پاک بھارت تعلقات ۔۔۔مودی کا چکمہ یا حقیقت

یہ ایک تاریخی وزمینی حقیقت ہے کہ دوہمسایہ ملک کبھی بھی ایک دوسرے کے دشمن رہ کر اورسازشوں کے جال بچھاکر اپنی عوام کے بنیادی حقوق پورے نہیں کرسکتے۔اقوام کی اقتصادی ترقی میں امن کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں ’’ریڑھ‘‘کی ہڈی کو حاصل ہے۔طاقتوراوربرابرکی توبات ہی دوسری ہے‘ مستقل کمزوردشمن بھی لوہے کے چنے چبانے پر مجبورکردیتاہے۔اس کی واضح مثال اسرائیل وفلسطین ہیں۔۔بے روزگارافراد احتجاج کرتے نظرآتے ہیں اورداخلی استحکام اورخوف اس قدرکے اسرائیل امریکہ ویورپ کی سپورٹ کے باوجودمظلوم فلسطینوں سے خوف زدہ ہے اوران کے تمام راستے مسدودکرنے کے باوجود امریکی حمایت کے لیئے کلبلاتارہتاہے‘جیسے آج کل نیتن یاہو امریکی کانگریس سے خطاب میں پریشان حال ہیں۔

اسے بدقسمتی کہیں یااغیارکی گھناؤنی سازش کہ برصغیرکی تقسیم کے دوران اس بات کاخاص خیال رکھاگیاکہ دونوں ممالک کبھی باہم تعاون نہ کرسکیں۔ان کے درمیان وادی جموں وکشمیر کووجہ نزاع بناکرانگریز یہاں سے چلتابنا۔انگریز کی کسر انتہاپسند ہندؤوں اورسادھوؤں نے یہ کہہ کرپوری کردی کہ کشمیرہمارااٹوٹ انگ ہے‘انکی آوازمیں کانگریس اوربی جے پی کی آوازبیک وقت مختلف لب ولہجے کے ساتھ شامل رہی۔1965‘1971‘کارگل جنگ ہویاپھرسیاچن سب کی بنیاد ہنوزکشمیرہی ہے۔کشمیردنیاکی ایسی واحدمقبوضہ آبادی ہے جہاں رقبے اورآبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔بھارتی دانشورارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ’’ سات لاکھ فوجی ایک چھوٹی سی وادی میں تعینات ہیں جوایک سوالیہ نشان ہے۔‘‘

ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والابھارت جس کی اسی فیصدآبادی ہندؤوں پرمشتمل ہے ‘جہاں آرایس ایس‘بجرنگ دل ‘شیوسینا‘انسومنڈل ‘راشٹریہ‘شیوجیتی سمیتی‘رام ترن منڈل‘رام ججزسنگھٹن‘لکشمی سینا اوروشواہندوپریشدجیسی تنظیمیں پروان چڑھ رہی ہیں ‘جن کا نصب العین ہی مسلمان اورپاکستان کاخاتمہ ہے۔ہندوستان کے کم وبیش سب ہی سیاستدان ایسی تنظیموں کاسدباب کرنے میں تقریبا ناکام رہے ہیں۔انتہاپسند ہندؤوں نے پورے ملک میں مسلمانوں کاجیناحرام کیاہواہے۔اس سب کے باوجود پاکستان افواج اورسیاستدانوں نے ہر موقع پر خیرسگالی کے جذبات کااظہارکرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کوبہتربنانے کی ہرممکن کوشش کی۔نریندرمودی صاحب نے جب تخت سنبھالاتوتقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیراعظم سمیت سارک ممالک کے سربراہان کو شمولیت کی دعوت دی۔وزیراعظم پاکستان نیک نیتی کے جذبات لیئے مودی کی تقریب ِ حلف برداری میں شامل ہوئے اوربھارت سنورنے کے بجائے مزیدسخت ہوگیا۔انھوں نے نرم رویہ کوپاکستان کی کمزوری سمجھ لیا‘۔پاکستان کو تحفے میں ویشواہندوپریشدکے رہنماء ماہون بھاگوت صاحب کا قول ملاکہ ’’آٹھ سوسال بعد ہندوستان پر ہندؤوں کی حکومت آئی ہے۔‘‘یعنی اب اصل ہندوبھارت کے سرکاتاج بناہے ‘شاید اشارہ 2002کے گجرات فسادات کی جانب تھا‘جہاں وزیراعلی نریندرمودی تھے اورمسلمانوں کابہیمانہ قتلِ عام کیاگیا۔ معصوموں کو ایسے اندازمیں ذبح کیا کہ انسانیت شرمسار ہے ۔ پھر آسام میں ہونے والا قتل عام جس میں حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالاگیا اور انھیں اس بے دردی سے ذبح کیا کہ آج ’ ’کرشن چندر‘‘زندہ ہوتے توان کا قلم انسانیت کے دکھ سے تڑپ اُٹھتا۔

