ادا جعفری ہم سے بچھڑ گئیں

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہوجانا

یہ خوبصورت شعر ہے ادا جعفری کا ہے جو آج پوری دنیا میں اپنے لاکھوں مداح چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں میں نے ادا جعفری کی سوانح عمری پڑھی اور ایک مرتبہ ان سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا بہت شائستہ اور دھیمہ لہجہ ہر لفظ کی ادائیگی کے ساتھ مسکراہٹ اور شفقت کی آمیزش نظر آتی تھی ایک ہی ملاقات میں اندازہ ہوا کہ گفتگو کرنے سے پہلے خوبصورت الفاظ کا چناؤ بھی ایک فن ہے ۔

22 اگست 1924کو بدایوں میں پیدا ہونے والی عزیز جہاں 1947 میں نورالحسن جعفری سے شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں اور شہرت کی منزلیں تیزی سے عبور کرتی رہیں ادا جعفری حرف شناسائی میں کمال رکھتی تھیں ادا جعفری کی شخصیت میں کتابوں ، بچوں، مناظر قدرت ، مظاہرے فطرت محبت اور قربت کا احساس بچپن سے ہی شامل رہا بچپن سے ہی ڈائری لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور ڈائری کو ایک اچھا راز داں دوست کہا کرتی تھیں کاش ان کی ڈائریاں آج اگر ہماری دسترس میں ہوتیں تو ہمیں اندازہ ہوتا کہ انھوں نے کن کن احساسات اور جذبات سے گزر کے عزیز جہاں سے ادا جعفری تک کا سفر مکمل کیا لیکن ان کے ابتدائی دور کا یہ اثاثہ 1947 کے فسادات میں کہیں گم ہوگیا اور یوں ان کے ابتدائی مراحل سے شناسائی کا ایک در بند ہوگیا جو تمام عمر کی کوششوں کے بعد بھی انھیں خود میسر نا آسکا ،1968 میں شعری مجموعہ پر انھیں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ادا جعفری نے 1995 میں \" جو رہی سو بے خبری رہی \" کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھی ، ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ۔پاکستان اکیڈمی آف لیٹر کی جانب سے بابائے اردو ایوارڈ سے نوازا گیا ۔نئی نسل اور نوجوانوں کے لیئے بہت سے اشعار کہے۔
میری آغوش میں ہمکتا ہوا چاند فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین آنے والے زمانے کی تقدیر ہے

ادا جعفری کی بہترین تصانیف میں سے چند \" میں ساز ڈھونڈتی رہی، شہر درد، ساز سخن بہانہ ہے، موسم موسم اور جو رہی سو بے خبر رہی بہت مقبول ہیں ۔ استاد امانت علی خان کی آواز میں گائے ہوئے مشہور کلام \" ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے \" ادا جعفری کی وہ تخلیق ہے جو آج ابھی بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں سنی جارہی ہوگی ، ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن بائیکو پر بھی تبہ آزمائی کی اور ان کی بائیکو کا مجموعہ ساز سخن شائع ہوچکا ہے ۔

ادا جعفری کی خوبصورت شاعری کا ایک انداز

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
جلنا تو خیر چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سر شام ہی ڈوبے
ہنگام سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں
اک شمع بجھائی تو کئی اور جلالیں
ہم گردش دوراں سے بڑی چال چلیں ہیں

ادا جعفری ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہینگی ان کی تصنیفات ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہینگی
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167637 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More