یمن میں خانہ جنگی کے خدشات، صدر ،وزیراعظم کا استعفی
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
یمن میں خانہ جنگی کے خدشات، صدر
،وزیراعظم کا استعفی پارلیمنٹ ختم، باغی ایک دوسرے کے مقابل
یمن میں خانہ جنگی سر پر آپہنچی ہے، اور کسی بھی وقت یہاں بڑے پیمانے پر
خانہ جنگی شروع ہونے کے خدثات ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین،
سعودی عرب اور ایران اس خطے میں بھرپور دلچسپی رکھتے ہیں۔عرب دنیا میں
نوجوان اپنے حکمرانوں سے ناراض ہیں،عوام کا غصہ اور ناراضگی، شدت پسندی کو
فروغ دے رہا ہے۔ امریکی مداخلت نے عرب خطہ کو ایک جنگی علاقہ میں تبدیل
کردیا ہے۔ یمن میں ایک طرف القاعدہ کے جنگجو ہیں تو دوسری جانب اقلیتی مسلک
حو ثی باغیوں کا گروپ ہے، جس نے پارلیمنٹ اور سرکاری عمارتوں کا گھیراو کیا
ہوا ہے۔بغاوت کو فرد کرنے کے لئے یمنی صدرعبد ربو منصور ہادی نے حوثی
باغیوں کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کر لیاتھا۔ اس سمجھوتے کے مطابق صدر کی
رہائش گاہ کا محاصرہ ختم ہونا تھا۔ اور حوثی باغیوں کو آئین کی جس مجوزہ شق
پر اعتراض تھا اْسے ہٹا دیا جانا تھا۔ لیکن باغیوں نے محاصرہ ختم کرنے اور
اغواء کیے گئے ایک اعلیٰ اہلکار کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کیا اور ارکان
پارلیمنٹ کو بھی اجلاس میں نہ آنے دیا۔ صدر منصور اور ان کی حکومت کے تمام
وزرا نے باغیوں کی جانب سے صدارتی محل پر قبضے اور اہم سرکاری اہلکاروں کو
یرغمال بنانے کے بعد جمعرات کو احتجاجاً استعفے دے دیے تھے۔کئی عرب سیٹلائٹ
چینلز نے یہ خبر دی تھی کہ حوثی باغیوں نے پارلیمان کی جانب جانے والے
راستوں پر پہرہ لگادیا تھا جس کے باعث ارکان وہاں نہ پہنچ سکے جس کے بعد
یمن کے دارالحکومت صنعا میں شیعہ مسلک حوثی باغیوں کاقبضہ ہے۔ صدر اور
وزیراعظم نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یمن
کی فوج اس صورتِ حال کے بعد ختم ہو گئی ہے تاہم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے
سنی قبائل حوثی باغیوں کے خلاف جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تمام فریم ورک
میں امریکہ کے لیے سب سے اہم بات اس خطے میں اس کے اتحادیوں کی سکیورٹی ہے
جسے اس وقت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔یمن ایک غریب ملک ہے، جس کی تیل کی
برآمدات سنہ 2020 سے پہلے ختم ہو جائیں گی۔لیکن سب سے زیادہ اہم اس کا محل
وقوع ہے۔ یمن خلیج فارس پر خام تیل کی سپلائی کے راستے پر واقع ہے۔ اس کے
شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے، اور مغرب
میں بحیرہ احمر ہے۔ یمن کا دارالحکومت صنعاء ہے۔ یمن کی آبادی 20 ملین ہے۔
مشرق وسطی میں یمن عربوں کی اصل سر زمین ہے. قدیم دور سے یمن مصالحوں کی
تجارت کے لیے مشہور تھا۔یمنکے دائیں جانب باب المندب ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو
افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ 20,000 بحری جہاز بحرِ
ہند اور بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں۔سنہ 2000 میں شدت پسند تنظیم القاعدہ کی
جانب سے امریکی بحری جہاز یو ایس کول پر کیے جانے والے خود کش حملے کے بعد
امریکی نیوی اس راستے سے اجتناب کرتی ہے۔ امریکہ اورمغرب یمن کو شدت پسند
تنظیم القاعدہ اے کیو اے پی کی سرزمین سمجھتے ہیں۔ القاعدہ ہی کی وجہ سے
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور پینٹاگان کے خصوصی آپریشنز کمانڈ اس جانب
متوجہ ہوئے۔ اس ماہ کے شروع میں پیرس کے معروف رسالے چارلی ایبڈو پر ہونے
والے حملے کی ذمہ داری بھی اس گروپ نے قبول کی تھی تاہم وہ اس حوالے سے
کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ان تمام باتوں کے باوجود اے کیو اے پی
اب تک تین بار بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے بم سمگل کرنے میں کامیاب رہا
ہے۔ امریکہ نے ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران یمنی حکومت کی انسدادِ دہشت
