ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
کیا2035تک ہندوستان میں ہندوؤں کی تعداد کم ہوجائے گی اور مسلمان اکثریت
میں آجائیں گے۔گوگل پر سرچ کریں تو ایسی بہت سی ریسرچ سامنے آتی ہیں جو
بتاتی ہیں کہ 2035تک ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 92.5کروڑ ہوجائے گی
اور ہندو90.2کروڑ رہ جائیں گے ۔ 2040تک ملک میں ہندوتہوار منانے بند کر
دیئے جائیں گے اور 2050تک ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کروایا جائے
گا اور قتل عام کیا جائے گا اور تب مسلمانوں کی تعداد 189کروڑ ہوجائے گی
اور ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا۔
گزشتہ کئی سالوں سے آر ایس ایس یہ پروپیگنڈہ ہینڈ بل وانٹر نیٹ اور دیگر
ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل کررہا ہے ۔ اکتوبر 2013میں کوچی میں منعقدہ
آرایس ایس قومی ورکنگ کمیٹی میں سنگھ کے جوائنٹ سیکریٹری دتارے ہوس بالے نے
کھلے طور پر یہ اپیل کی کہ ہندو کم از کم تین بچے ضرور پیدا کریں۔ حالیہ
ایام میں اسی قسم کی اپیل بی جے پی ایم پی ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی
نے بھی کی ہے۔ وشو ہند پریشد کے پچاسویں یوم تاسیس کی تقریب منعقدہ بریلی
میں ۔ پریشد کے لیڈر پروین تو گڑیا نے کہا ہے کہ ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا
کرنے کی تلقین پر اس قدر شور شرابے کی کیا ضرورت ہے جب مسلمان زیادہ بچے
پیدا کرتے ہیں اور چا رشادیاں کر کے 10-10بچے پیدا کرتے ہیں تب کوئی واویلا
نہیں مچایا جاتا ۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ملک میں قانون بنایا جائے کہ
ایک حد سے زائد بچے کوئی نہیں پید ا کرے گا۔بدریکا آشرم بدری ناتھ کے
شنکرآچایہ داسدیوسر سوتی نے ایک قدم اور آگے بڑھ کے ہندو عورتوں سے اپیل کی
ہے کہ وہ کم از کم دس بچے پیدا کریں تاکہ ہندو قوم تعداد کے اعتبار سے
محفوظ رہے ۔ اس معاملے میں بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واقعی
مسلمان عالمی سطح پر دانستہ طور پر زیادہ بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں
؟ کیا واقعی سب مسلمانوں کی چار بیویاں ہوتی ہیں؟ کیا واقعی مسلمان عورتوں
کے دس دس بچے ہوتے ہیں؟ کیا تعدد ازدواج کی وجہ سے ہی مسلمانوں میں شرح نمو
زیادہ ہے؟ کیا مسلم ضبط تولید کے طریقے استعمال نہیں کرتے اور کیا وہ اسے
خلاف اسلام سمجھتے ہیں؟ کیا واقعی مسلمانوں کی تعداد مستقبل میں ہندوؤں سے
زیادہ ہوجائے گی اور کیا ملک کبھی مسلم ملک بن سکتا ہے ؟
مزے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کا پروپیگنڈہ صرف بھار ت میں ہی نہیں کیا جارہا
بلکہ یورپ کے بھی کچھ حصے اسی قسم کے خوف کا شکار ہیں ۔ ان کاماننا ہے کہ
جس طرح مسلمان تیز ی کے ساتھ ساری دنیا میں بڑھ رہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے
کہ ایک دن یورپ بھی یوروعربیا میں تبدیل ہوجائے گا۔ آئیے اب تجزیہ کریں کہ
ان مفروضوں میں کتنی حقیقت ہے۔ مردم شماری 2011کی رپورٹ جلد ہی منظر عام پر
آنے والی ہے۔ رپورٹ گذشتہ سال ہی تیار ہوچکی تھی مگر سابقہ یوپی اے سرکار
نے اسے شائع کرنے سے روک دیا تھا کہ آئندہ 2014لو ک سبھاانتخابات پر وہ ایک
ایشوع نہ بن جائے ۔ موجودہ حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ جلد ہی وہ اس رپورٹ کو
عام کردے گی ۔مگر ہنوز اس کا انتظار ہے ۔ لیکن چند ذرائع سے یہ رپورٹ لیک
ہوچکی ہے اور اسے شائع بھی کیا جاچکا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مردم شماری
2001میں 13.4فیصد مسلم آبادی کے مقابلے 2011میں یہ بڑھ کر 14.29ہوگئی ہے
اور پہلی مرتبہ ہندو آباد ی کم ہوکر 81فیصد کے نچے آگئی ہے ۔ 1961میں ملک
کے اندر مسلمانوں کی آبادی 10.7فیصد تھی جب کہ ہندوؤں کی آبادی 83.4فیصد
تھی ۔ 2001میں ہندوؤں کی یہ آبادی کم ہوکر 80.5فیصد رہ گئی تھی دراصل مردم
شماری کے یہی وہ اعداد وشمار ہیں جنہوں نے سخت گیر ہندو عناصر کو خوف میں
مبتلا کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کرنے کا بہانہ فراہم
کردیا ہے ۔ لیکن یہ بالکل سچ نہیں ہے ۔ اس کہانی کا ایک دوسرارخ بھی ہے
گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کی شرح نمو میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ مثلاً
1991-2001میں مسلمانوں کی شرح نمو 29فیصد تھی جواب 2001-2011میں کم ہوکر
24فیصد رہ گئی ہے۔ حالانکہ یہ قومی شرح نموکے 18فیصد تناسب کے مقابلے ابھی
بھی زیادہ ہے لیکن اگر بنظر غائر مسلمانوں کی شرح نموکا جائزہ لیا جائے تو
بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں مسلمانوں نے چھوٹی فیملی
رکھنے کے طریقے کو تیزی کے ساتھ اپنایا ہے۔
مسلمانوں میں جیسے جیسے تعلیم عام ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے کنبے کا سائز
چھوٹا ہوتا جارہاہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے ذریعے جمع کئے گئے اعداد و شمار سخت گیر ہندؤوں
کے اس پروپیگنڈہ کی ہوانکال دینے کے لئے کافی ہیں ۔ اس تنظیم نے 1991-92کے
1998-99اور 2005-06میں تین سروے کروائے جس سے مسلمانوں میں افزائش نسل میں
کمی اور ضبط حمل کے بیشتر طریقوں کے استعمال میں اضافے کا علم ہوتا ہے ۔
کچھ اعدادو شمار حسب ذیل ہیں۔
ہندو اور مسلمانوں میں کل افزائش نسل کا تناسب
2005-06 ------- 1998-99 ------ 1991-92
2.59 ------ 2.78 ------ 3.3 ہندو
3.4 ------ 3.59 ------- 4.41 مسلمان
مذکورہ بالا جدول سے صاف ظاہرہے کہ گذشتہ ہر سال میں مسلم خواتین کی شرح
افزائش میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
مذکورہ جدول کو بہ آسانی اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً 1991-92میں
اگر ہندو عورت کا شرح افزائش 3.3تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ0 100ہندو
عورتوں نے 330بچوں کو جنم دیا جب کہ اسی سال 1000مسلم عورتوں نے 441بچوں کو
جنم دیا ۔ ہندو اور مسلم عوتوں کے شرح نمو میں اس سال 111بچوں کا فرق تھا
لیکن بعد کے سالوں میں 1998-1999میں ایک ہزار ہندو عوتوں نے 278بچوں کو جنم
دیا تو اسی سال مسلم عورتوں نے 359بچوں کو جنم دیا یعنی محض 81بچوں کا
فرق۔2005-2006میں بھی اسی طرح 1000ہندوں عورتوں 259بچوں جنم دیا تو ایک
ہزارا مسلم عورتوں نے340بچوں کو جنم دیا۔ یعنی پھر محض 81بچوں کا فرق۔ ان
اعداد و شمار سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں کہ ایک تویہ کہ 1991سے 2006تک مسلم
عورتوں کی کل شرح افزائش میں مستقل کمی واقع ہورہی ہے ۔ اور غور سے دیکھیں
تو ہندو اور مسلم عورتوں کی شرح افزائش برابر ہی ہے ۔ دوسرے یہ کہ مسلم
خواتین ہندو خواتین کے مقابلے محض ایک ہی بچہ زیادہ پیدا کررہی ہیں۔ اس سے
صاف ظاہر ہوتا کہ یہ مفروضہ سرے سے غلط ہے کہ مسلم خواتین 10بچے پیدا کرتی
ہیں۔ اس کے برعکس وہ محض 3.5بچے ہی پیدا کررہی ہیں اورظاہر ہے کہ اگر شرح
نمو میں مستقل گراوٹ آرہی ہے تو 2005-06میں اگر یہ 3.4تھا تو اب 10سال کے
بعد اس میں مزید کمی واقع ہوچکی ہوگی ۔ ہاں البتہ یہ بات صحیح کہ مسلم
خواتین کی شرح نمو ہندو خواتین کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہے اور اس کی وجہ
بھی NFHSنے اپنی سروے رپورٹ میں شائع کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ملک کے تمام
غریب اور ناخواندہ طبقات میں خواتین کا شرح افزائش زیادہ ہے اور جیسے جیسے
ان طبقات میں تعلیم اور خوشحالی میں اضافہ ہوتا رہتاہے ویسے ویسے شرح
افزائش میں بھی کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ سخت گیر ہندو عناصر کسی
تحقیق و تجزیے کے بناجو واویلا مچا رہے ہیں وہ محض ان کی مسلم دشمنی کا
مظہر ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کسی بھی زاویے سے اگلے 20سالوں
میں مسلمانوں کی آبادی 85کروڑ نہیں ہوسکتی ۔ اور نہ ہی تعداد کے اعتبار سے
ہندوستان کبھی مسلم ملک بن سکتا ہے گزشتہ 900سال میں بھی نہیں بن سکا تو
آئندہ 20سال بعد کیسے بنے گا۔ بھولے بھالے ہندوؤں کو بے وقوف بناکر
مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی غرض سے اس قسم کی جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں
۔ لیکن مسلمانوں کو بھی اپنے پاس جواب حاضر اور درست رکھنے کی ضرورت ہے۔ |