دہشت گردی کی سلگتی آگ کہیں راکھ میں نہ چھپ جائے

 دہشت گردی کا خمیر کسی ایک مذہب ‘تہذیب ‘معاشرے یا سماج سے نہیں اُٹھتابلکہ اس کے پیچھے کئی دہائیوں پر محیط معاشی‘سماجی‘عسکری ‘مذہبی اورعلاقائی حق تلفیوں کی لمبی داستان کارفرماہوتی ہے۔تاریخ کے جس دورمیں بھی اس نے جنم لیا ‘اس کا لب لباب ہرطرح سے حق تلفی ہی تھا۔

جنوبی ایشیامیں اسکی پہلی جھلک کاحتمی تعین تو نہیں کیاجاسکتالیکن ہماری دانست میں یہ عنصر انگریز سامراج کی’’ لڑاؤ اورحکومت کروپالیسی‘‘ کے بعداپنی پوری قوت سے سامنے آیا۔تقسیم ِ ہند کچھ اس اندازمیں کی گئی کہ برصغیر میں آج تلک سکون نہیں۔اسکے بعد 1979سے لے کر 1989تک لڑی جانے والی امریکہ وسوویت یونین کی جنگ نے عمومی طورپر اس خطے اورخصوصی طورپر پاک‘افغان اوربھارت کے درمیان لاتعداد مسائل کاانبارلگادیا۔پہلے پاک بھارت جنگ یاتنازع کشمیر تک محدودتھااوراب افغانستان میں اثرورسوخ اوران ڈائریکٹ تسلط کا ہمابھی دونوں جانب پوری قوت سے بیٹھاہواہے‘اوریہ اس خطے کی جغرافیائی حدود ہی کی مرہون منت ہے‘پاکستان کی تو افغانستان سے سرحدیں‘ثقافت ‘زبان اورمذہب ملتاہے ‘آخربھارت کسی زعم میں افغانستان میں اثرورسوخ کا دعوے دارہے؟۔دوسری جانب امریکہ نے ایک خاص مذہبی نظریے کی ترقی وترویج کے بعد اپنے اگلے پلان کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے افغانستان میں تسلط حاصل کرناچاہاتو اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف نے بھی حصہ لیا اوریہ جنگ جو جسمانی طورپر افغانستان اورنظریاتی طورپر پاکستان میں لڑی جارہی تھی اپنی پوری آب وتاب کیساتھ پاکستان کی سرزمین کی جانب سرکنے لگی۔ایک مخصوص آب وہوا اس خطے میں پہلے ہی سرایت کرچکی تھی۔کسی خاص مقصدکے تحت جنوبی ایشیاکے ایک ملک میں انقلاب کے بعد پاکستان میں اکابرین کی گستاخیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں‘دوسری جانب سے ایک اورمذہبی ملک نے اسکاجواب دینے کیلئے اپنے ہمنوالوگوں کی امدادکرکے موئثرجواب دینے کی کوشش کی ‘جس کا نتیجاپاکستان کوبہرطوربھگتناتھا۔بلوچستان میں معدنیات اوراس کے کچھ حصے پر ہمسایہ ملک کے دعوے نے حالات کا رخ کسی اورجانب موڑ دیا۔بھارت جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر پر اپناتسلط برقراررکھناچاہتاتھا‘ایک پڑوسی ملک کے تعاون سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو فقہ وارانہ انتہاپسندی کانام دینے میں کامیاب ہوگیا۔انتہاپسندی کی اس جنگ میں پوری دنیا کے مسلمان کو اس طرح استعمال کیا گیاکہ عثمانی خلافت کے بعد اسے دنیاپر حکمرانی کے خواب دکھائے گئے اوردوسری جانب اسکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے کبھی سرورکائنات‘رحمت اللعالمین کی شان میں گستاخی کی گئی اورکبھی فلسطین ‘چیچنیا‘قبرص‘کشمیر‘یمن‘صومالیہ ‘الجزائر‘عراق‘اورشام میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں کاقتل عام کیاگیا۔اسطرح افغانستان کوایسے اندازمیں پیش کیا گیاکہ یہاں افغان وسوویت نہیں بلکہ عالم اسلام اورکفر نبردآزماہے اوراس جنگ کے بعد مسلمان دنیاپر حکمرانی کے لیئے آگے بڑھیں گے ‘جس کا نتیجایہ نکلا کہ تمام عالم ِ اسلام سے مسلمان اس جنگ میں کودپڑے۔باقی جو مسلمان جہاں تھا‘ وہ سفید فام سے قربت محسوس نہ کرسکا‘استعمار نے میڈیاکے زیراثر مسلم کو معتوب بنادیا اورپھر چند مسلم دیارِ غیرمیں بھی انتہاپسند تنظیموں کے ہاتھ استعمال ہونے لگا‘جس سے عالمی سطح پر اجاگرکرنے میں کارپوریٹ میڈیانے پوری قوت لگادی اوراسلام اورپاکستان کوبدنام کرنے میں کوئی کسرنہ اُٹھارکھی۔
