مقبوضہ کشمیر میں آگ اور پانی کا ملاپ
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
بے جے پی اور پی ڈی پی حکومت کی
تیاریوں میں مصروف
انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، اور بھاری فوج اور پولیس کی جانب سے جبر
استبداد، تشدد کے واقعات پر ایمینسٹی انٹرنیشنل اور بھارتی تنظیموں کا
احتجاج
مقبوضہ کشمیر میں حکومت کے قیام پر تعطل ختم کا امکان ہوگیا ہے، اور اب آگ
اور پانی کا ملاپ یعنی بے جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان حکومت میں شراکت کے
فارمولے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ جس کا اعلان کسی وقت بھی متوقع ہے۔ پیپلز
ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت سے
وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے معاہدہ
کے مطابق پی ڈی پی کے سربراہ مفتی محمد سعید وزیر اعلٰی ہوں گے۔ جبکہ بی جے
پی کو ڈپٹی وزیر اعلی کا عہدہ ملے گا۔ تاہم دونوں فریقوں کے درمیان متنازعہ
مسلح افواج خصوصی اختیارات ایکٹ (افسپا) اور دفعہ 370 گلے کی ہڈی بن گئی
ہے۔ اس پر دونوں جماعتیں اپنے موقف پرقائم ہیں۔ اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے پر
تیار نہیں ہے۔ پی ڈی پی دفعہ 370 کو بحال رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن بی جے پی اس
پرتیار نہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ گرما گرمی آرٹیکل 370 ہے۔ جس کے لئے
BJP نے اپنے منشور میں تحریری وعدہ کر رکھا ہے کہ وہآرٹیکل 370 کو ختم کر
دے گی۔بی جے پی شروع سے ہی ریاست میں دفعہ 370 ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہی
ہے. دوسری طرف پی ڈی پی دفعہ 370 کو لے کر کسی بھی معاہدے کے لئے تیار نہیں
ہے۔دفعہ 370 سے کشمیر ریاست کو خصوصی درجہ ملا ہوا ہے۔ بی جے پی کی دقت یہ
بھی ہے کہ اگر وہ ان مسائل سے پیچھے ہٹتی ہے تو ریاست میں ان کے حامی لیڈر
مخالفت کر سکتے ہیں۔ مزاکرات کو آگے بڑھانے والے کہتے ہیں کہ حکومت بنانے
کے لئے دونوں ہی پارٹیاں کچھ مسائل کو لے کر معاہدے کو نتیجہ خیربنانے کی
کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن دونوں جماعتوں کی اپنی پالیسیاں ان کے ہم آہنگی کے
راستے پر رکاوٹ بنی ہوئی ہیں.مقبوضہ جموں کشمیر میں ان انتخابات کو ڈھونگ
قرار دیا جارہا ہے۔ جس میں انتخابی نتائج کے محض 17 دن بعد یعنی 9 جنوری کو
قابض بھارتی حکومت نے گورنر راج نافذ کر دیا ہے۔ مقبوضہ ریاست کے گورنر ’’
نریندر ناتھ ووہرا‘‘ نے یہ انتہائی قدم بھارتی صدر پرناب مکھر جی کے حکم پر
اٹھایا۔ 23 دسمبر کے انتخابی نتائج کے مطابق 87 رکنی ریاستی اسمبلی میں سے
28 سیٹیں PDP کو ، 25 BJP کو ،15 نیشنل کانفرنس کو اور 12 کانگرس کو جبکہ 7
سیٹیں دیگر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امید واروں کو حاصل ہوئیں۔ بھارتی
انتخابات کو ڈھونگ قرار دینے والے اپنے موقف کی تائید میں انڈین آرمی کے
سابق چیف جنرل وی کے سنگھ کو دہراتے ہیں ،جنہوں نے 23 ستمبر 2013 کو کھلے
عام اعتراف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آج تک کوئی حکومت بھارتی فوج کی
مدد کے بغیر وجود میں نہیں آئی۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے وی کے سنگھ کے اس
بیان کے خلاف 30 ستمبر 2013 کو ایک قرار داد بھی منظور کی تھی ۔ BJP کی
پوری کوشش تھی کہ وہ مقبوضہ ریاست میں اپنی حکومت بنا سکے یا حکومتی اتحاد
میں ا س کو اہم حیثیت حاصل ہو۔ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ BJP کی شرکت کے بغیر
کسی کو حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کہا جارہا ہے کہ گورنر راج
نافذ کر کے گویا اس دھمکی کو عملی شکل دی گئی ہے۔بھارتی حکومت نے ریاستی
آئین کی دفعہ 92 کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کو براہ راست اپنے انتظامی
