اصلی دہشت گرد کون ۰۰۰
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, )
اصل دہشت گرد کون ہے اس سلسلہ
میں شاید تجزیہ نگاروں کی مختلف آراء ہونگی ، کوئی کہے گا کہ معصوم ننھے
منے بچوں کو ڈر و خوف بٹھانے اور ان پر سختی کرنے والے والدین و بھائی بہن
دہشت گرد ہیں تو کوئی کہے گا کہ اسکول میں بچوں کی پٹائی اور ان پر سختی
کرنے والے اساتذہ کرام، کوئی کہے گا کہ ظلم و ستم کرنے والے حکمراں تو کوئی
کہے گا کہ اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والے ممالک و حکمراں۔آج بین الاقوامی
سطح پر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک متحدہ
دکھائی دیتے ہیں۔ ان ممالک میں جہاں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں یا
جہاں پر دہشت گرد چھپے ہونے کا شبہ ہے ، ان مقامات پر بسنے والے دہشت گردوں
کو ختم کرنے کے نام پر جو بیڑہ امریکہ اور مغربی و یوروپی طاقتوں نے متحدہ
طور پر اٹھایا ہے اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی
بھی ترقی یافتہ ، اسلحہ سے لیس سوپر پاور طاقت بھی کہنے سے قاصر ہے۔ ایک
طرف کروڑوں ڈالر ز کی لاگت سے خطرناک تباہی مچانے والے ہتھیار تیار کئے
جارہے ہیں تودوسری جانب انکے خریدار وں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جب ہتھیار
بنانے والے اور خریدنے والے موجود ہوں تو ایسی صورت میں دہشت گرد کون ہیں
اس سلسلہ میں ایک تعلیم یافتہ شخص آسانی سے سوچ سکتاہے۔ اسی لئے بعض تجزیہ
نگار یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دہشت گرد وہ نہیں جو چاقوزنی، فائرنگ، بم
دھماکے اور خود کش حملے کررہے ہیں بلکہ اصل دہشت گرد وہ ہیں جو خطرناک
تباہی مچانے والے ہتھیار بنارہے ہیں اور اس کا زخیرہ کررہے ہیں۔ امریکہ
اورمغروی و یوروپی صیہونی طاقتیں اپنے ہتھیار کی ترسیل کے لئے جس طرح کا
پروپگنڈہ کررہے ہیں اُسی کے ذریعہ وہ اپنے ہتھیار فروخت کررہے ہیں یہی نہیں
بلکہ اپنے فوجیوں کی تنخواہ کا بوجھ بھی ان ممالک پر ڈالنے کے لئے ایسے
حالات پیدا کررہے ہیں جس کے ذریعہ انکی فوج دوسرے ممالک کی فوج کو تربیت
دیتی ہے اور اس تربیت کے نتیجہ میں ان کی تنخواہوں کی ذمہ دار ان ممالک کے
حکومتیں ہوتی ہیں۔ ہر مہینہ کروڑوں ڈالرز کی تنخواہیں فراہم کرنے کے ساتھ
ساتھ عالم اسلام کے کئی ممالک فوجی ساز و سامان خریدنے میں ایک دوسرے پر
سبقت لیجانے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ سوپر پاور کی حیثیت سے جس
طرح دنیا بھر میں اپنی ڈھاگ بٹھائے رکھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس سے
دوستی رکھنے یا بڑھانے والے حکمرانوں کی ایک فہرست ہے جو امریکہ سے تعلقات
بہتر بنائے رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک اپنے آپ کو اس کی جی حضوری میں پیش
کرنے کو ذلت و رسوائی نہیں سمجھتے۔یہ اور بات ہے کہ عالم اسلام کے حکمراں
اپنی دولت کی وجہ سے امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سے اسلحہ حاصل
کررہے ہیں اور انکی فوجی طاقت سے بھی استفادہ کررہے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں
کے دوران عرب ممالک اور عالم اسلام کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کا جو
ماحول بنایا گیا اور اس کے خاتمہ کے نام پر جس طرح کی کارروائیوں کا آغاز
ہوا اسے ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔ ایران ، عراق کی جنگ
کے بعد عراقی فوج کی کویت میں موجودگی اور کویت کا امریکہ سے تعاون حاصل
کرتے ہوئے عراق پر خطرناک فضائی حملے کرکے اسے سطح غربت تک پہنچاناایک بہت
بڑی سازش کا حصہ تھا۔ادھر افغانستان میں سویت یونین کی فوج کو شکست دینے
کیلئے افغانی طالبان کا استعمال اور پھر سویت یونین کی شکست کے بعد طالبان
کے رہنما ملامحمد عمر کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے افغانستان میں موجود
اسامہ بن لادین کو 9/11ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حملے کا ذمہ داربتاکر امریکہ کے
حوالے کرنے کا دباؤ ڈالا گیا اور پھرافغانستان پر بھی خطرناک فضائی حملے
کردیئے گئے۔امریکہ اور دیگر دشمنانِ اسلام ممالک اپنی سازشوں میں کامیابی
حاصل کرتے گئے اور عالمِ اسلام ان سازشوں کا شکار ہوتا رہا۔ نوبت یہاں تک