استعمار نے اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کراچی میں لسانی اورمقامی ومہاجر کا جھگڑاکھڑاکیا۔خیبر پختونخواہ پہلے ہی اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے آگ میں جھلس رہاتھا۔بلوچستان میں محرومیوں کے شکارلوگوں کو مختلف این جی اوزاور غیرملکی انٹیلی جینس اداروں کے ذریعے بندوق تھمادی گئی۔پنجاب میں اہل بیت واصحاب رسول ﷺ کی گستاخیاں کرواکراسے بھی جہنم زاربنانے کی مکمل پلاننگ کی گئی‘جس کے اثرات باقی ماندہ صوبوں پربھی پڑنایقینی امرتھا۔اس سب میں پاکستان میں اقتدارکی رسہ کشی کابہت عمل دخل رہا۔سیاست دان ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی جستجومیں اصل ہدف سے ہٹتے رہے ‘جس کے نتیجے میں لاقانونیت ‘غربت‘جاہلیت اورمعاشی ناہمواری نے بہت سے قانون شکن پیداکردیئے ‘جو انتہاپسندانہ عزائم رکھنے والی تنظیموں کے سرغنے بنے اور بعد میں دولت کے ڈھیر جمع کرلینے کے بعد سیاست میں بھی اپنے کارندے پیداکرلیئے ۔اسطرح سیاسی دہشت گردی کی ایک نئی آگ پاکستان میں جنم لینے لگی۔سیاست میں موجود ان لوگوں نے بالعموم ملک اوربالخصوص پاکستان کی شہ رگ کراچی میں اپنی اپنی جماعت کے عسکری گروہ ترتیب دے لیئے۔اب یہ عناصر اتنی قوت اختیارکرچکے ہیں کہ بعض جماعتیں چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنے آپ سے الگ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔یہ لوگ بھتہ مافیا‘اغوابرائے تاوان‘منشیات‘ٹارگٹ کلنگ اورفقہ وارانہ تشددکے ذریعے اپنی مالی مشکلات کا غم غلط کرتے ہیں اورانہیں روکنے میں سیاسی مصلحتیں پاؤں کی زنجیر اورگفتارکی لگام بن چکی ہیں۔
پھر 16دسمبر 2014کاوہ تاریک ترین دن آیاجس میں معصوم طالب علموں کو ان نام نہاد مسلمانوں نے شہید کیا جواپنے زعم میں سب سے بہتر مسلمان ہیں۔بربریت ‘سفاکیت ‘اورظلم کی انتہاکی یہ مکروہ تصویر ایسی کربناک تھی کہ سیاسی قیادت کو ایک صفحہ پر آناپڑا‘یہ عمل خوش آئند تھا۔پھر آئین میں21 ترمیم کی گئی ۔ پارلیمنٹ میں موجود 247افرادکی حمایت سے اسے منظورکرلیاگیا۔اس ترمیم کی منظوری میں جماعت اسلامی اورjuif نے حصہ نہیں لیااورتحریک انصاف حکومت سے اختلافات کی بناء پر اسمبلی میں موجود نہیں تھی۔اس پر مولانافضل الرحمن نے اپنا موء قف پیش کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔دہشت گردی تو دہشت گردی ہوتی ہے‘ اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اگر لفظ مذہبی دہشت گردی استعمال کیا گیاہے تو پھر سیاسی دہشت گردی کا لفظ بھی استعمال کیا جانا چاہیئے اور سیاسی دہشت گردوں کیخلاف بھی فوجی عدالتوں میں کاروائی ہونی چاہیئے۔

