بارود کے ڈھیر پر تعمیر ہوتا نیا ہندوستان
(RAHMAT KALIM, NEW DELHI)
مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ
ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں الگ الگ ریکارڈ قائم ہو تے رہے ہیں اور تاہنوز
یہ سلسلہ جاری ہے،مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور قومی راجدھانی میں عام
آدمی کی سرکار جس طریقے سے بنی اور جو اکثریت ان دونوں پارٹیوں کو ملی وہ
یقینا ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں الگ حیثیت سے یادر کھی جائیں گی۔آج سے
تقریباً دس ماہ قبل ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکارجیسے ہی بنی ،مودی
اور امت شاہ کے کردارسے خائف اقلیتی طبقہ اور سیکولر جماعت کے چہرے سے خوشی
اچانک غائب ہوگئی اور انہیں اپنے وجود اور ملکی سلامتی کا ڈر ستانے لگا ۔چونکہ
بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام لیتے ہی اقلیتوں کے ذہن میں مہاتما گاندھی کے
قتل کا جانکاہ واقعہ،بابری مسجدکی شہادت اور گجرات کے قتل عام جیسے دل دہلا
دینے والے سانحات آنکھوں کے پردے پر گردش کرنے لگتے ہیں۔لیکن 26مئی 2014کو
راشٹر پتی بھون میں جب بطور وزیر اعظم نریندر مودی حلف لے رہے تھے اسی
دوران حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور
افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو دیکھ کر تھوری دیر کیلئے سیکولر ذہنیت کے
افراد کو ایسا لگا کہ شاید مودی ہندوستان کی جمہوری شبیہ کو برقرار رکھنے
کے ساتھ ساتھ اسکو مستحکم کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔لیکن یہ خوش فہمی بہت کم
وقت میں کافور ہوگئی چونکہ دوسری جانب وشو ہندو پریشد،ہندو مہاسبھا،آر ایس
ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اب پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ نکلنے کیلئے تیار
بیٹھی تھیں اور جیسے ہی نریندر مودی نے حلف لیا ،فرقہ پرستی کی بنیاد پر
قائم یہ جماعتیں اپنا رنگ دکھانے لگیں اور یکے بعد دیگرے اقلیتوں پر حملے
کرنے لگیں ۔مئی کے مہینے میں مودی سرکار ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کے بینر
تلے بنی اور اگلے مہینے ہی 17تاریخ کو شیو سینا نے اپنا رنگ دکھا دیا۔رمضان
کا مہینہ تھا ۔اور مسلمانوں کیلئے یہ ماہ مبارک عبادت وریاضت کیلئے خصوصی
اہمیت کا حامل ہے کہ وہ ان ایام میں احکام خداوندی کی بجا آوری میں شب و
روز مصروف رہتے ہیں۔دن میں روزہ اور رات میں خصوصی نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔
اسی مہینہ میں مہاراشٹر سدن میں شیو سینا کے لیڈر نے مسلمانوں کے اہم دینی
فریضہ پر حملہ کر دیا۔مہاراشٹر سدن کا ارشد نامی ایک مسلم نوجوان جو کھانے
کا غالباً انچارج ہے روزہ کی حالت میں اس کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونسی
گئی جبکہ وہ نوجوان کہتا رہا کہ میں روزہ سے ہوں ،میرا نام ارشد ہے،میں
مسلمان ہوں ۔اس کے باجود اس نوجوان کے منہ میں شیو سینا لیڈر رججن ویچارے
