مولانا نذیراللہ خان نمبر پر خصوصی وضاحت

 الحمدللہ! مولانا نذیراللہ خان مرحوم (فاضل دارالعلوم دیوبند)(1930ء تااکتوبر 2010ئ) کی شخصیت'خدمات 'افکارو نظریات پر مبنی' تفصیلی روئیداد پرمشتمل خصوصی شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان میں اس طرح کے خصوصی شماروں کا کبھی بھی اہتمام نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے لیے ذہنی طور پر کوئی تیار ہوتا ہے۔بنا برایں یہ کا م کافی کٹھن تھا مگر اللہ رب العزت کے فضل و کرم ، جامعہ نصرة الاسلام اور رئیس الجامعہ اور اہل قلم کی معاونت اور اپناذاتی ذوق و لگن سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس خصوصی شمارے میں آپ کو گلگت بلتستان کے تمام نامور لوگوں کی تحریریں، مضامین اور کالم پڑھنے کو ملیں گے۔یہ میرا خدا جانتا ہے کہ ان تمام اصحاب قلم سے حضرت مولانامرحوم پر چند صفحات ، میںنے کس مشکل سے لکھوایا ہے۔ہر ایک کی کتنی منتیں کرنی پڑی۔بہتوں کو خطوط لکھے۔ بار ہا ٹیلی فونک رابطہ کیا گیا مگرکوئی مثبت جواب ندارد ۔مجھے حیرت ان لوگوں پر ہوئی جو عمر بھر مولانا کے خوشہ چیں رہے اور مولانا کے وسیع دسترخوان سے شکم پروری کرتے رہے مگر ان کی وفات کے بعدان پر کچھ لکھنے کو کہا گیا تو وہ طرح دے جاتے۔شکایات کرتے۔ ٹال مٹول کرتے۔بلکہ الٹا ہمیں موردِالزام ٹھہراتے۔بہر صورت بہت سارے ایسے ہیں جن سے میں لکھوانے میں کامیاب نہیں ہوا اور کافی سارے اہل علم و قلم نے لکھا ، بہت خوب لکھا۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے۔مولانا کے کچھ قرابت داروں کے پیغامات شامل کرنے کی بے حد خواہش تھی، بار بار کے رابطے کے باوجود بھی انہوں نے ایک لفظ بھی لکھ کے نہیں دیا۔میں یہاں یہ بات عرض نہ کروں تو ناشکری ہوگی کہ'' اس خصوصی شمارے کے تیار کرنے میں رئیس الجامعہ حضرت قاضی صاحب نے میری اچھی حوصلہ افزائی کی،ہمت بندھائی،کام کو سراہا،شمارے نے پہلے آنا تھا مگر کام کے کثرت کی وجہ سے دیر ہوئی،اس کا بوجھ بھی حضرت نے اپنے کاندھوںپر لیااور کہا کہ'' میری وجہ سے تاخیر ہوئی ہے''۔انہوں نے شمارے کے حوالے سے میری تمام گزارشات کو نہ صرف ملحوظ خاطررکھا بلکہ بہت ساری جگہوں میں میری باتوں کو ترجیح دی۔ کچھ تحریریں ایسی تھی جو ناقابل اشاعت تھی ان کو قابل اشاعت بنایا گیا، کچھ تحریروں میںاشارات وکنایا ت کے ذریعے جامعہ اور رئیس الجامعہ کی طرف انگلیاں اٹھائی گئی تھی مگر انہوں نے یہ کہہ کردرگذر کردیا کہ انہیں بھی اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا حق ہے، ہمارے رسالے میں شائع ہونے میں کوئی حرج نہیں۔یقینا یہ ان کا بڑا پن ہے۔ورنا تو مجھے یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ فلاں کا نام ہمارے رسالے میں نہیں آنا چاہیے، یہاں تو اپنوں کے ناموں سے بھی نفرت کی جاتی ہے۔ایک اہم بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ مولانا مرحوم پر لکھی گئی تمام تحریریں من وعن شائع کی گئی ہیں۔ایک دو تحریروں میں گرائمریا کسی ترکیب کی درستگی اوربعض جملوں کو حذف کیا گیا ہے ۔یہ کام صرف نوآموز لکھاریوں کی تحریروں میں کیا گیا ہے ورنہ جید اہل قلم کی تحریروںمیں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی نہیں کی گئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سہ ماہی نصرة الاسلام کی ترتیب و تزئین، پروف ریڈنگ،ایڈیٹنگ،اہل علم وقلم سے مضامین لکھوانا،سرکولیشن اور رسالے کے دفتری انتظام و انصرام ، غرض سب کچھ خود مجھے کرنا پڑتا ہے ، اس لیے کچھ خامیاں ہونگیں بلکہ یقینا ہیں تو آپ درگذر فرمائیں اور دعاؤں کے ساتھ نیک مشوروں سے بھی نوازیں تاکہ ہم بہتر سے بہترین کی جانب گامزن ہوجائیں۔بہر صورت اس شمارے میںمولانا مرحوم کی شخصیت پر اصحاب علم و قلم ' صاحبان فکر و دانش اور ارباب سیاست وقیادت کی جاندار تحریریں پڑھ کر آپ محظوظ ہونگے۔ اور اگر موقع ملے تواپنے مستجاب الدعوات دعاؤں میں ضرور یار رکھیے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔اپنا بہت خیال رکھو-
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 388923 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More