنے کے لیے بلایا جائے، اس کارخیر کے لیے راولپنڈی کاسفر ہوا۔ اس سفرمیں جناب حاجی شاہین مرحوم جو ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد کے والد صاحب ہیں،(خود جمیل صاحب بھی گرفتار تھے) جناب عبدالقادرسابق جیلر کی معیت میں ناچیز کا سفر ہوا۔ وہاں پر مولانا چراغ الدین صاحب راولپنڈی والے کے توسط سے جناب رب نواز صاحب کو وکیل مقرر کیا اور جناب برادرمحمود غزوی کے توسط سے ریٹائرڈ جسٹس عبدالحکیم کو وکیل مقررکیا گیا۔ ان وکلاء صاحبان نے نہایت عمدہ طریقے سے اس کیس کی پیروی کی۔ساری قوم اس موقع پر بیدار تھی۔ محترم شاہین صاحب اور محترم عبدالقادر سابق جیلر صاحب کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ دوران گرفتاری تمام ساتھیوں سمیت مولانا نذیراللہ خان مرحوم صاحب کا حوصلہ دیدنی تھا۔ جامعہ نصرة الاسلام کی نگرانی' طلبہ کی تعلیم و تربیت اور قیام وطعام کی فکر کے علاوہ مولانا مرحوم نہایت استقامت و بہادری کے ساتھ جیل میں رہے۔ایام اسیری مین ہمیشہ خوش و خرم اور توانا نظر آرہے تھے۔

عیدگاہ بم سازش میں مولانا مرحوم نے تمام ملزمان کے ناموں کے ساتھ ایف آئی آر درج کرائی، ملزمان کی گرفتاریوں کے حوالے سے جرات مندی کا مظاہرہ کیا ، جس پر اس وقت کے ریذیڈنٹ جناب عنایت اللہ صاحب نے گرفتاریاں عمل میں لائی اور حکومت کی رٹ کابھرپور عملی مظاہر ہ کیا۔

تقریباً1996ء کی بات ہے۔ ہمسایہ ملک چین سے کچھ طلباء دینی علوم کی تحصیل کے لیے جامعہ میں پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ مرحوم ان کی خدمت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ انہیں رہائش کے لیے الگ کمرہ بھی دیا ہوا تھا۔ مگر بدقسمتی سیفاروق لغاری صاحب کے دورہ چائنہ کے دوران چائنہ حکومت نے ان طلباء پر سخت احتجاج کیا۔چنانچہ صدارتی حکم کی تعمیل کرکے راتوں رات ان طلبہ کو گرفتار کرکے چائنہ کے حوالہ کردیا گیا۔ یہ ساری کاروائی رات کو اچانک پولیس کے چھاپے سے ہوئی۔ اس وقت کے آئی جی جناب خورشید عالم صاحب نے نہایت افسوس کا اظہار کیا۔اگلے دن تنظیم اہل سنت کی طرف سے اتحاد چوک میں شدید احتجاج بھی ہوا۔یوں طالبان علوم نبوت تحصیل علوم نبوی کی تکمیل سے رہ گئے۔ اللہ رب العزت کے خصوصی کرم ہوا کہ چائنہ میں کچھ عرصے بعد ان بے گناہ طلبہ کو رہائی بھی ملی۔ جناب جاوید پراچہ صاحب کی توسط سے قومی اسمبلی میں اس امرغیر شرعی پر آواز اٹھا یا گیا۔ مولانامرحوم کو اس کا شدید دکھ ہوا۔اس معاملے میں مولانا بے قصور تھے۔ ان حالات پرمولانا کے بعض اپنوں کی تحریریں (جوملک کے بڑے دینی جرائد میں چھپ چکی تھی) مرحوم نہایت ناراض اور شاکی رہتے تھے ۔ تفصیلات کایہ موقع نہیں۔

مولانا مرحوم حکومت اور سنی عوام کے درمیان پل کی حیثیت رکھتے تھے۔بیوروکریسی کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات تھے۔ سرکاری احبا ب کو دعوتوں کا اہتما م تو ان کا مشغلہ خاص تھا۔ ان سے کام لینا بھی اچھی طرح جانتے تھے بلکہ کام لیتے تھے۔ ان کی حمایت میںکبھی کبھار راقم کو جلال بھی دکھاتے تھے۔اور بعض اوقات مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ تم گرم تار ہواور میں ٹھنڈی تار۔اگر ان میں سے ایک تار کی بھی موجودگی نہ ہو یا کنکشن کٹ جائے تو بجلی ندارد۔ اس لحاظ سے کام بہتر ہورہا ہے۔اپنی جگہ گرمی سردی دونوں کی ضرورت ہے۔