کنٹرول میں لے لیا ہے۔ معاہدے کو نتیجہ خیز بنانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ
اگر مزاکرات کامیاب نہ ہوئے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی اتحاد حکومت
بنانے کے لئے سامنے نہ آیا تو چھہ ماہ بعد ازسرنو انتخابات کا اعلان
ہوگا۔گذشتہ 37 سال میں یہ چھٹا موقع ہے جب کشمیر میں سیاسی عدم استحکام کے
باعث ریاست کا انتظامی کنٹرول نئی دہلی نے اپنے ہاتھ لے لیا۔بھارتی جنتا
پارٹی (بی جے پی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے درمیان جموں و
کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ جن میں پی ڈی پی کے
سرپرست اعلیٰ مفتی سعید اور چیئرمین پی ڈی پی محبوبہ مفتی ، بی جے پی کے
ارون جیٹک لی اور بھگت رام شریک ہوئے ۔مقبوضہ ریاست میں سیاست کی فضا کشیدہ
ہے۔ بی جے پی اور اور پی ڈی پی ایک دوسرے کے سخت ترین مخالف جماعتیں ہیں۔
وادی کے مسلمانوں، جوحریت کے جذبے سے سرشار ہیں، کی نمائندگی پی ڈی پی کرتی
ہے۔ جبکہ بی جے پی جموں کے ہندوؤں اور اس موقف کی نمائندہ ہے کہ کشمیر
بھارت کا حصہ بنا رہے۔ دونوں جماعتوں کے دو مختلف حلقے اور ووٹرز ہیں۔ پی
ڈی پی کا کوئی بھی رکن اسمبلی ہندو نہیں ہے اسی طرح بی جے پی کا بھی کوئی
ممبر مسلمان نہیں ہے۔بے جے پی کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ وزیراعلی ہندو ہونا
چاہیے۔ اس پر دونوں جماعتوں کے ڈائیلاگ بھی ہوئے ہیں۔ پی ڈی پی کے رہنما
مفتی سعید نے بی جے پی کے رہنماؤں کو بتایا ہے کہ ’اگر میں آپ کے اس مطالبے
کو تسلیم کرلوں کہ آپ کا آدمی سری نگر کی حکومت کی قیادت کرے گا تو وادیء
کشمیر میں، میں عوام کو منہ دکھانے لائق نہیں رہوں گا۔‘اس پر بی جے پی کے
رہنما نے جواب دیا کہ ’اگر میں آپ کے مطالبے کو تسلیم کرلوں تو پورے ملک
میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہوں گا۔‘بے جے پی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ان
کے پاس دکھانے کو بھی کوئی مسلمان چہرہ نہیں ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر
میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، اور بھاری فوج اور پولیس کی جانب سے جبر
استبداد، تشدد کے واقعات بھی ہیں۔ حال ہی میں حقوق انسانی کی عالمی تنظیم
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کیخلاف طاقت کے بے تحاشہ
استعمال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے پلہالن کے نوجوان طالب علم کی ہلاکت
کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ 20 سالہ نوجوان طالب علم
فاروق احمد بھگت کو ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے گولی مار دی تھی۔ایمنسٹی
انٹرنیشنل کے پروگرام ڈائریکٹر شمیر بابو نے پولیس فورسز کی کارروائی کے
نتیجے میں فاروق احمد بھگت کے گولی لگنے سے ہلاکت کی مکمل اور غیر جانب
دارانہ تحقیقات کرانے پر زور دیتے ہوئے انکوائری مکمل کر کے ملوث اہلکاروں
کو قانون کی عدالت میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔۔بزرگ حریت رہنما سید
علی گیلانی نے بھارتی فوج اور پولیس کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں جبر و
استبداد کے بڑھتے ہوئے سلسلے پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ علی گیلانی نے قابض
انتظامیہ غیر قانونی طور پر نظر بند حریت رہنماؤں، کارکنوں اور عام کشمیری
نوجوانوں کو فوری طور پر رہا اور غیر اعلانیہ کرفیو اور پابندیوں کا سلسلہ
ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم ،پولیس
کی جانب سے رات کے وقت لوگوں کے گھروں میں گھس کر مکینوں کو ہراساں کرنے ۔
اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلا ف ورزیوں پر اب بھارت میں
بھی آواز اٹھنے لگی۔انسانی حقوق کی بھارتی تنظیم پیپلز یونین فار ڈیموکریٹک
رائٹس نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کالے قوانین کو منسوخ کرنے
کا مطالبہ کیا ہے ۔
|
|