کی استعداد کو بڑھانے میں بھر پور کردار ادا کیا ہے۔امریکہ کی خصوصی افواج
خفیہ طور پر یمن کی فوج کو دارالحکومت صنعا میں تربیت فراہم کرتی رہی ہیں
جبکہ امریکہ، سعودی عرب اور یمن نے مشترکہ طور پر یمن میں شدت پسندوں کے
خلاف ڈرون حملے بھی کیے ہیں۔ان متنازع ڈرون حملوں میں اب تک درجنوں عام
شہری مارے جا چکے ہیں۔اس حالیہ بحران پر قابو پانے کے لئے اقوام متحدہ کے
سکریٹری جنرل کے خصوصی مشیر جمال بن عمرنے صنعا میں یمن کے صدر اورعوامی
کمیٹیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی تھیں۔ لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں
نکلا۔ گلف کواپریشن کونسل کے وزرا نے بھی باغی گروپ سے فوری طور سے صدارتی
محل کا محاصرہ ختم کرنے، اْن کی نجی رہائش گاہ خالی کرنے اور یمنی صدر
عبدالرب منصورھادی کے ایک قریبی ساتھی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی
عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان ، قطر اور بحرین کے نمائندوں پر مشتمل
جی سی سی نے خطے میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے یمن کے
عسکریت پسند باغیوں کے گروپ حوثی پر زور دیا ہے کہ وہ صدارتی محل خالی کر
دیں۔مستعفی صدرعبد الرب منصورھادی 2012 میں اپنے پیش روعلی عبداﷲ صالح کی
تین دہائیوں تک جاری رہنے والی حکومت کے خاتمے کے بعد یمن کے صدر بنے
تھے۔بعض حلقے صدرصالح پر حوثی باغیوں کے ساتھ اتحاد بنانے کا شبہ بھی ظاہر
کر رہے ہیں۔ جمعرات کی شب مستعفی ہونے سے قبل وزیراعظم خالد بحاح نے بھی
اپنا استعفیٰ صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران جمع کروایا تھا۔یمنی پارلیمنٹ کا
اتوار کے روز موجودہ صورت حال پر بحث کے لیے خصوصی اجلاس طلب کیا تھا۔ جو
ناکامی سے دوچار ہوا۔ حوثی ملیشیا نے پارلیمنٹ کی بلڈنگ کا راتوں رات
محاصرہ کر لیا تھا۔ اس ملیشیا کے ارکان صدارتی محل کے گرد پہلے ہی گھیرا
ڈالے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح مسلح افراد نے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے گھروں کے
گرد بھی گھیرا ڈال لیا ہے۔ملیشیا کے افراد وزیر دفاع محمود الصبیحی اور
انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ عل الاحمدی کے مکانوں کو خاص طور پر گھیرے میں
لیے ہوئے ہیں۔ یمنی باشندوں نے کئی علاقوں میں حوثی گروپ کے خلاف کئی جلوس
نکالے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اِس صورت حال میں حوثی دارالحکومت پر مکمل
کنٹرول کرتے ہوئے عبوری حکومت قائم کر سکتے ہیں۔حوثی باغیوں کی جانب سے
دارالحکومت اور سرکاری عمارتوں پر قبضے کے خلاف صنعا اور یمن کے کئی دیگر
شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ یمن کے دیگر پانچ صوبوں کی
حکومتوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ صنعا پر قابض باغیوں سے ہدایات وصول
نہیں کریں گی۔ یمن کے جنوبی اور شمالی علاقے 1990 تک الگ الگ ملک تھے جنہوں
نے بعد ازاں ایک دوسرے سے الحاق کرلیا تھا۔حوثی باغیوں نے گزشتہ سال ستمبر
میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد یمنی صدر عبد الرب منصور
ہادی نے باغیوں کے نئی حکومت کے قیام کے مطالبے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے
تھے۔حوثی باغی یمن کے اقلیتی "زیدی" قبائل کو زیادہ اختیارات دینے کا
مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنی مرضی کی آئینی ترمیم منظور کرانے میں ناکامی کے
بعد باغی صدارتی محل پر قابض ہوگئے تھے کے بعد یمنی حکومت عملاً مفلوج ہو
کر رہ گئی تھی۔ادھر نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے
کا اجلاس ہورہا ہے جس میں یمن میں جاری بحران پر غور کیا جائے گا۔عرب دنیا
میں تیونس اور مصر، یمن میں 1992 تحریکیں شروع ہوئیں۔جسے عرب بہاری کا نام
دیا گیا۔ لیکن اس تحریک کی ناکامی نے عرب عوام میں ایک غم وغصہ پیدا کردیا
ہے۔ جو خانہ جنگی کی جانب جا رہا ہے۔ |
|