روٹی اس انداز میں ٹھونسنے لگے گویا کسی جانور کو زبردستی کوئی چیز کھلائی
جارہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ رججن کی اس حرکت کی ہر چہار جانب مذمت ہوئی لیکن
کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے ایسے بیانات آنے
لگے کہ سیکولراور انصاف پسند لوگوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی جمہوریت خود
اپنے وجود پر شرمندہ ہونے لگی۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ بیانا ت کا جو
سلسلہ شروع ہوا اور جو موضوع رہا اس کا مقصد سوائے فرقہ وارانہ فسادا ت
بھرکانے کے اور کچھ نہیں سمجھا جا سکتا۔اور یہ سب بیانات اس لیے بھی دیے
گئے چونکہ وی ایچ پی،شیو سینا،آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی یہ پوری کوشش رہی
ہے اور اب بھی ہے کہ ہندوستان کو خالص ہندو راشٹر بنایا جائے۔اور یہ بی جے
پی کی سرکار کے رہتے ہی شاید خواب دیکھا جاسکے اور اس کیلئے وقتاً فوقتاً
معمولی اور ناکام کوشش بھی کی جاتی رہی ہے لیکن یہ تو طے ہے کہ ہندوستان
ایک جمہوری ملک رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا ،اکثریت میں جو قومیں جہاں ہوتی
ہیں وہاں اس طرح کا خیال اور چھوٹے موٹے واقعات ہوجاتے ہیں۔لیکن اس کا خاصا
نقصان بھی ملک کو ہوتا ہے اوراگر یہی رویہ ملک کے وزراءاور سرکاری لیڈران
کا رہا تو شاید ہندوستان کو عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑے۔اگر ہم مجملاً
بھی ان نقصانات کا جائزہ لیں تو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہوگا کہ ہندوستان
ایک خطرناک مستقبل کی طرف گامزن ہے ۔غالباًستمبر میں’لو جہاد‘کا مسئلہ اٹھا
اوردیکھتے ہی دیکھتے شہرت اختیار کر لیا اور اس مسئلے کو اٹھانے والا کوئی
اور نہیں یوگی آدتیہ ناتھ تھا جس کی زہر افشانی سے پورا ملک واقف ہے ،اس
مسئلے کو اس انداز میں اچھالا گیا گویا مسلمانوں نے واقعی اس کو ایک ہتھیار
کے طور پر ہندوﺅں کے خلاف استعمال کیا ہو۔اور بی جے پی لیڈر شاکشی مہاراج
نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’لوجہاد‘کیلئے ہندوستان میں سعودی عرب فنڈنگ کر رہی
ہے۔شاکشی مہاراج کی طرف سے ایک اورتکلیف دہ متنازع بیان جڑا جو 14ستمبر
2014کا ہے جب انہوں نے اترپردیش کے قنوج میں ایک بیان دیا کہ” مدرسوں میں
دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے،یہ مدارس ان کو دہشت گرد اور جہادی بنارہے
ہیں،یہ قومی مفادات میں نہیں ہے،کوئی ایک مدرسہ بتاﺅ جہاں 26جنوری اور
15اگست کو ترنگا لہرایا جاتاہو۔ مدرسے جن کا قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں
ہے سرکار ان کا مالی تعاون کر رہی ہے جبکہ بہت سے اسکولوں کو یہ مراعات
حاصل نہیں ہیں “ایسے متنازع بیان کے بعد شاکشی مہاراج کی جس انداز میں
فضیحت ہوئی وہ و ہی جانتے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا بیان اس
آزادی کے ساتھ کیوں دیا اور پھر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں
