ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہو
گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے ناسور سے نبرد آزما ہے۔ ہزاروں کی تعداد
میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے، پاکستان میں بسنے والے ہر مکتبِ فکر،
کم و بیش ہر مسلک و مذہب کے لوگ دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں
اور یہ سلسلہ ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا کیونکہ دہشت گردوں کو
انسانیت کے خون کی لت لگ چکی ہے۔ یوحنا آباد لاہور کے چرچوں پر خودکش حملے
درندگی کی اک تازہ مثال ہیں۔
دو دن سے یوحنا آباد اور گرد و نواح کی فضاء غم و غصے کی کیفیت سے معمور ہے۔
گردو پیش کے رہنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے لوگ گھروں میں محصور ہو
کر رہے گئے ہیں۔ معاملاتِ زندگی معطل و موخر ہو کر رہے گے ہیں۔ میں خود اس
وقت شدید ذہنی و قلبی بے سکونی سے گزر رہا ہوں ابھی کالم کو تحریر کرتے وقت
بھی سماعت میں ایمبولینسوں اور پولیس و رینجر کی گاڑیوں کے سائرن گونج رہے
ہیں۔( کیونکہ یوحنا آباد میری رہائش گاہ سے محض ایک کلو میٹر کے فاصلے پر
واقع ہے اور میرا گھر فیروزپور روڈ سے چند فلانگ پر ہے)
صورتِ حال معمول پر لانے کیلئے اور کسی بڑے مذہبی انتشار و خلفشار سے بچنے
کے لئے سیکیورٹی فورسز کی ایک بھاری مقدار کو طلب کرکے یوحنا آباد اور
منسلک علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
میں یہاں اپنے گھر سر پکڑے بیٹھا ہوں اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ میرے
وطن کے ساتھ یہ کیا گنہونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہر کوئی خود ہی قاضی و
منصف بنا پھرتا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اسکی دبھجیاں بکھیر رہا
ہے۔ یوحنا آباد کا واقعہ تاریخ کا کوئی پہلا واقع نہیں ہے ہمارے ہاں جہالیت
جو اپنی حدوں کو پھلانگ چکی ہے ہمیشہ ان واقعات کے بعد ایسا طرز عمل اپناتی
ہے۔ املاک کو جلاو ، پولیس سے لڑو ، لوٹ کھسوٹ کرو ، کسی پہ شک ہو تو زندہ
جلاؤ ، موج مناؤ، سینے اندر ٹھنڈ پاؤ۔
قانون پر عمل درآمد کا فقدان اس دیدہ دلیری کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اور
قانون کی اس کمزوری کی وجہ سیاسی غلامی و نااہلی ہے۔
آوے کا آوا ہی بگڑ ہوا، ہر ہر نظام فارغ الذہن لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تو
ملک ایسے ہی حالات و وقعات سے دوچار ہو گا۔ ایسے عالم میں جس کے جی میں جو
آئے گا وہ کرے گا کوئی بروقت روک ٹوک جو نہیں ہوگی۔
دہشت گرد تو دہشت گرد ہیں ، ہم عام عوام کونسے کم ہیں ۔ جہاں داؤ لگتا ہے
پیچھے نہیں ہٹتے۔ انصاف کا ترازو جب ہمارے ہاتھ میں آتا ہے تو دوسروں کے
ساتھ انصاف نہیں کرتے تو ایسے میں کیسے اُمید کی جائے کہ ہمارے ساتھ انصاف
ہوگا ؟ ایسے عزاب تو پھر ہم پہ مسلط ہوں گے ہی۔
ابھی بھی حالات پہ قابوں پایا جاسکتا ہے اور بات بن سکتی ہے اگر ہم دہشت
گردی کا مقابلہ تعلیم و تہذیب اور تدبر سے کریں ناکہ دہشت گردوں کے آلہ کار
بن کر، عقل و ہوش گنوا کر، قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اور اپنی املاک کو
آگ لگا کر۔
کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقع رونما ہوتو عوام کو چاہیئے کہ رنگ و نسل
اور مسلک و مذہب کی تفریق سے بالا تر ہوکر انسانیت کیلئے کا ثبوت دیتے ہوئے
ہمدردی وتعاون کا مظاہرہ کرے۔
ایسے عالم میں پولیس و دیگر سیکیورٹی فورسز کے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون
کرنا چاہیئے ناکہ اُن پر پتھراؤ کیا جائے، اُن کو کام نا کرنے دیا جائے۔
ایسا کرنے سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
اپنے پیاروں کی نعشوں کو بیچ چوراہوں پر رکھ اور سرکاری املاک کو نقصان
پہنچاکر ناتو مرنے والے کی روح کو ایصالِ ثواب ہوتا ہے اور ناہی ایسے کسی
تخریبی فعل کو عوام ہمدردی و حمایت ملتی ہے۔ اس لئے عام شہراؤں کو بند نہیں
کرنا چاہیے اور ناہی کسی کا کاروبار زبردستی بند کروانا چاہئے۔تاکہ دیگر
عوام بھی معملاتِ زندگی میں
اس قسم کے واقعات و حالات میں اگر احتجاج کرنا نہایت ضروری اور مجبوری بن
جائے تو، لازمی طور پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، دوسروں کو کسی بھی
قسم کی کوئی تکلیف نا دیتے ہوئے پُر امن احتجاج کیا جائے۔ صبرو برداشت کا
درس کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔
تمام ادیان ِ کے عالم حضرات کو ، میڈیا گروپس اور تعلیمی اداروں اور تمام
دیگر مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات کو چاہیئے کہ امن اور بھائی چارے
کو عام کرنے میں اپنا موثر کردارادا کریں۔
اللہ پاک سے دعاہے کہ تمام تخریبی سوچوں کو نیست ونابود کرے۔ ہمیں صبرو
برداشت پہ چلنے والا اور امن پسند بنادے اور ہمارے پیارے وطن کو تمام
دشمنوں سے محفوظ فرما کر اس کے گوشے گوشے کو امن و سلامتی کا گہوارا بندے۔
آمین |