پہنچی کہ عوامی انقلاب یا بہارِ عرب کے نام پر کئی حکمرانوں کو جو شاید
امریکہ اور دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے تھے ان کا صفایا کردیا
گیا یا انہیں حکمرانی سے بے دخل کردیا گیا۔دولت کی فروانی ہونے کے باوجود
عالم ِ اسلام ،امریکہ اور مغربی و یوروپی طاقتوں کے سامنے دہشت گردانہ
کارروائیوں کے سدّباب کے لئے اس کا محتاج دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ اور
یوروپی ممالک اپنے کارآمد یا ناکارہ یا اکسپائرہونے والے ہتھیاروں کو
کروڑوں ڈالرز کی لاگت میں فروخت کررہے ہیں۔ آج سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے
والے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اس میں سرفہرست سعودی عرب، عرب امارات
دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں عالمی منڈی اور معیشت کے بارے میں تحقیق کرنے
والی کمپنی آئی ایچ ایس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ چھ برسوں سے
دنیا میں دفاعی تجارت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور 2014ء میں کل 64.4ارب
ڈالر کی تجارت ہوئی جس میں سب سے زیادہ حصہ یعنی اسلحہ کی خریداری میں
سعودی عرب کا رہا ہے ۔ 2014کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے
مشترکہ طو رپر 8.6ارب ڈالرز کے دفاعی نظام برآمد کئے جو کہ معربی یوروپ کے
تمام ممالک کے کل دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ تھے۔ سنہ 2014میں اسلحہ
خریدنے والے پانچ بڑے ممالک میں سعودی عرب، ہندوستان، چین، متحدہ عرب
امارات اور تائیوان ہیں جبکہ 2013میں ہندوستان پہلے نمبر پر تھا۔ اسی طرح
مشرقِ وسطیٰ کی منڈی میں اسلحہ کا سب سے بڑا فروخت کندہ ملک امریکہ رہا جس
نے وہاں سنہ 2013ء کے 6ارب ڈالر کے مقابلے میں سنہ 2014میں 8.4ارب
ڈالراسلحہ فروخت کیا۔ واضح رہے کہ آئی ایچ ایس کی رپورٹ میں ان رقوم کے
اعداد و شمار شامل نہیں جو مختلف ممالک نے بارود، چھوٹے اسلحے، اندرون ملک
سیکیوریٹی اور اپنے خفیہ منصوبوں پر خرچ کئے ہیں۔عالم اسلام میں دہشت
گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ اسلحہ کی سب سے بڑی علاقائی مارکٹ
کی حیثیت اختیار کرگئی ہے اور آئندہ دس برسوں میں یہاں 110ارب ڈالر کے
اسلحہ کی فروخت ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ آئی ایچ ایس کی اسلحہ کی
عالمی تجارت کی سالانہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب
سے اسلحہ کی مانگ میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، کمپنی کے ماہر
تجزیہ نگار بین مورز کے مطابق اگر سعودی عرب کے ماضی کے اسلحہ کے سودوں کو
مدنظر رکھیں تو لگتا نہیں کہ آئندہ سالوں میں بھی اس میں کوئی کمی آنے والی
ہے۔ اب یہاں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات
اسلحہ کی برآمد میں اتنا کیوں سبقت لیجانے کی کوشش کررہے ہیں ؟ کیا شدت
پسندوں یعنی القاعدہ و دولت اسلامیہ عراق و شام(داعش) و دیگر نام نہاد
جہادی تنظیموں سے اسے خطرہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے جو امریکہ و مغربی و
صیہونی سازش کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں ایران کے صدر حسن روحانی کے
مشیر علی یونسی نے یہ کہہ کر عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے
حکمرانوں کو حیران زدہ کردیا کہ ایران کی نظریں کس طرح مشرقِ وسطیٰ پر ٹکی
ہوئی ہے۔ علی یونسی کا کہنا ہے کہ ’’ایران وسیع سلطنت اور بغداد اس کا
دارالحکومت ہے‘‘ ۔ علی یونسی نے ’’ایرانی تشخص‘‘ کے عنوان سے تہران میں
منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایران ایک عظیم الشان سلطنت
بن چکا ہے اور اس سلطنت کا دارالحکومت بغداد ہے، بغداد ہی ماضی اور حال میں
ہماری تہذیب اور ثقافتی تشخص کی علامت ہے‘‘ علی یونسی کا اشارہ اسلام سے
قبل قدیم ایرانی شہنشاہیت کی جانب تھا۔ ایران جس طرح خطے میں اپنی عسکری
طاقت کو فروغ دینے کے لئے کوشاں دکھائی دیتا ہے اور جس طرح نام نہاد سنی
شدت پسندوں کے خلاف اپنی عسکری طاقت کا استعمال کررہا ہے اسی کا نتیجہ
ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات و دوسرے خلیجی ممالک اپنی دفاعی
طاقت کو مضبوط و مستحکم بنارہے ہیں ۔ایک طرف عالمِ اسلام کو شدت پسندوں کی