اکسویں آئینی ترمیم سے1952 کے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔ان عدالتوں میں آنے والے کیسز کی کوئی اپیل نہیں ہوگی۔ان عدالتوں میں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت چلائے جائینگے لیکن ان کی منظوری یااجازت جمہوری حکومت ہی دے گی۔یہ عدالتیں دوسال تک کارگرہوں گی۔ان عدالتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم رضاربانی نے انہیں پارلیمنٹ کی موت قراردیاتھا۔جبکہ مختلف ساستدانوں نے اس پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ مخصوص حالات کی وجہ سے قائم کی گئی ہے اور ایسادنیاکے کئی ممالک میں ہوتاآیاہے۔یہاں امر قابل ذکرہے کہ جنرل کیانی کے سوات آپریشن سے لے کر ضرب عضب تک افواجِ پاکستان کی گہری دلچسپی ہی اس ناسور سے پیچھاچھڑانے کی کوششوں میں نمایاں رہی۔فوجی عدالتوں میں اول درجہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی تعیناتی کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑاہواہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق15 فروری کوصوبائی حکومتوں کی جانب سے متعلقہ ہائی کورٹس کو خط تحریرکیئے گئے تھے کہ صوبوں میں فوجی عدالتوں میں سماعت کیلئے آنے والے مقدمات کے ملزمان کے اقبالی بیانات قلمبند کرنے کیلئے جوڈیشل مجسٹریٹ تعینات کیئے جائیں تاکہ ضابطہ کے مطابق ابتدائی کاروائی کا آغاز کیا جائے۔جس کے نتیجے میں ہائیکورٹس نے جواب دیاکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی تعیناتی کا اختیار پچیس اکتوبر 2001سے ہی ڈسٹرکٹ اور سیشن ججز کو سونپ دیاگیاہے ۔اس ضمن میں متعلقہ اضلاع کے سیشن ججزسے ہی رجوع کیاجاسکتاہے۔اگر اسی رفتار سے ہماری کوششیں جاری رہیں توکہاجاسکتاہے کہ فوجی عدالتوں کی کاروائی شروع کرنے میں بہت تاخیر ہوجائے گی۔درحقیقت سیاسی زعماء کہنے کو تو ایک صفحہ پر ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض سیاست دان اکثرمواقع پر اپنی سیاسی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے ہی قدم اُٹھاتے ہیں۔

پنجاب میں اسوقت افغان بھائیوں کی تعداد169,911ہے جوکہ اس صوبہ کے تینتیس شہروں میں مقیم ہیں۔اپنے حالیہ بیان میں وزیراعلی پنجاب نے کہا ہے کہ انٹیلی جینس اداروں کو بہت جلد جدید خطوط پر استوارکرکے اس قابل بنایاجائے گاکہ ہرشہری کی نقل وحرکت پر نظررکھی جاسکے۔مزید کہا کہ انسدادِ دہشت گردی فورس کا پہلادستہ میدانِ عمل میں اُترچکاہے۔دوسرا جون اورتیسرارواں برس میں اگست کے مہینے تک اپنی تربیت کے تمام مراحل طے کرچکاہوگا۔

