سمرقند کے قاضی عبدالسلام جب
کابل تشریف لائے تو ان کے ہاں 1563میں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام رضی
الدین محمد باقی رکھا گیا ۔قاضی عبدالسلام متقی وپرہیز گار ہونے کے ساتھ
ساتھ کمال درجے تک پہنچے ہوئے عالم وفاضل تھے۔
قاضی عبدالسلام جب اپنے بیٹے کے چہرے کی جانب دیکھتے تو ان کی نگاہیں اپنے
معصوم لختِ جگر کی پیشانی پر آکر رک جاتیں‘جس میں سے نورکی شعایں ابھررہی
ہوتیں۔اپنے بیٹے کے حالات دیکھ کر قاضی صاحب اپنی زوجہ کو مخاطب کر کے کہتے
کہ’’زوجہ!معلوم نہیں کیوں مجھے ایسا لگتاہے گویا میرے گھر میں خورشیداتر
آیاہے اورآئندہ اس کی توانائی اور روشنی سے ایک زمانہ مستفید ہوگا۔‘‘یہ سن
کر خواجہ باقی کی والدہ بھی خاوند کی تائید کرتے ہوئے دعا کرتیں کہ خدا
میرے مجازی خدا کی زبان مبارک کرے۔پانچ سال کی عمر میں خواجہ باقی کابل کی
مشہور درسگاہ خواجہ سعد کے مکتب میں داخل ہوئے۔حفظِ قرآن کے مراحل طے کرتے
ہوئے دس سال کی عمر میں عربی سیکھنا شروع کی۔اسکے بعد اپنے زمانے کی ایک
مشہور عالم وفاضل ہستی مولانا صادق حلوائی کی تربیت میں رہنے لگے۔پھر استاد
کے ہمراہ ماورالنہرکی جانب رخت سفر باندھا اور وہاں جا کر بھی علم کی پیاس
بجھاتے رہے ۔اپنی عمر کی تیس بہاریں دیکھنے کے بعد خواجہ محمد باقی اپنے
وقت کے مشہور علماء میں شمار ہونے لگے۔
آپ ہی وہ ہستی ہیں جو حضرت مجددالف ثانی کے مرشد ہیں۔تحصیل علم کے بعد آپ
نے مرشدِ کامل کی تلاش میں صحراوجنگل ‘کہسار وبیابان سب چھان مارے ۔ایک دن
ایسی ہستی کو دیکھا جو بظاہر ایک دیوانے کی سی صورت لیئے ‘کون ومکاں
اوراپنے بدن پر پڑتی نظروں کی پرواہ کیئے بغیر اپنی ہی مستی میں مست کبھی
تیز اورکبھی آہستہ چلے جارہے تھے۔خواجہ باقی اسکے پیچھے ہو لیئے ‘اس دیوانے
نے خواجہ کو ستانا شروع کردیا‘پتھر مارے ‘چہرے پر طمانچے رسید کیئے ‘حتی کہ
سخت الفاظ کہتے ہوئے ان حدود کوپھلانگ گئے جسے سن کر آج کا ’’ملا‘‘پلک
جھپکے ہوئے بغیر اجرت کے ’’کفر‘‘کا فتوی داغ دیتا ہے ۔خواجہ سمجھ گئے یہ
صوفیاء کہ ملامتی گروپ سے تعلق رکھتاہے ‘جو فضولیات میں غرق عوام کو اپنے
سے دوررکھنے کیلئے ایسی حرکات وسکنات اپناتے ہیں تاکہ کوئی ان کی تنہائی
میں مخل نہ ہو۔درویش نے خواجہ کو کبھی زخمی کیا اورکبھی غائب ہوئے ۔اسی ٓآنکھ
مچولی میں ایک دن خواجہ کو برابھلا کہا۔خواجہ نے کہا میں نے آپ کا ساتھ
نہیں چھوڑنا۔درویش نے پتھر مارمارکرآپ کولہولہان کردیا اورپھر بھاگ کھڑا
ہوا ‘پھر ایک جھونپڑی میں داخل ہو گیا۔خواجہ نے جھانک کر دیکھا تو وہ بزرگ
ایک چوکی پر بیٹھے مسکرارہے تھے۔خواجہ کو دیکھ کر چوکی چھوڑ دی اور کہا
’’باقی اﷲ ‘آ۔۔اس پر بیٹھ ‘‘۔آپ نے کہا ۔’’باقی اﷲ ۔۔کیامطلب ؟ پہلے توآپ
مجھے اپنے قریب نہ آنے دیتے تھے اوراب یہ لقب عنایت فرمارہے ہیں۔‘‘درویش نے
کہا ’’ہم نے اﷲ کے کرم سے تجھے باقی اﷲ کردیا۔‘‘
ایک دن خواجہ باقی اﷲ کو کہا ۔’’تجھے ہم سے جو فیصان مل رہا ہے اس میں تیر
