حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
(md ihsanu haque, kishanganj)
پیدائش:
آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن707ھ کو ایک
بزرگ کامل حضرت ابراہیم علیہ الرحمہ کے گھر پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے پاس ہی حاصل کئے۔
تکمیل علوم وترکِ سلطنت:
حضرت مخدوم سمنانی نے سات برس کی عمر میں سات قرأ توں کے ساتھ پورا قرآن
کریم حفظ کیا اور چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم کی سند فراغت حاصل کی اور
پندرہ سال کی عمر میں سمنان کے بادشاہ بنائے گئے۔ آپ کے دور حکومت میں
سمنان عدل و انصاف اور علم و فن کا مرکز بن گیا۔
اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کے رشدوہدایت کا کام لینا
تھا اسی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت
کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ حضرت شیخ رکن الدین علاء الدین سمنانی متوفی
۷۳۶ ھ شیخ عبدالرزاق کاشی، امام عبداللہ یافعی، سید علی ہمدانی ، شیخ
عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیاء و علماء سے علوم شریعت و طریقت سے
بہرہ مند ہوئے۔ (لطائف اشرفی ۱ص۲۰)
آپ سلطنت کوٹھوکر مار کر مشاغل دنیا سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے مگر اشارہ
غیبی کے منتظر تھے۔ بالآخر رمضان المبارک کے۲۷ویں شب کو آپ کے پاس حضرت خضر
علیہ السلام آئے اور فرمایا :اشرف اب وقت آگیا ہے ، سمنان چھوڑ کر ہندوستان
جاؤ تمہارامرشد طریقت شیخ علاء الحق گنج نبات پنڈوی علیہ الرحمہ تمہارا شدت
سے انتظار کررہے ہیں۔ حضرت خضرعلیہ السلام کے کہنے پر آپ نے والدہ ماجدہ سے
سفر کی اجازت طلب کی اور سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد
کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔
ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے :’’ امت
محمدیہ کے صدقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت
رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم،دوم سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی رحمۃ سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔(صحائف اشرفی ۱۱۳)
حضرت مخدوم پاک،شہر سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچھ شریف
پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری رحمۃ
اللہ علیہ متوفی ۷۸۰ ھ کے روحانی تصرفات و رشد و ہدایت کا مرکز بنا ہوا تھا
حضرت مخدوم سمنانی حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔
خود حضرت مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ حضرت مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ
سے حاصل ہونے والے تمام روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ قادریہ کی اجازت و
خلافت سے نوازدیا
(لطائف اشرفی ج۲ص۹۴ ،خزینۃ الاصفیان ج۲ص۵۷تا۶۳)
وقت رخصت حضرت مخدوم جہاں نے فرمایا :
فرزند اشرف جلدی کرو اور دربار شیخ علاء الحق میں حاضر ہوجاؤ وہ شدت سے
تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ (ایضاً)
مخدوم سمنانی دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف ، پھر وہاں سے بنگال پہنچے۔ صوبہ
بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز حضرت شیخ علاء الحق
والدین لاہور رشد و ہدایت بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم سمنانی کی آمد کی خبر
پہلے ہی متعدد بار حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ علاء الحق کو دے دی
تھی۔ حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے شاہانہ انداز میں حضرت مخدوم سمنانی کا
استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز،انہیں اپنی خانقاہ میں لائے۔ حضرت شیخ نے
سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے
نوازا۔ مخدوم سمنانی حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے
ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ ایک روز شیخ کی خانقاہ میں
مجاہدہ میں مشغول تھے۔ اسی وقت درودیوار سے یہ غیبی آواز آنے لگی ’’اشرف
جہانگیر ، اشرف جہانگیر‘‘ حضرت شیخ نے مسرت کا اظہار فرمایا اور اشارہ غیبی
سے یہ معزز خطاب حضرت مخدوم سمنانی کو عطا فرمایا۔
(لطائف اشرفی ، صحائف اشرفی، مرأۃ الاسرار ،ص۱۰۴۶)۔
مولف لطائف اشرفی،خلیفہ حضرت مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی نے لکھا
ہے کہ حضرت مخدوم سمنانی نے راہ سلوک میں ۳۰؍ سال سیر و سیاحت کی اور ۵۰۰؍
سو اولیاء ومشائخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و برکات حاصل کئے۔ آپ نے گلبرگہ
شریف میں حضرت گیسو دراز بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر بھی حاضر
دی اور وہاں چلہ کشی فرمائی ہے۔
(لطائف اشرفی و صحائف اشرفی ج۱ ص ۸۵)۔
تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے
بنگال سے اور، شیراز ہند ،جونپوراور بنارس کے راستے سے مقام کچھوچھہ (جواس
وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے۔
جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان کی علماء
نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی
شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا
اور کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد
ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی
مخدوم سمنانی کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے
قاضی صاحب کا بعض مسائل میں حضرت مخدوم سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری
رہا ہے۔ (صحائف اشرفی ج۱،ص۶۰تا۷۵)
کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور گمراہوں و
فاسقوں نے اپنی گمراہی و فسق و فجور سے توبہ کی۔ ایک مرتبہ بنارس میں
ہندوپنڈتوں سے آپ کا مباحثہ ہوا انہوں نے آپ سے دین اسلام کی حقانیت پر
دلیل طلب کی، سامنے بت خانہ تھا اور لوگ پوجا میں مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا
: جس دین کا کلمہ میں پڑھتا ہوں اس کی حقانیت کی گواہی اگر تمہارے بت خود
دے دیں تو؟ انہوں نے کہا:اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ حضرت مخدوم
سمنانی نے ایک بت کو مخاطب کرکے کلمہ اسلام پڑھنے کو کہا تو وہ بت زندہ
ہوگیا اور آپ کے ساتھ کلمہ پڑھنے لگا۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اور اس کی
شہرت سن کر اسی دن ایک لاکھ ہندو مسلمان ہوئے ۔ مقام کچھوچھہ جہاں پر آپ کا
مزار پر انور ہے۔پہلے وہاں ایک بہت بڑا جوگی(جادوگر) اپنے پانچ سو تربیت
یافتہ چیلوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ آپ کی بزرگی و کرامات سے متاثر ہو کر ان
تمام کے تمام جوگی جادوگرآپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کئے۔ اس جیسے بے
شمار کرامتوں کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل فرمایا اور
لاکھوں مسلمانوں کو داخل سلسلہ کر کے ان کی اصلاح و تزکیہ نفس کا سامان
مہیا فرمایا
بالآخر آپ کے وصال کا وقت قریب آیااور آپ نے۲۸محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعئ اجل
کو لبیک کہا ۔
آپ کا مزار پر انوار سے آج تک خلق خدا مستفیض و مستنیر ہورہی ہے۔ اور ہرسال
ماہ محرم کے آخری عشرہ میں تقریبات عرس نہایت ہی احترام و احتشام کے ساتھ
منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں مریدین و زائرین شرکت فرماتے ہیں۔ مولیٰ تبارک
وتعالیٰ ہم سب کو مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے۔
گدائے اشرفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد احسان الحق جامعی سالکی کشنگنج بہار(انڈیا) |
|