26جنوری کو وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف نے کراچی میں ایکسپو کی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ فتنہ پھیلانے والی تنظیموں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔بندوق صرف ریاست کے پاس ہوگی۔ملیشیاجس جگہ ہو گی نہیں چھوڑیں گے۔کراچی سے خیبر تک دہشت گردوں کا صفایاکریں گے۔ملکی برآمدات بھی پچاس ارب ڈالرز تک لے جائیں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں انتہاپسندی کے فروغ میں جہاں مختلف ممالک کی ایجنسیاں کارفرماہیں وہیں ہماراہمسایہ ملک بھارت بھی پوری آب وتاب کیساتھ اس کی سرپرستی کررہاہے۔ان باتوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وفاقی وزیرداخلہ خواجہ آصف نے بھی اعتراف کیاکہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی میں انڈیاملوث ہے اوراس پر ہمیں سخت درعمل دیناہوگا۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارافواجِ پاکستان کے ترجمان‘ڈائریکٹرجنرل جناب عاصم سلیم باجوہ بارہااس بات کا اظہارکرچکے ہیں کہ سرحدپارسے ہماراہمسایہ ٹی ٹی پی کر سرپرستی میں ملوث ہے۔

اسوقتisi کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل رضوان اختر اپنے پہلے دورہ ء امریکہ پر ہیں۔رپورٹس کے مطابق انہوں نے امریکی انتظامیہ کے حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ سی آئی اے‘امریکی محکمہ دفاع‘امریکی نیشنل سیکورٹی کے حکام سے بھی تفصیلی ملاقاتیں کیں اور نازک امور پر اورحساس معلومات کی شراکت پر مذاکرات کیئے۔اطلاعات کے مطابق انہوں نے امریکہ کو واشگاف الفاظ میں باورکروایاہے کہ ایک جانب بھارت سرحدی اشتعال انگیزی کے ذریعے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کررہاہے تودوسری جانب افغانستان میں موجود اپنے کارندوں کے ذریعے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی کررہاہے۔اطلاعات کے مطابق انہوں نے کچھ شواہد بھی امریکی حکام کو پیش کیئے ہیں۔امریکی اداروں پر اس بات کو واضح کیاکہ پاک افغان تعاون سے انتہاپسندوں کے حوصلے پست ہورہے ہیں اوردونوں ممالک کے درمیان اچھاماحول پیداہورہاہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ پاک افغان انٹیلی جینس شیئرنگ کو مزید بڑھاکردہشت گردی کیخلاف موئثراورزیادہ کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ان کے سا تھ انسد دادِ دہشت گردی کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل طارق قدوس بھی امریکی دورے پر ہیں ۔جواس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کایہ دورہ انسدادِ دہشت گردی اور اس سلسلے میں انٹیلی جینس اشتراک اورباہمی تعاون پر مشتمل ہے۔

پاک فوج کے ترجمان کے مطابق جمعرات کو پاک فوج کے چیف جنرل راحیل شریف نے سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کادورہ کیااوربھارتی اشتعال انگیزی سے متاثر افراد کی حوصلہ افزائی کی۔انہوں نے کہا کہ بھارت مسلسل ورکنگ باؤنڈری اور کنڑول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کررہاہے‘جس کا مقصد علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانااورپاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ کی راہ میں روڑے اٹکاناہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے سرحدوں کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔انہوں نے متاثرہ گاؤں کے اہل وطن کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ پوری پاکستانی قوم وطن کے دفاع کیلئے افواجِ پاکستان کیساتھ کھڑی ہے۔