منگل کے روز بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامینم نے پاکستان کے وزیراعظم ‘سیکرٹری خارجہ اعزازچوہدری‘مشیرخارجہ سرتاج عزیزاوروزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی سے ملاقاتیں کیں۔ملاقاتوں میں دونوں جانب کے ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی ایس راگھوان اورعبدالباسط نے بھی شرکت کی۔بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہاکہ ہم نے ممبئی حملہ کیس اُٹھایاہے اوراسے منطقی انجام تک پہنچانے کی بات کی ہے‘سرحدی کشیدگی اوردہشت گردی کے ایشو بھی زیر بحث رہے ہیں۔پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ہم نے سمجھوتہ ایکسپریس سمیت سرکریک‘سیاچین ‘سرحدی کشیدگی ‘بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھارتی مداخلت کامسئلہ بھی سیکرٹری خارجہ کے سامنے رکھا۔اعزازچوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات میں دونوں جانب کے عوام میں رابطے بڑھانے اور سارک تنظیم کو مزید وسعت دینے اورفعال بنانے پر اتفاق ہوا۔پریس کانفرنس میں سیکرٹری خارجہ نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 2003کے سیز فائر معاہدے کی پابندی اورڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنزکے درمیان رابطے سے حالات کی کشیدگی کو کم کرنے میں مددمل سکتی ہے۔

پہلے مرحلے کے اختتام پرپریس کانفرنس میں موجود‘ ترجمان دفترخارجہ تسنیم اسلم نے مذاکراتی عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان منجمدتعلقات کی برف پگھلی ہے۔
مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اوروزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز سے بھارتی سیکرٹری خارجہ نے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

وزیراعظم پاکستان کو نریندرمودی کی نیک خواہشات پر مبنی خط بھی پہنچایاگیا۔وزیراعظم نے اپنی ملاقات کے دوران اس بات کا اظہارکیاکہ جنوبی ایشیاوسائل سے مالامال ہونے کے باوجود پریشان حال ہے ‘جس کی وجہ خطے میں موجود کشیدگی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کی ڈیڑھ ارب عوام کو بہم سہولتیں پہنچانے کیلئے ہمیں ڈائیلاگ کے ذریعے ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دیناہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ پرامن ہمسائیگی میراویثرن ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ سارک ایسا فورم ہے جوخطے کے تمام ممالک کو یکجاکرنے کی سہولت فراہم کرتاہے ۔انہوں نے ستائیس مئی کو ہونے والی مودی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں کی خواہش تھی کہ تعلقات کو بہتربنایاجائے ۔وزیراعظم نے من موہن سنگھ اورواجپائی سے ملاقات کاتذکرہ بھی کیا۔انہوں نے کہا کہ اب ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کیلئے ایک نئے اورمعنی خیز باب کااضافہ کرناہوگا۔تاہم پاک بھارت ملاپ کی اس گھڑی میں بھی مذاکرات کی بحال کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیاگیا۔پاکستان نے اس کے دوران کشمیر پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وادی سے متعلق ہماری موقف کسی سے ڈھکاچھپانہیں اورہم ان مذاکرات پر بھی کشمیری رہنماؤں کو اعتمادمیں لیں گے۔