کی گئی۔سن 2014میںاکتوبرکا مہینہ تھا اور اسی مہینے میں تر لوک پوری میں
فرقہ وارانہ فساد کرادیا گیا ۔ مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچانے کی سازش رچی
گئی تھی اس علاقے میں مسلمانوں کو اسی انداز میں مالی نقصانات سے دوچار
ہونا پڑا اور سب سے بڑا نقصان وہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خاتمہ کے
طور پر ہوایعنی سازش کامیاب ہوئی ۔فوری طور پر حکومت نے اس پورے معاملے میں
مداخلت بھی کی لیکن قانونی کارروائی اور انصاف جسے کہتے ہیں وہ کہیں دیکھنے
کو نہیں ملی۔تعجب کی بات تویہ ہے کہ سادھو سنت جس کے اصطلاح سے ہی امن و
سلامتی ،آپسی محبت و بھائی چارگی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ انسانیت کی
بقاءکیلئے سعی کرنے کا تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے لیکن بی جے پی سرکار میں
بہت سارے نام نہاد اور ڈھونگی باباﺅں،سادھوو سادھوی کا اصلی چہرہ بھی سبھوں
کے سامنے کھل کر آگیاہے۔اور مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی جس انداز میں ان
لوگوں نے زہر افشانی اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے کی کوششیں کی ہیںاس سے
ہر کوئی واقف ہے۔بی جے پی لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ موجودہ سرکار میں سب سے
زیادہ کھل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگست
2014میں اس نے کہاتھا کہ مسلم ایک ہندو لڑکی کو لے جائیں گے تو ہم ان کی
100لڑکیوں کو لے آئیں۔اور پھر پارلیمنٹ میں اس بی جے پی لیڈر نے کھلے عام
کہا تھا کہ”جب ہندﺅں پر خطرہ منڈلا رہا ہو تو اس وقت ان کو منظم اور متحد
ہو کر جواب دینا چاہیے،ہندو مذہب کے پیروکاروں کو اپنے آپ کو منظم کرنا
ہوگا تاکہ اس ملک کے لوگ اس طرح کی (اقلیتوں کی)منہ بھرائی کا مقابلہ کرنے
کیلئے ہر سطح پر تیار ہوجائیں“۔اور ایک دوسرے موقع سے اس نے یہ بھی کہا کہ
’جہاں مسلمانوں کی آبادی 40فیصد سے زیادہ ہوتی ہے وہاں غیر مسلم کیلئے کوئی
جگہ نہیں ہوتی“اور ایک یہ بیان بھی سامنے آیا کہ 6دسمبر کا واقعہ قابل
فخرہے۔مذکورہ تمام بیانات سے یہ واضح نظر آتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کراکر اقلیتوں کو ختم کرنے اور خالص ہندو
راشٹر بنانے کے پلان پر عمل پیرا ہیں ۔لیکن میں یوگی آدتیہ سے کہنا چاہوںگا
کہ کل جس طرح ہندوستان کی آزادی کیلئے اقلیتوں نے اپنے جان و مال کی قربانی
دی تھی آج بھی اسی طرح آزاد ہندوستان کی جمہوری اقدار کو بچانے کیلئے جان و
مال قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔علاوہ ازیں سال 2014کے آخری موڑ پر نہ
جانے ’گھر واپسی‘کے نام سے کس انداز میں اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو پامال
کرتے ہوئے دستور ہند کا مذاق اڑایاگیا ،کیرالہ،گوا اور آگرہ میں تبدیلی
مذہب کے نام پر جو مذہبی ڈھونگ دیکھنے کو ملا وہ یقینا جمہوری ہندوستان کو
داغدار کرنے والا تھا اور کیا بھی ۔ایک بیان آیا کہ 1400سال قبل سارے لوگ
