کیا لکھوں۔۔۔۔کیا نہ لکھوں

ملکی صورتحال منٹ منٹ کے بعدواقعات بنتے جا رہی ہے۔کسی کو ترقیاتی کاموں ،روزگار،حرام مال چھپانے کی فکر کھائی جا رہی اور دوسری طرف والدین کو اپنے نوجوان بچوں کی گھرو ں میں زندہ واپسی کی فکر کھائے جا رہی ہوتی ہے کیونکہ آم کے پودے اور بچے کو بڑا کرنا بڑا مشکل ہوتا اور کسی مالک کا دل نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے درخت کی طرف دیکھے۔پہلے ان پڑھ لوگ کچھ ایسے کام کر تے تھے جن کا سچ میں ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کے بارے بھی قانون موجود ہے۔جب سے دہشتگردوں کے خلاف حکومت نے نئے عزم کے ساتھ کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا سب سے پہلے دہشتگردوں کو مالی معاونت کے بارے روک تھام کیلئے سخت حکمت عملی بنائی گئی لیکن دوسری طرف ایک مشہور و معروف لیکن ان پڑھ ٹائپ ماڈل پانچ لاکھ امریکی ڈالر پاکستانی ائیر پورٹ سے دوسرے ملک ایسے لے کر جا رہی تھی جیسے وہ ملکی صورتحال سے ناواقف ہو۔اﷲ بھلا کرے سیکورٹی ایجنسیز کا وقت پر کاروائی کر ڈالی اور بڑے بڑے شریفوں کا نام بھی زیر گردش آ نے لگ گیا۔یوحنا آباد واقعہ کی جتنی مرضی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ بطور مسلمان ہم ایسی کاروائیوں کو بزدلانہ اقدام سمجھتے ہیں۔دوسری طرف ہم سارا الزام سیکورٹی اداروں اور اہلکاروں پر لگا دیتے جو کہ سراسر غلط ہوتا کیونکہ کوتاہی دونوں طرف سے ہوتی۔چرچز پر حملہ کے بعد مشتعل افراد نے جو کچھ کیا وہ چرچز پر دھماکوں کے بعد ملکی امن و امان کیلئے بڑے دھماکوں سے کم نہ تھے۔میڈیا نے وہ سب کچھ دیکھایا جو اﷲ قیامت کے وقت بھی نہ دیکھائے۔ٹی وی کی سکرین ویڈیوز کلپوں اور ٹیکروں کیلئے کم پڑ گئی۔پولیس اہلکار خاموش رہے کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ پہلے ایک غلطی کر چکے ہیں دوسری غلطی نہ کرنے میں ہی بچت ہے۔دو نوجوانوں کو وقوعہ کی جگہ سے پولیس نے کاغذی کاروائی کی غرض سے ہی پکڑ ہو گا یہ میرا خیال ہے لیکن وہاں پر موجود مشتعل اور ان میں چھپے مشکوک افراد نے موقعہ جانتے ہوئے پولیس کی حراست سے ان دونوں کو چھڑوا کر جو عمل کیا وہ نہ دیکھنے اور نہ لکھنے قابل ہے۔ان دو نوجوانوں کی موت صرف پولیس کی کاغذی کاروائی ہی نگل گئی جن کو پولیس نے کچھ دنوں بعد ثبوت نہ ہونے کی بنا پر چھوڑ ہی دینا تھا ۔ہمارے ملک کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے لیڈ ر عمران خان اور ان کے کچھ بولنے والے سمجھدار ارکان ہی میڈیا پر بیان بازی سے کام لے رہے ہیں جبکہ ان کے مقامی ایم این ایز اور ایم پی ایز سے ضلعی طور پر اپنے ہی ورکرز کنٹرول میں نہیں۔پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز نہ تو اپنے علاقوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی مقامی طور پر انتظامیہ میں ردو بدل اور نا اہلی کے بارے میں کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ حکمران جماعتوں کے سابقہ ممبران کا کنٹرول ہر محکمہ اور ہر افسر مجاز پر موجود ہے۔موجود ملکی صورت حال کو مقامی سطح پر کنٹرول کرنا پولیس کی بس کی بات نہیں رہی۔مقامی مجاز افسر کوئی کاروائی کرنا چاہتا ہے توحکمران حکومتی کی طرف سے سابقہ کسی نہ کسی مقامی سیاست دان کی طرف سے سفارشی پیغام مل جاتا اور مجاز افسر کی جذبہ سے بھر پور کاروائی ریت کی دیوار ثابت ہوتی۔میرے مطابق اگرمقامی سطح پر مجاز پولیس افسر کی بجائے فوجی مجاز افسر لگا دیا جائے تو کل کو اس کے بڑے فائدے ہونگے اور بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کا بھی پتہ چل جائے گا۔ہماری مقامی پولیس کا ہوم ورک ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے کیونکہ نالائق استادوں اور نالائق شاگردوں نے اچھے نہ بننے کی قسم کھا رکھی ہے اس لیے صحیح کاروائی کرنے کی بجائے اپنے اور دوسروں کے گلے ایک کی جگہ دس اور جرم ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے۔لیکن رینجرز اور پاک فوج اپنا ہوم ورک ہر لمحہ مکمل رکھتی کیونکہ کسی بھی ہوم ورک چیک کیا جا سکتا اور وہ کبھی بھی مایوس کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔اس کی حالیہ مثال نائن زیرو کراچی کی کاروائی سے ہی سبق لیا جا سکتا ہے ۔ اول میں نے کراچی دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی اس کے علاقوں سے جان پہچان ہے لیکن اﷲ بھلا کرے میڈیا کا جس نے وہ کچھ بھی دیکھا دیا جو دیکھنا مشکل ہوتا۔کراچی میں تمام سیاسی جماعتیں دہشتگردی کا رونا روتی رہیں اور عوام کی نظروں میں ہم ہی مظلوم سیاسی جماعت ہیں کا دیکھاوا کرتی رہتی ہیں لیکن اصل حقیقت پولیس اور انتظامیہ بخوبی جانتی ہے۔پولیس سیاسی جماعتوں پر کنٹرول اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ پولیس کا منسٹر اور وزارت بھی ہوتی جو کہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ہی ممبر ہوتا جس کی وجہ سے پولیس کا ہوم ورک مکمل ہو بھی تو وہ نامکمل سمجھا جاتا لیکن موجود صورتحال میں پولیس کا ہوم ورک دیکھ کر پاک آرمی نے اپنا ہوم ورک دیکھانے کا عزم کر رکھا ہے اور جس کے ثمرات جلد ہی مظلوم عوام تک پہنچا جائیں گے۔لہذا میرے مطابق مقامی پولیس اور سیاست دان کاغذی کاورائیوں سے اجتناب کریں اور اپنا ہوم ورک دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کی طرح اپ ٹو ڈیٹ رکھیں تاکہ کوئی اور نوجوان اس قسم کی درندگی کا شکار نہ ہو جائے۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 89600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.