پاکستان وبھارت کی تاریخ میں ایسے موڑ بھی آیا کہ جب یہ قیاس آرائیاں اپنے عروج پر پہنچیں کہ ماضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔منموہن سنگھ کادورشاید اس میں نمایاں تھا ‘مگرانہیں آگے نہیں بڑھنے دیاگیا۔نریندرمودی کی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم پاکستان کی شمولیت کے بعد یہ تاثردیاگیاکہ پاک آرمی ہندوستان سے اچھے تعلقات کی حامی نہیں جو کہ حقائق سے کوسوں دورتھا۔جس کا اثر آہستہ آہستہ از خود زائل ہو گیا کیونکہ ’’پراپرگینڈا‘‘وزارت کے پہلے وزیراعلی نے اپنی موت کے وقت کہا تھاکہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کیلئے بیوہ قوف بنا سکتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو بہت دیر کیلئے بھی بیوہ قوف بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوہ قوف نہیں بنایاجاسکتا‘‘۔اوراسکے پراپرگینڈے کے پیچھے کارفرماہاتھ کی اصلیت اس وقت کھل کرسامنے آگئی جب پاکستانی ہائی کمشنرعبدالباسط نے دہلی میں کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی ۔جس کے بعد بھارت نے مذاکرات کے عمل کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہاکہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے سے پہلے بھارتی سرکارسے اجازت کیوں نہیں لی گئی اوراس بے بنیاد بات کو وجہ بناتے ہوئے یعنی رائی کو پہاڑبناتے ہوئے بھارتی سرکارنے مذاکراتی عمل کو منجمد کردیا۔رہایہ مسئلہ کہ بھارت نے اب مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کاعندیہ دیاہے تواس پربات کرنے سے قبل اسکاپسِ منظردیکھناہوگاتاکہ بھارت کے عزائم کی گھتی سلجھ سکے۔

بھارتی یوم جمہوریہ پر ڈیموکریٹک صدراوبامانہ کہاتھاکہ بھارت اگرہمارے ساتھ جوہری معاہدے اورترقی کی منازل طے کرناچاہتاہے تو اسے مذہبی رواداری اپناناہوگی‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیکولربھارت کاخواب دیکھنے والے گاندھی اگر اب زندہ ہوجائیں توبھارت کی مذہبی اشتعال انگیزی دیکھ کر وہ ایک دفعہ پھرغش کھاجائیں گے۔ان کے اس بیان پرجہاں انہیں امریکی اخبارات نے پذیرائی بخشی وہاں نریندر مودی صاحب کی اقلیتوں پر مسلسل ہوتے مظالم پر جاری خاموشی کوبھی انہوں نے تاک کرنشانابنایا۔صدراوبامانے بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست کالولی پاپ دینے کا عندیہ بھی دیا۔ بھارت بھی جانتاہے کہ یہ لولی پاپ امریکہ نے جنوبی کوریااورجاپان کو بھی دے رکھاہے اسلیئے اس دوڑمیں پھرتیاں دکھاتے ہوئے امن کے ٹھیکیدارکے آگے جی حضوری کرتے ہوئے ‘گھی ٹیڑھی انگلیوں سے نکالناہوگا۔

دوسری جانب 67برس سے بارودکی آگ میں جلتے ہوئے اس خطے کی پوزیشن بدلتی جارہی ہے۔پچھلے تیرہ سال سے جنگ کاسامناکرناوالی افغان قوم کواب ضدی حامدکرزئی کہ بجائے صدراشرف غنی مل چکاہے۔پشاورسانحہ کہ بعدجنرل راحیل شریف کے افغانستان کے دورے کے بعد پاک افغان تعلقات اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔پاکستان نے ایک بیان میں کہا کہ افغان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جینس شیئرنگ کے تعاون سے سانحہ پشاورکے ملزمان بھی پکڑے جاچکے ہیں اورملافضل اﷲ کے گرد گھیراتنگ ہوچکاہے۔بھارت عرصۂ دراز سے اپنے افغانستان میں موجود قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروارہاہے‘جواب اسے محدودہوتی نظرآرہی ہیں۔