ہندو تھے تو اعظم خان ،پرویز مشرف،گیلانی اور شاہی امام بخاری کو گھر واپسی
کرلینی چاہیے۔مذکورہ بیان سادھوی پراچی کا ہے،اس نے امام بخاری کو بھینسا
تک کہہ دیا تھا ۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح کی گندگی زبان وفکرکے
مالک بی ج پی لیڈران ہیں اور کس پروگرام کے تحت سرگرم ہیں۔ پھر نئے سال کے
آغاز سے ہی تبدیلی مذہب کا نیا ڈرامہ بھی شروع ہوگیا ،ہندتو تنظیمیں
باضابطہ انداز میں اس کیلئے قانون کا مطالبہ کرنے لگیں، ساتھ ہی قومی عدالت
کو چیلنج بھی۔اتراکھنڈ کے شنکر آچاریہ واسو دیونند سرسوتی نے 8جنوری کو کہا
کہ دس بچے پیدا کرو تاکہ اس ملک میں ہندو اقلیت میں نہ آجائیں۔ملک میں
تبدیلی مذہب کو روکنے کیلئے سخت قانون کی ضرورت ہے‘۔بچہ پیدا کرنے کی بات
آگئی تو میں بتا دوں کے بچہ پیدا کرنے سے لیکر بچے کی اصلیت تک کے موضوع پر
ہمارے ہندوستان میں چند جاہل اور بدقماش لیڈران کے مابین کافی بحث ہوئیںاور
بچہ پیدا کرنے کیلئے ایسے ایسے سادھوی اور سنت ہندو خواتین سے مطالبہ کرنے
لگیں جو خودایک بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔بیان بازی اس انداز میں
ہورہی تھی گویا کسی شئے کو فروخت کرنے کیلئے بولی لگائی جارہی ہو۔کسی نے
کہا کہ ہر ہندو خاتون چار چار بچیں پیدا کریں تو کسی نے کہا آٹھ آٹھ بچے تو
کسی نے کہا دس بچے پیدا کرو سادھوی پراچی ،اشوک سنگھل نے اپنے اپنے بیان
میں کہاتھا کہ ’چار چار بچے پیدا کرو‘۔سادھوی پراچی نے اپنے پورے تیور کے
ساتھ کہا تھا کہ’میں لوگوں سے کہتی ہوں کہ4بچے پیدا کریں،40پلے نہیں۔شیر کا
ایک بچہ نہیں ہوتا،ہم کو ہر خاندان میں چار بچوں کی ضرورت ہے۔ایک سرحد پر
دشمن سے لڑانے کیلئے،ایک بچہ سنتوں کو دیںاور ایک بچہ سماج سیوا کیلئے وی
ایچ پی ۔‘اس کے بعد آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ ’جو انگلینڈ
میں رہتے ہیں وہ انگلش کہلاتے ہیں،جو جرمنی میں رہتے ہیں جرمن کہلاتے
ہیں،جو امریکہ میں رہتے ہیں امریکی کہلاتے ہیں،اسی طرح جو لوگ ہندوستان میں
رہتے ہیں وہ’ہندو‘کہلاتے ہیں‘۔سادھوی پراچی نے کہا کہ’ہندوستان میں جو بھی
بچہ پیدا ہوتا ہے وہ ہندو ہوتا ہے۔اویسی(اکبرالدین)کے والد(صلاح ا
لدین)ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے اس لیے وہ بھی ہندو تھے۔اگر اویسی اپنی
شناخت قبول نہیں کرتے ہیں تو ان کو پاکستان چلے جانا چاہیے‘۔مذکورہ بیانات
پر جس انداز میں ہنگامہ ہوا اس کی ایک الگ کہانی ہے ۔لیکن ہر محاذ پر
اقلیتوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت کے انصاف کی جانب دیکھا اور کسی
قسم کی غیر ضروری حرکت نہیں کی۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ
کو آج بھی سیکولر کہہ رہے ہیں اور ہر اعتبار سے بہت مضبوط ہیں ان لوگوں نے
بھی ایسے ماحول میں ان اقلیتوں کا ساتھ نہ دیا اور خاموش تماشائی بنے
رہے۔بہر کیف یہ تو اقلیتوں کا مسئلہ تھا لیکن افسوس اور حد درجہ افسوس اس
وقت ہوا جب قومی باپو موہن داس کرم چند گاندھی جی کو نشانہ بنایا گیا۔اور