سینٹ کا قائمہ کمیٹی کو نادراکی جانب سے بتایاگیاکہ70161 غیرملکیوں کو پاکستان میں میں رہائش کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے دستاویزات فراہم کی گئیں۔ان میں بنگلہ دیش‘ایران‘عراق‘وسطی ایشیااورافریقہ کے ممالک شامل ہیں۔تاہم افغان مہاجرین اس میں شامل نہیں۔اجلاس میں بتائے گئے نادراحکام کے اعدادوشمار کے مطابق اسوقت ملک کے طول وعرض میں 320000 سے زائد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں ۔جن میں کم وبیش 16 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان شامل ہیں۔سہ فریقی معاہدے کے مطابق اکتیس دسمبر 2015تک افغان مہاجرین اپنے ملک واپس لوٹ جائیں گے۔کمیٹی نے عروس البلاد کراچی اوراسکے گردونواح میں پھیلے افغان مہاجرین کی نقل وحمل پر کڑی نظررکھنے اورانکی سرگرمیاں محدودکرنے کی ہدایت بھی جاری کی۔

اگر عالمی سطح پر دہشت گردی کو دیکھاجائے تو کہنے کو توفرانس میں دنیاکے سرکردہ رہنماؤں نے عالمی امن واک کی لیکن اس ملک میں دنیاکے دوسرے بڑے مذہب کے بانی سرورکائنات ‘حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی۔پھر چارلی ہیبڈو پر حملہ ہوا‘جسے ایک فرانسیسی سیاستدان نے بھی مشکوک قراردیتے ہوئے اسے مسلمانوں سے جوڑنے کی مذمت کی۔پوری دنیاکے مسلمان سراپااحتجاج بن گئے اورامریکہ ویورپ نے اسے اظہار رائے کی آزادی قراردے کر اسکی حمایت کی۔کیتھولک دنیاکے پوپ بھی اس گستاخی پر سراپااحتجاج بن گئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ایک طرف تو امریکااپنے سیکورٹی اداروں کے مظالم کو فاش کرنے والے اپنے اہلکاروں کیخلاف کروائی کرتاہے تودوسری جانب رسالت ماب ﷺ کے گستاخوں کوآزادی ء اظہاررائے کاتمغہ عنایت کرکے کھلی چھٹی دے دیتاہے ؟کیا یہ دوہرا معیار نہیں۔ صدر اوباما کہتے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ اسلام کیخلاف نہیں لیکن دوسری ہی سانس میں کہہ جاتے ہیں کہ یہ ان عناصر کیخلاف ہے جو مذہب کا نام استعمال کرنے والے مسلمان ہیں۔دنیاآج تک القاعدہ کے بانی کو تلاش کررہی ہے کہ اسکے پیچھے کس کاہاتھ کارفرماتھا۔ اب داعش منصہ شہودپرآئی ہے توپاکستان کے بڑے تجزیہ نگااوربعض عالمی امورپرنظررکھنے والے غیرملکی دانشورراسے بھی مشکوک قراردے رہے ہیں۔امریکہ بھارت جیسے ملک کو جہاں وی ایچ پی اورآرایس ایس جیسی تنظیمیں مکمل طورپرفعال ہیں اسکو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کرنے کا اظہارکرتاہے اورپاکستان پر توجہ ہی نہیں دیتا۔یہ سب پاکستانی سیاست دانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ ذاتی اختلافات بھلاکراب ملک کو ترقی کی جانب لے کر چلناہوگا۔تب ہی انتہاپسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجاسکے گا۔بھارت 1ارب 30کروڑ آبادی کے ساتھ امریکی مصنوعات کاگڑھ بن سکتاہے ‘جس کی وجہ سے امریکہ اس کی جانب کھنچاچلاآرہاہے ۔امریکی صدرنے اپنے دورہ ء بھارت میں ہندوستان کو سیکولر ریاست کی حیثیت سے اقلیتوں کے حقوق اورپاکستان سے تعلقات کی بہتری کا عندیہ دیاتھا۔جس پرنریندر مودی صاحب نے میاں نوازشریف کو کال کرکے بتایاکہ بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکرپاکستان کا دورہ کریں گے اورکشمیر سمیت تمام ایشوز پربھارت بات چیت کیلئے تیارہے۔اس ضمن میں دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کاکہناہے کہ ایس جے شنکر اپنے دورے کے دوران پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری کے ساتھ ملاقات کریں گے اوردوطرفہ امور پر بات ہوگی جس میں ورکنگ باؤنڈری‘کشمیر ‘سرکریک‘سیاچین‘پانی تجارت اورعوامی سطح پررابطوں کے فروغ پر بات چیت ہوگی۔اس دورے کو پاکستان میں مختلف زاویوں سے دیکھا جارہاہے جو کہ سارک ممالک کے دورے میں شامل ہے۔ہاں یہ بات قابل غورہے کہ بھارت نے کشمیر کے ایشوپر بات چیت کا کہاہے لیکن کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح اس نے ایسا دنیاپر اپنی مبینہ اقلیتی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کیاہے۔جبکہ کچھ حلقے اسے مثبت اقدام قراردیتے ہوئے خطے میں امن کی جانب بڑھتاہواقدم قراردے رہے ہیں۔