مولانا مرحوم تنظیم اہل سنت و الجماعت کو دل سے چاہتے تھے اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بھی مکمل احترام دیتے تھے ۔نرم مزاج ہونے کے باوجود اصولوں کے حوالے سے سخت گیر واقع ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے مخالفین بھی آپ کی قدر کرتے تھے اور تمام طبقات میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔مولانامرحوم کی سادگی طبع کی وجہ سے بعض اوقات مخصوص سیاسی طبقات اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آپ سے فائدہ بھی اٹھا رہے تھے بلکہ مولانا کو غلط پٹیاں پڑا کر غیرضروری کام کرتے اورلیتے، ساتھ ہی مولانا کی سرپرستی کا حوالے دیتے۔مرحوم پولیس کے بھی نگران ہوا کرتے۔ ایک دفعہ آئی جی سے ملاقات کرکے آئے ، تو ہمیں بتایا کہ جب میں وہاں گیا تو آئی جی تمام اضلاع کے ایس پی صاحبان کو لے کر میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے۔مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہوئے اور اپنے ایس پیز کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا آئی جی ہوں اور یہ حضرت میرے آئی جی ہیں۔

اس طرح بعض اوقات آپ سے قوم شکایات بھی کرتی تھی مگر جلد اپنے نیک اعمال اور دینی خدمات سے ان شکایات کا بھرپور ازالہ بھی کرتے، اس طرح مولانا مرحوم کے ساتھ کبھی شکرنجی ہوتی رہتی اور پھر وہ ختم بھی ہوجاتی۔کیونکہ مرحوم میں معاف کرنے کی صلاحیت بہت تھی ۔

اپنے اعزہ کے معاملے میں کافی زیادہ حمایت کا جذبہ رکھتے تھے۔قرابت داروں اور تعلق داروں کی خوشی و غمی میں برابرکے شریک ہوتے۔ عیدین میں بچوں کو عیدی انتہائی شوق سے دیتے۔ جامعہ نصرة الاسلام کے ساتھ تاحیات ایسی وابستگی رہی کہ شاید ہی کوئی مہتمم مولاناکی طرح نرالی صفات کا حامل ہو۔انتقال کے وقت جامعہ ان کا ذاتی طور سے آٹھ لاکھ کا مقروض تھا جو اداکردیا گیا۔اپنی ذاتی جائیداد (مکہ مارکیٹ گلگت) سے پانچ دکانیں جامعہ کے لیے وقف فرمایااور اپنا ذاتی رہائشی مکان بھی مدرسة البنات کے لیے وقف فرمایا۔اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ ایک ٹرسٹ کے ذریعے وقف فی سبیل اللہ کیا۔ٹرسٹ کے اراکین اپنے دامادوں کو مقرر کیا اور مولانا عتیق الرحمان لاہور والے داماد کو ٹرسٹ کا چیئرمین مقرر کردیا اور دیگر جائیداد اپنی صاحبزادیوں میں برابر تقسیم کیا۔ یوں مولانا اپنی آخرت کا ذخیرہ کرگئے۔البتہ مولانانے اپنی جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیا بلکہ اسٹام تحریر کرکے پھر اسے اٹسٹ(تصدیق) کرواکے مجھے دکھایا۔اپنی جائیداد میں سے ایک دکان محلے کی مسجد کو وقف کردیا۔

حضرت والا نے بیسویں حج اور عمرے کیے، بیت اللہ سے ان کو بلاوا آتا ہے جو اللہ کے مقرب ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ آپ نے قومی حج کانفرنسوں میں وفاق میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کی۔ خدام الحجاج میں بھی خدمات انجام دیں

قائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان جب 1994ء میں گلگت تشریف لائے تھے ۔ حضرت مرحوم سے ملاقات اور سلام عرض کرنے کے لیے جامعہ حاضر ہوئے تھے۔ جناب مفتی جمیل صاحب شہید اقرا روضة الاطفال کے حوالے سے جب بھی آتے تو باقاعدگی سے آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے۔1999 میں جب شیخ محترم حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید گلگت تشریف لائے تھے۔ حضرت کے ساتھ ایک قافلہ تھا۔ نلترگئے ، رات گزارنے کی ساتھیوں نے خواہش ظاہر کی اور ادھر مولانا نذیراللہ خان صاحب نے مدعو کیا تھا، حضرت لدھیانوی نے فرمایا کہ رات کو ڈنڈے والے پیر صاحب کی دعوت ہے اس لیے یہاں رہنا مشکل ہوگا۔ اس طرح آپ اکابر کے ساتھ بے تکلف اور محبت بھر ا تعلق رکھتے تھے۔ مولانا مرحوم نے گلگت بلتستان میں مشقت بھری محنت اور جدوجہد کی ہے جو تاریخ کا ایک انوکھا باب ہے۔سیاست و تجارت کے ساتھ طویل عرصہ وابستہ رہنے کے باوجود دیوبندکے جذبات اور فکر سے حد درجہ لگاؤ رکھتے۔ ماشاء اللہ
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