ان کے قاتل ناتھو رام گوڈ سے کی حب الوطنی کی گونج پارلیمنٹ تک ان بی جے پی
لیڈران نے پہنچائی ،ساتھ ہی گوڈ سے کی مورتی بھی جگہ جگہ نصب کرنے کی
کوششیں کی گئیں۔سادھوی پراچی نے مہاتما گاندھی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا
کہ’گاندھی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بڑھا
دو،اگر آج وہ ہوتے تو میں پوچھتی کہ تیسرا گال کہاں سے لائیںگے“۔حد تو یہ
ہے کہ مدر ٹریسا کے زریں کارناموں کو ان ڈھونگیوں نے غلط رنگ میں رنگ کر یہ
کہہ دیا کہ یہ سب تبدیلی مذہب کی غرض سے کیا ہوا ان کا کام تھا۔موہن بھاگوت
نے کہا کہ’مدر ٹریسا کے ذریعہ غریبوں کی خدمت کے پس پشت واحد مقصد لوگوں کو
عیسائی بنانا تھا۔مدر ٹریسا کی خدمات اچھی ہے لیکن اس کا ایک ہی مقصد تھا
کہ لوگوں کو عیسائی بناﺅ“۔اور پھر سادھوی پراچی نے کھلے عام ان پر الزام
لگایا کہ’مدر ٹریسا نے خدمات کے نام پر لوگوں کا تبدیلی مذہب کرایا اور
انہیں عیسائی بنایا‘۔یہ کوئی کہنے کی بات نہیں ہے کہ مذکورہ بیان سے عیسائی
طبقہ کے ساتھ ساتھ مدر ٹریسا اور حقیقی محب وطن کے دل کو زبردست ٹھیس پہنچی
ہوگئی،لیکن حیرت تو تب ہوتی ہے جب سرے عام جمہوریت کے باپو اور انسانیت کی
پجارن مدر ٹریسا کو نشانہ بنائے جانے کے بعد بھی حکومت خاموش رہتی ہے۔حالیہ
دنوں جسٹس کاٹجو نے بھی مہاتما گاندھی کو نشانہ بنایا لیکن سوائے روایتی
مذمتی قرار داد پاس کرنے کے اور کچھ نہیں کیا گیا ۔فروری کے مہینے میں دہلی
میں ایک چرچ پر حملہ ہوا،یک بعد دیگرے تین ماہ کے اندر کئی مقامات پر چرچ
کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے لیکن حکومت خاموش تھی اور
ہے،بہار کے مظفر پور اور سیتا مڑھی میں فرقہ وارانہ فساد ات کرانے کی کوشش
کی گئی پھر بھی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔سبرامنیم سوامی نے گزشتہ
دنوں ایک بیان کے ذریعے مسلمانوں کو حراساں کرنے کی کوشش کی اور کہاکہ’مسجد
مذہبی مقام نہیں ہے،یہ ایک عام عمارت کی طرح ہے جس کو کسی بھی وقت منہدم
کیا جا سکتا ہے‘پھر بھی مودی سرکار سکوت اختیار کیے ہوئی ہے،ناگالینڈ کے
دیماپور میں مسلم نوجوان کو غلط الزام میں پھاند کر جیل سے نکال کر بہیمانہ
انداز میں قتل کر دیا گیا پھربھی سرکار غیر متحرک رہی۔اب سوال یہ اٹھتا ہے
کہ ہندوستان کی موجودہ سرکار جس کا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ہے پھر بھی
کسی کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی ہے کسی کی ترقی اور خوشحالی تو دور کسی کو
تحفظ کیوں نہیں دے رہی ہے۔بالخصوص آج اقلیتوں پر مظالم کیے جا رہے ہیں اور
حکومت پوری طرح اس جانب سے بے پرواہ ہے ۔ہم اگر اقلیتوں کی بات کو چھوڑ دیں
تو بھی موجودہ سرکار جمہوری اقدار کو بچانے کے لیے ہی کہاں کچھ کر رہی ہے ۔سوپر
پاور امریکہ کے طعنے سننے کے بعد بھی حکومت کے اندر احساس کیوں نہیں پیدا
ہوا۔ایسے میں یہ شک ظاہر کرنا کوئی غلط نہیں ہوگا کہ یہ سب جو ہو رہا ہے