نومبرمیں افغان طالبان نے بھی چین کادورہ کیاہے۔انکے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کا کہناہے کہا ثالثی کا کسی کونہیں کہاالبتہ طالبان دنیاکو باورکراناچاہتے ہیں کہ اب بھی انکے اپنے ہمسایہ ممالک کسے اچھے تعلقات ہیں۔چین بھی طالبان کے ذریعے اپنی افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی جستجوکررہاہے۔ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودیہ عرب اورچین کانمائندہ بھی شامل ہو۔جبکہ 2013کے برعکس اب امریکہ چاہتاہے کہ افغان اپنے مسائل کاحل خودتلاش کریں اورممکن ہے یہ معاملات افغان حکومت اورطالبان کے درمیان براہ ِ راست بھی طے پاجائیں ۔افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان نے اپنی بھرپورمدد کایقین دلایاہے۔اطلاعات ہیں کہ قاری دین محمد کی قیادت میں ایک وفدعنقریب پاکستان آئے گا۔یہ سب وہ معاملات ہیں جس سے بھارت کے بیانات میں نرمی کی وجہ قراردے سکتے ہیں۔

اب ہم بھارت کی اندرونی سطح پر اسکے مسلمانوں کے لیئے جذبات کاجائزہ لیتے ہیں ۔بھارتی جنتاپارٹی سخت گیرہندوتنظیم آرایس ایس کاسیاسی ونگ ہے ‘نریندرمودی جس کے بانی ممبرہیں۔دوہزارچودہ میں ہونے والے لوک سبھاکہ انتخابات میں جس قدرانتہاپسندی کوموضوع بنایاگیااورابھاراگیاشایداس سے قبل ہندوستان کی تاریخ میں اس قدرپرزورمہم نہ چلی ہو۔ریاست کشمیرسے متعلق ایکٹ 370جس میں اسے مسلم اکثریتی ریاست تسلیم کرتے ہوئے اس کی ڈیموگرافی تبدیل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ‘اسے تبدیل کرنے کا وعدہ بی جے پی کاانتخابی نعرہ تھا۔شمال مشرقی ریاستوں میں ہندوکے جذبات بھڑکاتے ہوئے بی جے پی نے کہاکہ اگربی جے پی اقتدارمیں آئی تو آسام میں صرف ایسے بنگلہ دیشیوں کو رہنے کی اجازت دی جائے گی ‘جو ہندوہیں۔مسلمانوں کو بھگادیاجائے گا۔نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ جسے کانگریسی دورمیں بھی درپردہ حمایت حاصل تھی اب آرایس ایس وبی جے پی کی شہ پاکرکھل کرمسلمانوں کوقتل کررہاہے اورآسام میں مسلمانوں کامال وزرتوکجاعزت بھی محفوظ نہیں۔آسام وہی ریاست ہے جہاں فسادات کے بعد مسلمانوں کی میتیں گلنے سڑنے لگیں توماضی کی ایک حکومت نے انکی تدفین کے بجائے ان پر بلڈوزرچلوائے۔گجرات ‘اترپردیش ‘مدھیہ پردیش اورراجھستان کے بعد اب سنگھ پریوارنے انیس سوچھیاسی سے قائم ہونے والی اس انتہاپسندتنظیم بوڈوndfbکے ذریعے مسلمانوں پر عرصۂ حیات انہی کی جنم بھومی میں تنگ کررکھاہے۔وہ وہاں کی آبادی کو تاثردے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی اگراسی رفتارسے بڑھتی رہی توعنقریب ان ریاستوں میں ہندواقلیت بن کررہ جائیں گے ‘اب ظاہر ہے اس طرح سے کسی بھی اکثریتی گروہ کے تعصب کواُبھارا جائے تو وہ عصبیت کے زیراثر اپنے سفلی جذبات کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں بہت آگے بڑھ جاتاہے۔