راقم کا حضرت کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے، بعض اوقات اپنے گھر کے معاملات میں بھی مشورہ فرما لیا کرتے اور فرماتے کہ گھر والوں کو نہ بتائیں۔ آج یہ عظیم شخصیت ہم میں موجود نہیں ہے، مگر ان کی لازوال خدمات' قربانیاں اور احسانات تاحیات زندہ جاوید رہیں گی۔ مولانا مرحوم کی نرینہ اولاد نہ تھی۔ راقم کے اصرار پر دوسری شادی کرلی مگر اس سے بھی ایک بیٹی ہوئی، مرحوم اس پرہم سے بہت خوش ہوئے تھے۔ہماری بڑی بہن نے بھی برا نہیں مانا بلکہ اچھا برتاؤ کیا ۔ اپنا بیٹا نہ ہونے پر انہیں کبھی غمگین نہ دیکھا۔اللہ تعالیٰ کی رضاو قضاء پر خوش تھے، ہمیشہ مطمئن نظر آتے تھے۔ جون 2010ء کو آپ کے ساتھ لاہور کا ایک سفر ہوا۔یہ سفر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے حوالے سے تھا۔ شوریٰ کی ایک اس اجلاس میں صدر وفاق مولانا سلیم اللہ خان شیخ الحدیث جامعہ فاروقیہ نے ہمیں گلگت سے خصوصی طور پر بلایا تھا ۔مرحو م کے ساتھ یہ سفر بہت ہی خوشگوار ہوا۔ لاہور میں خواہش ظاہر کی کہ پرانے تجارتی دور کے احباب سے ملاقات کی جائے۔ یوں انارکلی مارکیٹ لاہور گئے ، دوستوں سے ملے۔واپسی پر مولانا اکثراپنی ضعف کا تذکرہ کرتے۔

مولانامرحوم نے اباجان کی وفات کے بعد گلگت کے کشیدہ حالات کو عمدہ طریقے سے نبھایا۔جامعہ نصرة الاسلام کی ذمہ داریوں کے ساتھ1988ء تک تنظیم اہل سنت کے مرکزی نائب امیر بھی رہے۔جامعہ کی معاونت کے لیے ہروقت اور ہر ایک سے رابطے میں رہتے۔ملک اور بیرون ملک کے اسفارکیے۔مولانا مرحوم کے حکم پرراقم بھی کراچی کا سفر کرتا رہا،بالآخر حضرت کے حکم پر یہ کام چند دوستوں کے سپردکردیا جو کافی اچھے معیار پر جارہا تھا۔یہ احباب ان ذمہ داریوں کو بجا لانے کے بجائے اپنی ذاتی اور علیحدہ مصروفیات میں محنت کرنے لگے جس کا مرحوم کو بڑا قلق تھا، اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

مولانا صاحب مرحوم گلگت بلتستان کی طرف سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔جسے بعد میں مولانا کے اپنوں نے خودساختہ طور پر فارغ کرنے کی کوشش کی تاہم ایسا نہ ہوسکا۔مولانا نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔یہ موضوع بھی کافی تفصیل طلب ہے۔

مرحوم نے جمیعت تعلیم القرآن کو گلگت بلتستان لایا، ان کے اکابر کے ساتھ ہمسایہ ملک چین کاشغرتک تشریف لے گئے، ان خدمات کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ جمیعت تعلیم القرآن کے گلگت کے اولین صدر بھی رہے۔

اباجان مرحوم نے خود ہنزہ علی آباد کا سفر کیا، مسجدقباء کی بنیاد رکھی۔اس کی تعمیرات میں صدیقی ٹرسٹ نے مرکزی کردار ادا کیا۔اباجان کی وفات حسرت آیات کے بعد مولانا مرحوم نے اس مسجد قباء کی تعمیر وترقی اور تزئین و آرائش میں عمدہ کردار ادا کیااور تاحیات اس کی آبادی اور ترقی کی طرف متوجہ رہے۔

جامعہ نصرة الاسلام، تنظیم اہل سنت اور خطے کے تما م طبقات کے لیے یکساں خدمات رہی۔تمام مسالک میں آپ کا بے حد احترام پایا جاتا۔اسماعیلی ریجنل کونسل سے بھی آپ کے قریبی تعلقات تھے۔

مرحوم کی وفات اور اس پر تعزیات کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھتا رہتا تھا، اس سے آپ کی مقبولیت کا خوب اندازہ ہوجاتا تھا۔آپ 21،22 اکتوبر شب جمعہ محتصر علالت کے بعد ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے۔ آپ کی خواہش تھی کہ عیدگاہ کے محراب کے ساتھ سامنے قبلہ کی جانب مدفون ہوں مگرآپ نے اس پر استفتاء بھی مانگا ،تاہم شرعی طور پرمفتی عبدالباری صاحب رئیس الجامعہ نے اس کی اجازت نہیں دی ، جس کی وجہ سے آپ کو آپ کے پیش رواور آپ کے روحانی باپ حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق کے پہلو میں دفنایا گیا۔مرحوم کی خدمات ہمیشہ زندہ وتابندہ رہیںگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
Qazi Nisar Ahmad
About the Author: Qazi Nisar Ahmad Read More Articles by Qazi Nisar Ahmad: 16 Articles with 14790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.