گزشتہ صدی میں روس کے ٹوٹنے پر
خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے۔عالمی ذرائع ابلاغ نے فتح کے ترانے گائے تھے
۔امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے اختتام پر یہ تاثر بھر پور طور پر پیش کیا
گیا تھاکہ اب دنیا میں امن کا بول بالا ہو گا۔عام خیال یہی تھا سرد جنگ کی
بدولت مختلف ممالک میں ایٹمی قوت بننے کی خواہش میں شدت پیدا ہوئی ہے اور
اسلحے کی دوڑ میں اضافہ ہوا ہے ۔امریکہ کے تنہا عالمی سپر پاور بننے پر اس
خیال کو تقویت ملی تھی کہ اب دنیا کے ممالک اور حکومتیں اپنا سرمایہ سامانِ
حرب پر خرچ کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور بہبود پر خرچ کریں گے۔دنیا امن کی
منزل کی طرف رواں دواں ہو گی اور انسانیت کو سکون میسر آئے گا۔دنیا پر
امریکہ کی تنہا اجارہ داری قائم ہونے کے بعد کم و بیش دس سال کا عرصہ ہی
قدرے سکون سے گزرا تھا کہ 9/11کا واقعہ رونما ہو گیا پھر اس کے بعد دنیا کے
کئی ممالک ایک کے بعد ایک کر کے جنگ یا خانہ جنگی کا شکار ہوتے چلے گئے ۔عراق،افغانستان،پاکستان،شام
،مصر،لیبیا اور کچھ افریقی ممالک شدت اور تسلسل کے ساتھ اس کا شکار ہوتے
گئے ۔یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ مسلمان ممالک ہی اس بد امنی کا شکار ہو
رہے ہیں ۔روس کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے لیے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے
واسطے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنابہت ضروری تھا ۔اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی
مرضی کے میدان جنگ سجائے۔عراق کے بعد افغانستان اس کے پسندیدہ میدان حرب
رہے یہ سلسلہ اب بھی مختلف جگہوں اور شکلوں کے ساتھ جاری ہے۔امریکہ نے
بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کچھ گروپ ایسے بھی بنارکھے ہیں کہ جن کے خلاف
کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ جنگی کاروائی کا جواز پیدا
کیاجاسکے۔القائدہ،طالبان،بوکوحرام اور داعش سمیت کئی ایک مسلح تنظیمیں
مختلف ممالک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں ۔یہ ممالک ان تنظیموں سے
نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا کثیر سرمایہ اپنی حفاظت اور سامانِ حرب اکٹھا
کرنے پر صرف کر رہے ہیں ۔
اگر گزشتہ چھ سالوں کی عالمی تجارت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ دفاعی تجارت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔صرف 2014میں64.4ارب ڈالر کی
تجارت ہوئی۔آئی ایچ ایس عالمی منڈی اور معیشت کے بارے میں تحقیق کرنے والی
ایک معتبر کمپنی ہے اس نے اپنے جائزے میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب گزشتہ
برس اسلحے کا سب سے بڑا خرید دار رہا ہے ۔اس کمپنی کے مطابق اس اسلحے کی
تجارت میں ریکارڈ اضافے کی وجہ دنیا میں فوجی طیاروں کی مانگ میں اضافہ
اورمشرق وسطیٰ اور ایشیائی بحر الکاہل میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے ۔گزشتہ دو
سالوں سے اسلحے کی فروخت میں امریکہ پہلے نمبر پر رہا جبکہ اس کے بعد روس ،
فرانس،برطانیہ اور جرمنی کا نمبر رہا ۔آئی ایچ ایس کی رپورٹ کے مطابق سعودی
عرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اسلحے کے سب سے بڑے خریدار ہیں اور ان ممالک
کو اسلحہ فروخت کرنے ولا سب سے بڑا ملک امریکہ ہی ہے اورصرف امریکہ نے
2013میں 6ارب ڈالر اور 2014میں 8.04ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے باقی
یورپی ممالک کی تجارت اس کے علاوہ ہے۔یہاں ان رقوم کا ذکر نہیں ہے جو یہ
ممالک چھوٹے ہتھیار خریدنے اور اپنی سلامتی کو محفوظ بنانے کے نظام کو بہتر
بنانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس اتحاد کا حصہ ہیں جس کا سربراہ امریکہ
ہے اس اتحاد کا مقصد داعش کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مشترکہ جدوجہد
کرنا ہے ۔دیگر ممالک بھی اپنی اپنی سلامتی کی خاطر دھڑا دھڑ اسلحہ خرید رہے
ہیں اور یوں دن بدن اسلحے کی تجارت زور پکڑتی جا رہی ہے اور یہ ایک منافع
بخش کاروبار کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔مہذب دنیا کو اس طرف توجہ
دینا ہو گی ۔جو ممالک اسلحے کی تجارت میں بہت آگے ہیں اور یہ اب ان کا
منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ان کی عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت
ہے۔یہ ممالک اور اسلحے کے سرمایہ دار اپنے نفع کے لیے عالمی امن کو داؤ پر
لگائے ہوئے ہیں ۔اسلامی ملکوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہو گا اور کوئی لائحہ
عمل ترتیب دینا ہو گا۔امریکہ اور یورپ کی مخصوص عالمی سیاست کو سمجھنا ہو
گا۔اسلحے کی اس تجارت اور کاروبار میں اسلامی دنیا کی افرادی قوت بھی ضائع
ہو رہی ہے اور سرمایہ بھی برباد ہو رہا ہے۔اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج
انتہائی متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور اسے امہ کے ان مسائل سے نبرد آزماء
ہونے کے لیے بااثر کردار ادا کرنا ہو گااور ان سازشوں کو بے نقاب کرنا ہو
گا جو امہ کے خلاف ہو رہی ہیں - |