ہندوستان میں مرکزی حیثیت میں اب ’’لوجہاد‘‘ ’’گھرواپسی‘‘ اور’’بہولاؤ بیٹی بچاؤ‘‘جیسی مکروہ تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔لوجہاد کے ذریعے مسلمانوں کے جہاد پر تمسخراُڑاکرہندوؤں کو ان سے خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ گھر واپسی کے ذریعے مسلمانو ں اورعیسائیوں کو دوبارہ ہندوبننے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے بلکہ کبھی دھونس ‘لالچ اورکبھی سماجی ومعاشی ناطقہ بندی کے ذریعے اسے پروان چڑھایاجاتاہے۔’’بہولاؤ بیٹی بچاؤ‘‘جیسی سماج دشمنی ‘غیراخلاقی تحریک کامقصدہے کہ ہندومسلمانوں کی بیٹی سے شادی کریں اوراپنی بیٹی کو انکے گھرانے میں جانے سے روکیں۔مذہبی جذبات اوراصولوں کے تحت اخلاقی تقاضہ تویہی ہے کہ اگرلڑکی کوزبردستی مسلمان بیاہتاہے تویہ غلط ہے مگرجہاں وہ اپنی مرضی سے جاتی ہے تو اسے روکناہماری سمجھ سے بالاترہے کیونکہ جب اس کا مذہب بدل گیا تو دل خود بخود پرانی روایات سے اُچاٹ ہونافطری امرہے ۔دوسری جانب مسلمان لڑکی زبردستی ہندوکی زینت بنائی جاتی ہے اور یہی اس تنظیم کا مقصدہے تویہ فعل قابل ِ مذمت ہے‘چاہے ایسافعل مسلمان بھی انجام دے ۔سندھ وبلوچستان میں بھی ایسے اکا دکاواقعات دیکھنے میں آئے ہیں حکومتِ پاکستان کا فرض ہے کہ ہندوبرادری کو تحفظ فراہم کرے۔پاکستان پر اقلیتوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا۔

کشمیر میں ایسے تباہ کن ہتھیاراستعمال کیئے جارہے ہیں جن سے کشمیری کبھی بینائی کھورہے ہیں توکبھی معذورہورہے ہیں ۔ان انسانیت دشمن ہتھیاروں میں سے بعض میں یورینیم استعمال کیاجاتاہے‘جوفوجی مشقوں میں استعمال کیئے جاتے ہیں اورمقبوضہ کشمیرکے عوام انکے تابکاری اثرات سے زائل ہورہے ہیں۔انسانیت کش ہتھیاروں میں ٹن پڑرایکس پستول‘پمپ ایکشن گن‘پی بی ایل بندوق ‘اورمرچی گرنیڈشامل ہیں۔زہریلی گیس اورپیلٹ گن کے بے دریغ استعمال سے کشمیری بچے‘بوڑھے اورجوان متعدد موذی امراض کاشکارہوچکے ہیں۔پلیٹ گن کے استعمال پر حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ میرواعظ عمر فاروق نے بھی فوری پابندی کاپرزورمطالبہ کیا ہے ‘مگربھارت کے انتہاپسندوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔انڈیاکامقبوضہ وادی کیلئے1990سے قائم کردہ آرمڈفورسزسپیشل پاورز ایکٹ ایسامکروہ اورانسانیت دشمن قانون ہے کہ دہلی کے وزیر منیش سسوڈیانے بھی ماضی میں اس پر تحفظا ت کا اظہار کیا ‘جس پر انتہاپسندوں نے انکے دفترپربھی حملہ کیا۔اس ایکٹ کے تحت جنگی مجرموں کوتحفظ فراہم کیاگیا۔انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں بھارتی فوج کے کم ویبش پانچ سوکے قریب فوجی شامل ہیں‘جن کاتذکرہ حال ہی میں انسانی حقوق سے متعلق ایک تنظیم نے کیاہے۔2010میں کشمیریوں کی تحریک سے گھبراکربھارتی فوجیوں نے جہاں ان پر مرچی گرنیڈوں سے حملہ کیاوہیں بھارتی سرکارکی جانب سے مقامی ٹی وی چینلوں پر پابندی عائد کردی گئی‘ جوہنوز جاری ہے۔ان تمام ترعوامل پرنظردوڑانے کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبورہوجاتے ہیں کہ بھارت میں موجودانتہاپسندکبھی بھی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کرتے ۔جب وہ اپنے ہم وطن مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں توپھر پاکستان میں موجود مسلمانوں کے خیرخواہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر تقریراورایک غیرملکی سربراہ کے بھارت کے دورے کے بعدگزشتہ سال سے کنٹرول لائن اورورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی اشتعال انگیزی مسلسل بڑھ رہی ہے۔حال ہی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سیالکوٹ تشریف لے گئے اورہم وطنوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بھارت کو اپنی توپیں خاموش رکھنے کاکہا‘انہوں نے مزید کہاکہ اگربھارت بازنہ آیاتواسے منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔ان کا کہناتھاکہ بھارت ہماری امن کی جانب پیش قدمی اورعلاقائی استحکام کیلئے نرم گوشہ رکھنے کو ہماری کمزوری نہ سمجھے۔اسکے ساتھ ساتھ اسوقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل رضوان اخترامریکی دورے پر ہیں۔ان کے سا تھ انسد دادِ دہشت گردی کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل طارق قدوس بھی امریکی دورے پر ہیں ۔لیفٹنٹ جنرل رضوان اختر نے افغان قونصل خانوں کی پاکستان میں انتہاپسندی سے متعلق ثبوت بھی امریکہ کو دیئے ۔اس سے قبل بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کوپاکستان کے اسوقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں اوربلوچستان میں دراندازی کے بھارتی سے متعلق شواہد پیش کیئے تھے۔