بھارت اگر مثبت قدم اُٹھاتاہے تو اس سے خطے میں پائیدارامن قائم ہوسکتاہے۔سابق جنرل پرویزمشرف نے کچھ دنوں پہلے بیان دیاتھاکہisi اور راکے درمیان موجود جمود کو توڑکراعتمادبحال کرنے سے خطے میں امن کی بحال میں مددملے گی۔

پاکستان کے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو رات دن ایک کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکلناہوگا۔بھارت جو اپنے دفاعی اخراجات پر سات ارب ڈالر خرچ کردیتاہے اگر بغورجائزہ لے تو وہ دنیاکی آبادی کا پانچواں حصہ اپنے ملک میں پائے گا۔جو غربت اورکسمپرسی میں مبتلاہے ۔اگر پاکستان وبھارت اس ضمن میں تعاون کریں تودفاعی اخراجات میں کمی لاکراسے اپنے شہریوں کی معاشی وسماجی حالت بہتربنانے میں صرف کرسکتے ہیں۔کشمیر کے ایشوکوہرصورت میں حل کیاجائے اوراس میں عالمی برادری کو تعاون کرنے کیلئے سفارتی سطح پر تیل سے مالامال اسلامی ممالک کو کرداراداکرنے کی جانب راغب کیاجائے۔جب تک مسئلہ کشمیر باقی رہے گا دونوں ممالک پیچ وتاب کھاتے رہیں گے ۔