دہشت گردانہ کارروائیوں سے نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے تو دوسری جانب ایران سے
ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ ہفتہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف
کی سعودی عرب آمد اور نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات
اوردونوں قائدین کے درمیان خطہ میں موجودکشیدہ صورتحال پر بات چیت اہم
موضوع رہی۔ تیل کی دولت سے مالاما ل سعودی عرب اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک
میں سرفہرست ہے لیکن دولت اسلامیہ عراق و شام اور اسکے دیگر دشمنوں سے
نمٹنے کے لئے پاکستان پر توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ سعودی عرب اس بات کا
خواہاں ہے کہ سفاک داعش گروپ سے نمٹنے کے لئے پاکستانی افواج اہم رول ادا
کرسکتی ہے ، سعودی عرب کی سرحدوں کو داعش سے خطرہ لاحق ہے۔ ذرائع کے مطابق
سعودی عرب نے پاکستانی افواج کی خدمات کے عوض ایک پیاکیج کی پیشکش بھی کی
ہے۔ پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں اور دیگر جرائم کے خاتمہ کے لئے جس
طرح فوجی اور رینجرس و سیکیوریٹی ایجنسیوں کی کارروائیاں جاری ہیں اور اس
سلسلہ میں پاکستانی حکومت نے آئین میں ترمیم کرکے جو سخت قوانین نافذ کئے
ہیں اس سے پاکستان کے حالات میں کسی حد تک بہتری پیدا ہوسکتی ہے ۔پاکستان
کے شہر کراچی میں رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے
ہیڈکوارٹر(نائن زیرو) اور سیکریٹریٹ پر چھاپہ مارا اور کئی سزا یافتہ افراد
(سزائے موت پانے والے قیدیوں) اور غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ
کیا ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا کہ رینجرز نے نائن زیرو
پر چھاپے کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنان پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں
ایم کیو ایم کا ایک رکن ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ رینجرز کے ترجمان
کے مطابق کارروائی کے دوران غیر ملککی ممنوعہ اسلحہ برآمد کیا گیا اور اسے
ایسا اسلحہ بتایا گیا جو نیٹو کنٹینروں سے چوری شدہ ہے۔ایم کیو ایم نے بھی
الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکار نائن زیرو میں داخل ہوتے وقت کمبلوں میں
غیر قانونی اسلحہ لے کر آئے تھے جسے اب ایم کیو ایم سے منسلک کیا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم کے سربراہ نے رینجرز کا کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستانی
حکومت اور فوج نے پشاور آرمی پبلک اسکول سانحہ کے بعد جس طرح ملک بھر میں
غیر قانونی سرگرمیوں کے سدّباب کے لئے کارروائیاں تیز کردی ہیں کراچی میں
رینجرز کی کارروائی اسی کا ایک حصہ ہے۔ ویسے پاکستان کے مختلف شہروں میں
جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائیاں کی جارہی ہیں ۔ اسی سلسلہ کی ایک
کڑی افغان پناہ گزینوں کا پاکستان سے تخلیہ بھی ہے۔ پشاور آرمی اسکول پر
طالبان حملے کے بعد سے ملک بھر میں غیر قانونی طور پر رہنے والے افغانیوں
کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ان کارروائیوں کے نتیجہ
میں ہزاروں افغانیوں کو گرفتار یا ملک بدر کیا گیا جبکہ کئی افغان خاندان
رضاکارانہ طور پر بھی اپنے ملک واپس جارہے ہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کا
ادارہ برائے مہاجرین این ایچ سی آر نے پاکستان میں قانونی طور پر مقیم
افغان پناہ گزین کی رضاکارانہ واپسی کے لئے کام کا آغاز کردیا ہے اور ان
خاندانوں کو نقد رقوم دینے کا فیصلہ کیا ہے جو اپنی مرضی سے وطن واپس جانا
چاہتے ہیں۔ ان کی محفوظ اور باوقار وطن واپسی کے لئے تعاون کرنے کا اعلان
کیا گیا ہے۔ ایک طرف شدت پسند تحریکوں سے عالمِ اسلام کو خطرہ ہے تو دوسری
جانب ایران کے صدر حسن روحانی کے مشیر کا بیان کئی شکوک و شبہات پیدا کرتے
ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان تمام کے پیچھے دشمنان اسلام کی ایک بہت بڑی
سازش ہے جو عالمِ اسلام میں دہشت گردانہ ماحول قائم رکھتے ہوئے عالمِ اسلام
کی دولت مختلف بہانوں کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں اور یہی اصل دہشت گرد ہیں۰۰۰ |
|