یہ ہے وہ پسِ منظر جس کے دباؤمیں آکربھارت نے پاکستان کے ساتھ کشمیرکے مسئلے کوحل کرنے کی بات کی ہے۔اس بات میں شک نہیں کہ پاکستان اس دباؤ سے باہرنکل آیاہے جوامریکی صدرکے حالیہ دورہ ء بھارت سے تخلیق ہوناتھایاہواتھا۔اس میں صدراوباماکہ دورے ء بھارت کے دوران جنرل راحیل کے دورہ ء چین ‘پھر اشرف غنی سے ملاقات ‘ اوراب آئی ایس آئی چیف کی امریکہ موجودگی اورثبوت پیش کرنے نے اہم کرداراداکیا۔یہاں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ بھا رت اب بھی اپنی روایتی لیت ولعل ہی سے کام لے گا۔
بھارتی میڈیا اب بھی ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ یہ معمول کے مطابق دورہ ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کی اُمید لگا لینا درست نہیں ۔انکی یہ بات بھارت کی سرکشی کی منہ بولتی تصویر ہے ۔وہ بھارت جو پاکستان کے پانی کوغصب کر کے بیٹھا ہے ‘جس کاپاکستانی دریاؤں پر کم وبیش ایک سوپچپن ڈیم بنانے کا ارادہ ہے‘جس میں سے پینسٹھ کا اعتراف من موہن سنگھ بھی کرچکے ہیں‘بھارت2002میں مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی حکومت کے توسط سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں یہ قرارداد منظورکرواچکاہے کہ موجودہ سندھ طاس معاہد ہ ریاست کشمیر کے مفاد کے منافی ہے اسے تبدیل کیاجائے‘پھرکس طرح پاکستان کے ساتھ دوستی کاروادارہوسکتاہے۔ہاں اگر اسے ایساکرناہے تو اس اپنے اندرموجود انتہاپسندوں کوروکناہوگا۔سیاسی مصلحتوں سے ہٹ کر نئی راہ پر چلناہوگامگرافسوس کہ تاحال اس کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔بھارت نے حال ہی میں اپنے بجٹ میں بارہ اشاریہ پانچ فیصداضافے کے ساتھ اسے 2467ارب تک بڑھادیاہے۔اس جنگی جنون کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔حال ہی میں امریکی سنٹرل کمانڈکے سربراہ جنرل لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطے کے استحکام اورافغان سٹریجیٹی کیلئے سنگین خطرہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سب کے پیچھے وہ مخصو ص سوچ کاربند ہے جو پچاس برس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے پیداکیئے ہوئے ہے۔اسی سوچ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے میں مدددی اورپھر اس کے قیام پر کہا کہ اب دوقومی نظریہ دھان کے کھیتو ں میں دفن ہو گیاہے۔ ظاہر اسکا ریکشن ضروری تھا۔دونوں جانب کے سربراہان اسوقت تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کرسکتے جب تک کے عوام کے دلوں کے فاصلے کم نہ کیئے جائیں ۔ایساکرنے کیلئے سازشی دماغوں کو قدغن لگاناہوگی اور دونوں ممالک کو استعماری قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے بچنا ہو گا۔۔سمجھوتہ ایکسپریس کے منصوبہ سازوں نے اپنے ہی اہل وطن ہندؤوں کو بھی ہندی مسلمانوں اورپاکستانی مسلمانوں کے ساتھ اس لیئے جلادیاتاکہ پاکستانی ایجنسی پر اسے تھوپ کر ہندوکوبھڑکایاجاسکے۔یہ تو نہیں کہاجاسکتاکہ بھارت کے اسی فیصد ہندوہی پاکستان کے دشمن ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کی خبریں جب پاکستان پہنچتی ہے توپاکستانی مسلمان یہ سوچ کر سجدہء شکراداکرتے ہیں کہ ہم آزادہو گئے تھے لیکن ساتھ ہی ایک امت ہونے کے ناطے ان کے دل میں ہندی مسلمانوں کیلئے محبت جاگتی ہے اورہندوسے نفرت جنم لیتی ہیپاکستان کے مسلمان میں تعداد میں اٹھارہ کروڑ کے لگ بھگ ہیں ‘ایک امت ہونے کے ناطے انہیں بھارت سے اس لیئے بھی دوستانہ تعلقات رکھنے چاہیں تاکہ وہاں موجود بیس کروڑ کے قریب مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے‘اگر پاکستان کا مقصد اسلام ومسلمانوں کا تحفط ہے توپھر انہیں ایسا کرناہوگا۔اسکے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے قریب آنے کیلئے نصاب میں بھی ایسے اسباق شامل کیئے جائیں جودونوں ممالک کے تحفظات کااحاطہ کرتے ہوئے ان کی قربت کواہمیت دیں تاکہ نئی نسل جنگ سے محفوظ رہ سکے۔