اکیسویں ترمیم کے بعد مذہبی جماعتیں حکومت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں ۔ حکومت اگرچاہتی ہے کہ ریاست میں دیرپااورپائیدارامن قائم ہو تو اسے بااثر مذہبی جماعتوں کو مطمئن کرناہوگا۔اسی سلسلے میں وزیرداخلہ چوہدری نثارنے کہاہے کہ نوے فیصدمدرسے دہشت گردی سے پاک ہیں ۔سات فیصد کا انتہاپسندی میں ملوث ہونے کاشبہ ہے ۔مدارس دین اسلام کی ترقی وترویج کاذریعہ ہیں لیکن علماء کو بھی حکومتی ارکان کا ساتھ دیتے ہوئے مدارس میں عصری علوم کو فروغ دیناہوگا تاکہ مدرسے سے فارغ التحصیل طالب علم کو معاشی مشکلات سے نجات مل سکے اوروہ انتہاپسندی کانرم چارہ بننے سے محفوظ رہیں۔جس طرح ایک بیانیہ کے ذریعے پاکستان نے افغان وار لڑی تھی ‘اسی طرح اب وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف صاحب کو عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے ایک نیا بیانیہ دینے کی ضرورت ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صدربش کے الفاظ ’’کروسیڈ‘‘کے بعد کم وبیش ہر مسلمان دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اسلام کے خلاف جنگ گردانتاہے۔ہر مسلم کسی نہ کسی انداز میں اپنی محرومیت اوراپنے اوپر ہونے والے مظالم کا مجرم عالمی طاقتوں کو سمجھتاہے ۔اسوقت پاکستان میں خصوصی طورپر اگرچل پھر کر دیکھا جائے تومحض مدارس ہی نہیں جدید تعلیمی اداروں کے طالب علم بھی انتہاپسندی سے متاثرہیں۔کیا ان سب کو محض بندوق کے ذریعے ختم کیا جاسکے گا؟سانحہ پشاورکے بعد سانحہ شکارپوراورسانحہ حیات باد نے واضح کردیاہے کہ یہ جنگ طویل ہوگی۔حال ہی میں ٹی ٹی پی اورلشکرِ جھنگوی کے درمیان تعاون کی بازگشت ملکی میڈیا میں گردش کررہی ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پولیس کو جدید خطوط پر منظم کرتے ہوئے اسے سیاسی مداخلت سے پاک کیاجائے۔۔دہشت گردی اوربدعنوانی کیخلاف اچھی کارکردگی اورمفیدمعلومات لانے والے پولیس رکن کیلئے مخصوص پیکج کااعلان کیاجائے۔ملک میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اہل بیت رسول ﷺ اور اصحاب رسول کے گستاخوں کی سزامقررکی جائے تاکہ کوئی کسی کے جذبات سے نہ کھیل سکے۔افغان بھائیوں کی وطن واپسی کیلئے عوامی سطح پر تعاون حاصل کیاجائے ۔جنرل پرویز مشرف کے دیئے گئے فارمولے کوپھر سے بحال کرکے افغان حکام کے سامنے رکھاجائے جس میں پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کامشورہ دیاگیاتھا‘اسطرح پاکستان وافغانستان میں مداخلت کے مواقع بہت محدودہوجائیں گے۔شرح خواندگی میں اضافے کیلئے ملک کے صاحب ثروت سیاست دانوں کو مفت تعلیم کیلئے اقدامات اٹھاناہوں گے وگرنہ یہ آگ ان کے گھر بھی پہنچ سکتی ہے۔نیز تمام مسلم ممالک کو مل کر اہل مغرب سے توہین ِ رسالت جیسے حساس موضوع پر بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کرناہوگا۔

سائیڈ سٹوریز
حکومت اپنے موء قف کیلئے انتھک کوششوں کے ساتھ ملک کے طول وعرض میں علماء کی مدد سے انتہاپسندی کیخلاف ایک قومی محاذ تیارکرے ‘اسکے لیئے لازم ہے کہ حکومت کے ارکان کو بھی ایسانظرآناچاہیئے کہ ایک عام مسلمان انہیں طالبان سے زیادہ شعائر اسلام کا پابندسمجھے۔

دہشت گردی کیخلاف حقیقت کو سمجھنے کیلئے سانحہ مشرقی پاکستان پر نظر دوڑاناہوگی۔کیاوہاں کے نصاب میں مغربی پاکستان کو غاصب قراردیاگیاتھا؟یقینا نہیں۔توپھریہ کیسے ہوا‘جناب عالی وہاں موجودمتعصب ہندواساتذہ نے نصاب سے ہٹ کر طلباء کی ذہن سازی کی اورایساماحول دیاکہ جب وہ درسگاہ سے نکلے تومکتی باہنی جیسی تنظیم انہیں اپنے خوابوں کی تعبیرنظرآئی ۔یہی کام سیاسی جماعتوں نے کیااورعام کارکنان نے بندوق تھام لی حالانکہ اسوقت تک مشرقی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے تحریری منشورمیں علحیدگی یاانتہاپسندی کادخل نہ تھا۔

گزشتہ روزمودی نے پارلیمنٹ میں پہلی باراپنے اوپر لگنے والے فقہ واریت کاجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماراایک ہی مذہب کے انڈیا فرسٹ۔اپوزیشن پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہاکہ میں نے 27اکتوبر2013کوپٹنہ کے گاندھی میدان کی ریلی کے درمیان میں نے کیا کہا تھاکہ ہندو اورمسلم کو ایک دوسرے سے نہیں ‘غیریبی سے لڑناہے۔بظاہردیکھاجائے تو یہ جنوبی ایشیاکی تاریخ میں ایک اچھاموڑآیاہے لیکن آگے چل کر خلوص نیت کا پتہ چلے گا۔