سرکار کے اشارے پر ہو رہا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بارود کے ڈھیرپر
ایک نئے ہندوستان کی تعمیر ہو رہی ہے جس سے کسی بھی وقت بھیانک حادثہ عین
ممکن ہے۔اور حالیہ دنوں جو دیکھنے میں آیا کہ مہاراشٹر این سی پی حکومت نے
مسلمانوں کو تعلیم و روزگار میں ۵فیصد تحفظات کا جوفیصلہ کیا تھا ،ممبئی
ہائی کور ٹ نے مسلمانوں کی تعلیمی تحفظات کو برقرار رکھتے ہوئے ملازمتوں
میں تحفظات پر حکم التواءجاری کیا ۔عدالت نے اس کا جواز پیش کرنے کیلئے
حکومت کو تین ہفتے کی مہلت بھی دی لیکن موجودہ بی جے پی اور شیو سینا حکومت
نے عدالت میں تحفظات کا دفاع کرنے کے بجائے اسے کالعدم کردیا۔اسی طرح
مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے ذبیحہ پر امتناع سے متعلق ۶۱ سال پرانے
قانون کو صدر جمہوریہ سے منظور کرالیا،اس کے بعد سے گائے او ر بیف کے خلاف
پورے ہندوستان میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے گویا جو
لوگ گائے یا بیف کھاتے ہیں یا اس کی تجارت کرتے ہیں وہ سب کے سب ملک کے
دشمن ہیں اور قانون کی نظر میں بہت بڑا مجرم ہے،میں اس کی تفصیل نہیں پیش
کروں گا کہ بیف کو کھانے اور استعمال کرنے والے کن کن مذاہب سے آتے ہیں
لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ گائے جو بطور خاص مسلمانوں کے یہاں قربانی کی جاتی
ہے اس کا ایک مذہبی پس منظر ہے ،اس پر پابندی عائد کرنا ، یعنی مسلمانوں کی
آزادی مذہب کے ساتھ ساتھ آئین کے دفعہ نمبر 25کی معنویت کو بھی مجروح کرنا
ہے۔پھر جگہ جگہ دیواروں پر یہ لکھنا کہ‘گائے کو ذبح کرنے والوں کو پھانسی
ہو،گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے‘ساتھ ہی ساتھ احتجاج و مظاہر ہ کرکے
حکومت پر دباﺅ بنا نا یا پھر یوں کہیں کے مودی سرکار کے پلان کے مطابق آواز
اٹھانا کہیں نہ کہیں سیکولر انڈیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ایسے میں
میں ان تمام جمہوری سوچ کے حاملین ، انسانیت کے قائلین اور سیکولر ہندوستان
کے حقیقی بہی خواہوں سے کہنا چاہوں گا کہ اب اور نہ صبر کریں ،خدا را ملک
کی گنگا جمنی تہذیب کی بقاءکیلئے بیدار ہو جائیں،ہندو مسلم، سکھ عیسائی آپس
میں سب بھائی بھائی کے اس نعرے کو تقویت پہنچانے کیلئے آپ حرکت
کریں،مجاہدین آزادی کی روح کو سکون پہنچانے کیلئے اس فرقہ وارانہ جنگی
ماحول کے خاتمے کی سعی کریں۔ہندوستان کی آبرو اور عزت کیلئے آپ میدان میں
آئیں ،اگر مزید غفلت برتی گئی تو ہندوستان عالمی پیمانے پر شرمسار ہوجائے
گا اورپھر آپ دیکھنے کے ساتھ کف افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہیں کر پائیں
گے۔چونکہ ہندوستان بہت بڑی تباہی کے راستے پر گامزن ہے جس کی قیادت آر ایس
ایس لیڈر موہن بھاگوت،سبرامنیم سوامی،یوگی آدتیہ ناتھ،ساکشی مہاراج،سادھوی
پراچی،سادھوی بالیکا سرسوتی،سادھوی نرنجن ،شنکر اچاریہ واسودیوجیسے نام
نہاد ہندو قائدین اور جمہوریت کے دشمن کر رہے ہیں پھر پیچھے سے موجودہ
مرکزی سرکاران زعفرانی دستے کے لیڈران کو تقویت پہنچا رہی ہے۔ |
|