ی ماں کی دعاؤں کا بڑاحصہ ہے ۔‘‘خواجہ نے عرض کیا۔’’میری والدہ کی دعاؤں سے
مراد؟‘‘درویش نے محبت سے کہا۔’’تیری ماں تیرے انتظار میں ہے باقی اﷲ۔اورشب
وروز اپنے رب سے یہی التجاکررہی ہے کہ میرے فرزند کو اسکی منزل جلدی مل
جائے۔‘‘ پھر کچھ عرصے بعد آپ اپنی ماورالنہر جاپہنچے ۔آپ کی والدہ محترمہ
بھی کابل سے اُدھر پہنچ چکی تھیں۔ماں نے اپنے فرزند کو سینے سے
لگایااورخوشی کے آنسو چارنینوں سے رواں ہو گئے۔
ماوالنہر میں آپ کو محسوس ہواکہ اب کسی بزرگ کی ظاہری بیعت ضروری ہے۔آپ
حضرت امکنگی کے آستانے پر پہنچے جو پہلے ہی اپنی خانقاہ سے باہر نکل کر
کھڑے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔آپ کودیکھتے ہی فرمایا۔’’خواجہ باقی اﷲ ‘کدھر
رہے ہو ابتک؟‘‘آپ نے ادب سے عرض کیا ’’حضرت جب نام معلوم ہے تو یہ بھی
معلوم ہو گاکہ تلاشِ حق میں کدھر کدھر پھرا ہوں۔‘‘خواجہ امکنگی نے فرمایا
’’ہم تمہاری زبان سے سننا چاہتے ہیں۔‘‘آپ نے داستانِ عشق میں صحرانوردی
وکہساروں کا احوال کہہ سنایا اورکہا اب میں جو کچھ بھی ہوں اسی بزرگ کے
طفیل ہوں ۔حضرت امکنگی نے فرمایا۔’’ہاں !تیری تربیت کی خاطر وہ شخص اُس
جانب بھیجاگیاتھااوراس نے اپنے فرائض کی ادائیگی احسن طورپرنبھائی ہے۔‘‘آپ
نے انکی بیعت کی اور انہی کی خانقاہ میں ہی تصوف وسلوک کی منزلیں طے کرنے
لگے۔مرشد کے زیر تربیت رہنے کے بعد مرشد کے مشورے سے ہندوستان جانے کا
ارادہ کیا۔ جب گھر لوٹے اور والدہ کو حقیقت سے آگاہ کیا تو وہ اشک بار
آنکھوں سے بیٹے کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔’’اسکا یہ مطلب ہے
کہ مجھے اب پھر تیرے ہجرمیں جلنا پڑے گا۔میں تجھے روک بھی نہیں سکتی کہ
تجھے اﷲ نے اپنے لیئے نہیں میرے لیئے مانگاہے۔‘‘آپ نے والدہ سے عرض
کیا۔’’محترم والدہ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘‘آپ کی والدہ نے
فرمایا۔’’افسوس کے اب میں تجھے روک بھی نہیں سکتی کیونکہ اﷲ نے تجھے اپنے
لیئے نہیں میرے لیئے مانگاہے۔‘‘آپ نے عرض کیا والدہ میں سمجھا نہیں ۔آپ کی
والدہ محترمہ نے فرمایا ۔’’میں نے اپنے رب سے دعامانگی ہے کہ میرے فرزند
کیلئے وہی کر جواسکے حق میں بہتر ہو ۔میں اس پر راضی ہوں ۔‘‘آپ تذبذب کی
حالت میں مرشدکے پاس پہنچے تو انہوں نے استخارے کا مشورہ دیا ۔ استخارے کے
بعد آپ نے جو کچھ عالم رویا میں دیکھا وہ مرشد کو بتایا تو انہوں نے
مسکراتے ہوئے جواب دیا۔’’عزیز!طوطا خالص ہندی پرندہ ہے۔ہندمیں کوئی بشر
تیرے سے فیض ِ طریقت حاصل کرے اور تم بھی اس سے فیض یاب ہوگے۔‘‘آپ دلی
کیلئے روانہ ہو گئے۔
دلی جا کر آپ نے دریائے جمنا کے کنارے قلعہ فیروزآبادکی وسیع وعریض مسجد
میں ڈیرے ڈال دیئے۔آپ کی پرنور تربیت کا چرچاگلی گلی کوچہ کوچہ ہونے
لگا۔حتی کے آپ کے پاس شیخ فرید بخاری‘مرزاقلیج خان صدرجہان اورعبدالرحیم
خانخان جیسی حکومتی شخصیات بھی آنے لگیں۔یہ اکبراعظم کا دورتھا۔جس میں ایک
روایت کے مطابق ابولفضل اور اس کا فرزند فیضی بادشاہ کو ازخود مجتہدہونے کا