مسئلہ کشمیر کا حل تب ہی نکل سکتاہے جب ہندوستان اپنی رائے عامہ کو اس جانب گامزن کرے ‘اکیلی بھارتی حکومت کسی طوربھی اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کشمیر میں رائے شماری کروائے ‘مگر ایسا کرنے کیلئے اسے پہلے انتہاپسند رہنماؤں یوگی آدتیہ ناتھ‘پروین توگڑیا ‘اشوک سنگھل کوروک لگاناہوگی۔جوتاحال ناممکن نظرآتاہے کیونکہ اگر بی جے پی نے ایسا کیا توغالب امکان ہے کہ آرایس ایس ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔پاکستانی عوام کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ جو چیز بھارت سے سستی دستیاب ہے اسے بھارت سے ہی حاصل کیاجائے ‘مہنگی چیز کیوں خریدی جائے۔ پاکستانیوں کو بھی اپنی صفوں سے ایسے افراد کونکالناہوگا جو دشمنی برائے دشمنی کے قائل ہیں۔اقتصادی ترقی کیلئے دونوں ممالک کو قریب آناہوگا۔جنگ یا دشمنی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔کرکٹ کے بعد تجارت ہی سے دونوں ممالک قریب آسکتے ہیں۔یقیناپاکستان کی طرح ہندوستان کے تاجرکابھی پریشرہوگاکہ بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کرے ۔ان دونوں ممالک کے بیچ دشمنی نہ صرف انکے عوام ‘جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن کیلئے بھی خطرہ ہے۔استعماری قوتوں کو چاہیئے کہ اپنے اسلحہ کی منڈی تلاش کرنے کے بجائے ہندوستان پر درست معنوں میں زوردیں کہ وہ پاکستان کی طرف خلوص سے بڑھے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس بارے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیامیں رائے عامہ ہموارکرکے پاکستان وبھارت کے عوام کو قریب لاسکتاہے ۔اوریہی عالمی امن کیلئے سازگاروبہترین ہے وگرنہ ایٹمی جنگ سے عالمی امن کو بھی خطرہ ہوگا۔