جبکہ بلوچستان میں قیام ِ امن کیلئے وہاں نظام ِ تعلیم کو بہترکرنے کیساتھ ساتھ وہاں کی محرومیاں دورکرناہوں گی۔میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے ایک بلوچی طالب علم سے ملااور اُس سے عوامی رائے پوچھی تو اس نے کہا بلوچستان کے لوگوں کی وہی رائے ہوتی ہے جوان کے سرداروں کی ہوتی ہے ‘وہاں دوردراز علاقوں میں تعلیم نام کو نہیں ‘پھر اُدھر کے باسی کیسے کسی مسئلے پر کھلی رائے دے سکتے ہیں ۔وفاق کو ڈائریکٹ بلوچستان کے شہریوں سے رابطہ رکھ کر انکی معاشی وسماجی الجھنیں دورکرناہوں گی۔
سندھ میں قوم پرستوں اورلسانیت کیخلاف بھرپورعوامی تحریک چلاکراسے عوامی سطح پر ہی مات دیناہوگی۔نیز کراچی میں مقامی ومہاجرکی پہچان یا اس امرپر طنروتشنیع کو قابلِ گرفت بناناہوگا۔تمام پارٹیز کے سیاسی ونگز کو ختم کرنے کیلئے وفاق کو حکمت عملی اورصوبہ کی جماعتوں کو دریادلی کاثبوت فراہم کرناہوگا۔قومی ایکشن پلان اورکراچی آپریشن اس صوبہ میں تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب وہاں کی مقتدر قوتیں اس پر عمل کرنے میں خلوصِ نیت سے کام لیں-

سرمایہ ہمیشہ ادھر ہی کا رُخ کرتاہے جہاں راوی سکھ وچین کی بانسری بجارہاہو۔دہشت گردی ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے ۔غیرملکی سرمایہ کار تو درکنار اپنی ہی سرمایہ دار شہری دوسرے ملکوں کو سدھارگئے۔سانحہ بلدیہ ٹاؤں کے بعد اسکے مالکان پردیس چلے گئے ۔کیا کسی نے نوٹس لیا کہ وہ کیوں گئے؟وجوہات؟

نومبر میں افغان طالبان کادورء چین اس بات کا بین ثبوت ہے کہ طالبان افغانستان میں اثرورسوخ رکھتے ہیں اورعالمی منظرنامے پر چین بھی اس خطے میں اپنی قوت اورسفارتی انداز کا مظاہرہ کررہاہے۔حال ہی میں طالبان نے پاکستان کے ذریعے افغان حکومت سے مذاکرات کی حامی بھری ہے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کم وبیش ہرجھگڑے کو بالاآخر مکالمات کی میز پر آناہی پڑتاہے۔

بنوں ‘پشاور‘کراچی ‘ملتان کے بعد اب گزشتہ روز اسلام آباد میں بھی چند شرپسند عناصر نے داعش کے حق میں وال چاکنگ کی۔حکومت کو چاہیئے کہ بروقت اقدام کرے اس سے پہلے کہ داعش یہاں کے معصوم لوگوں کیلئے کوئی قابل ِ قبول وپرکشش چارٹرپیش کرے اس کیخلاف بھرپورمہم چلاکراسکے یہاں پنپنے کے تمام موہوم سے امکانات کو بھی ختم کردیاجائے۔

ایک رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین کو 40ہزارکے قریب قومی شناختی کارڈ جاری کیئے گئے۔جس کی نشاندہی محب ِ وطن فوج کی ایک شاخ isiنے کی اور29ملوث اہلکاروں کے نام دیئے گئے‘جن کومعلوم نہیں کب ‘کہاں اورکتنی سزادی گئی؟
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.