احساس دلواچکے تھے۔آپ نے اس دورابتلاء میں بھی اپنے پاس آنے والوں کو شریعت
اورسنت کی طرف مائل کیا ۔
ایک دن آپ کی خدمت میں ایک شخص آیا جو کہ حج کو جارہاتھا اورآپ کے متعلق یہ
سن کرآیا کہ خواجہ باقی شریعت رسول ﷺ اورسنت نبوی کے اعلی درجے کے مبلغ ہیں
اوران کا اندازِتبلیغ ایسا ہے کہ ان کہ پاس بیٹھے لوگ پتھر سے موم ہو جاتے
ہیں ‘ملحد توبہ تائب ہوجاتے ہیں۔سرہندسے تعلق رکھنے والاشخص بغیر اجازت کے
آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا اوربات چیت کے بعد آپ نے اسے اس شرط پر مرید کیا کہ
تم میری اولاد کی تربیت کروگے۔آپ نے اس نئے مرید سے فرمایامیں نے استخارے
میں جس ہندی طوطے کے منہ میں اپنا لعاب ِ دہن ڈالا اوراس نے میرے منہ میں
شکر ڈالی وہ تم ہو۔تم مجھے سے فیض یاب ہو گے اورپھر میری اولاد کی تربیت کا
اہتمام تم سے ہوگا۔یہ مرید شیخ احمدسرہندی مجددالف ثانی کے نام سے
مشہورہوئے جنھوں نے دورِ اکبری میں سختیوں کے باوجود شریعت وسنت کو تھامے
رکھا اوراحیائے اسلام کیا۔
آپ سادہ لباس پہنتے اورسادہ کھانا کھاتے۔حق گوئی وبیباکی کی تلقین کرتے اور
بغیرمقصدکے بولنے اورفحش گوئی سے منع فرماتے ۔ایک دن آپ نے اپنے چاہنے
والوں کوبتایاکہ میں نے مراقبے میں دیکھا ہے کہ سلسلہ نقشبندی کی کوئی
مشہورشخصیت اس دارِفانی سے کوچ کر گئی ہے۔مرید نے پوچھاکہ کیا آپ نے ان کا
چہرہ دیکھا ہے ۔آپ نے فرمایا :چہرہ دیکھاہے مگرپہچاننے سے قاصر رہا۔پھر
1012ہجری ‘پچیس جمادی الاول ‘بروز ہفتہ آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔عصرکے
بعد اس جہان سے جانے والی اس عظیم شخصیت کا مزار قبرستان قدم شریف میں
موجودہے‘جواب درگاہِ خواجہ باقی کے نام سے زیارت گاہِ بناہواہے۔
ایک رات آپ تہجد کیلئے اﷲ کے حضورکھڑے ہوئے اورپھر کئی گھنٹے کی عبادت کے
بعدجب بسترکی جانب بڑھے توآپ نے دیکھا کہ آپ کے بسترپر ایک بلی سورہی ہے۔آپ
اس کے جاگنے کا انتظار کرتے رہے۔بلی سوتی رہی اورہندوستان کایہ عظیم ولی اﷲ
ایک جانورکی نیندمیں خلل نہ ڈال سکا۔آپ پوری رات سخت سردی میں بسترسے الگ
کھڑے رہے۔جب مؤذن نے فجرکی اذان شروع کی توبلی بسترسے اُترگئی مگر خواجہ
باقی اب بسترسے لگنے کے بجائے فجر کی نمازپڑھنے چلے گئے۔آپ اپنی ذات سے
انسان توکجاجانورکو بھی تکلیف نہ آنے دیتے ۔اور ایک ہم ہیں کہ آج اولیاء اﷲ
کے بتائے ہوئے راستے کو بھول چکے ہیں ۔نفسانفسی میں ایسے کھوئے ہیں کہ
جانور توکجاانسانوں کی نیندیں اپنے معمولی مفادات کی خاطر اُڑادیتے ہیں
‘ایک دوسرے کی زندگیوں میں زہر گھول دیتے ہیں۔آج اگر ہم صوفیاء کی سرزمینِ
برصغیر پر پریشان حال ہیں تواس کابڑاسبب اسلام اوراس کی اعلی شخصیات کی عدم
پیروی ہے۔ہم تکفیرمیں کھوکر ایک کلمہ گو کی گردن مارنے کو عین اسلام
گردانتے ہیں اورادھر وہ سرکارِدوجہان کے غلام ایک بلی کی خاطر سخت سردی میں
بھی اپنی نیندقربان کردیتے ہیں۔میرے خیال میں بلی تومسلمان نہ تھی ؟آپ کیا
کہتے ہیں؟ |