سائیڈ سٹوری:
پاک بھارت دوستی کیلئے کشمیر کا حل ناگریز ہے۔جس پر بات چیت کے ایک سو چونتیس دورہوچکے ہیں ۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ضروری ہے کہ بھارت اپنی عوامی رائے کوبدلتے ہوئے انتہاپسندرہنماؤں پروین توگڑیا‘اشوک سنگھل اوریوگی آدتیہ ناتھ کورام کرے۔مسلمان کجا ہندمیں عیسائی بھی محفوظ نہیں ‘حال ہی میں ایک دہشت گرد گروہ کا کہناہے کہ ’’ایک دن ایساآئے گاکہ ہندؤوں کے گرجاگھروں کی دیواریں بھی منہدم ہوجائیں گی اورسرزمینِ ہند فقط ہندؤوں کی ہوگی۔

پاکستان کے مسلمان تعداد میں اٹھارہ کروڑ کے لگ بھگ ہیں ‘ایک امت ہونے کے ناطے انہیں بھارت سے اس لیئے بھی دوستانہ تعلقات رکھنے چاہیں تاکہ وہاں موجود بیس کروڑ کے قریب مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے ۔ یہ سب کچھ بھارت بارے سخت موء قف رکھنے والے پاکستانیوں ‘دانشوروں‘امراء اورمتحارب قوتوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس بارے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیامیں رائے عامہ ہموارکرکے پاکستان وبھارت کے عوام کو قریب لاسکتا ہے ۔اور یہی عالمی امن کیلئے سازگاروبہترین ہے۔

بھارتی زبانی جمع خرچ میں نرمی کی وجہ آئی ایس آئی چیف کی بھارتی دراندازی کے ثبوت امریکی حکام کو پیش کرنا اورافغانستان وپاکستان کے تعلقات کی بہتری ہے۔

پاک بھارت دوستی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت پاکستانی دریاؤں کے بہاؤ کو روکنے کیلئے 155ڈیم بنانے کا منصوبہ ترک کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرے۔ستلج ‘چناب ‘بیاس اوردریائے کابل کو تووہ پہلے ہی نقصان پہنچا چکاہے۔اب رتلی ڈیم‘پاکال دل ‘لوئیرکئی ہائیڈروجیسے متنازعہ منصوبوں پر مذاکرات کے باوجود تاخیری حربے استعمال کر رہاہے۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہندوستان کو ہندوراشٹریہ بناناہندوستان کی اسی فیصد ہندوآبادی کیلئے مشکل نہیں ۔ان کاملک ہے اوران کا مذہب‘ ہمیں فقط یہی اعتراض ہے کہ ’’لوجہاد‘‘ ’’گھرواپسی‘‘ اور’’بہولاؤبیٹی بچاؤ‘‘جیسی اقلیت کش تحریکیں اگراُٹھیں تویہ انسانی حقوق اورمذہبی رواداری کے خلاف ہے ۔اس سے نہ صرف بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں اورعیسائیوں کو قلق ہوگابلکہ ہندوستان بھی بٹ جائے گا۔ہندوریاست بناناہے توبنائیے مگراقلیتیوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی بندکیجئے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174713 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.