مسلم سیاستدانوں کا آئٹم سانگ۔۔۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی کمی نہیں ہے سو کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد پورے بیس کروڑ ہے لیکن کمی ہے تو مسلم قیادت کی جوجنگ آزادی کے بعد مسلسل ختم ہوتی جارہی ہے ۔ جنگ آزادی سے قبل ہندوستان میں مسلمانوں کا راج تھا اور جب انگریزوں نے اس ملک کو اپنے قبضے میں لیا تو ان کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ان مسلمانوں نے ہی اہم کردار اداکیا۔ ہندوستان آزاد ہوااور پاکستان نے دوسرا ملک بناتو یہاں مسلم قائدین کا فقدان ہونے لگا اور آج صورت اس قدر بدتر ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ملّی قائدین کی کمی ہونے لگی لیکن ایک یہ ہے کہ آج بھی مختلف پارٹیوں میں مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے مسلم سیاستدانوں کی کمی نہیں ہے بھلے وہ اپنی پارٹیوں کے لیڈر ہیں لیکن انہیں مسلمانوں کے لیڈر کے نام سے منسوب کیا جارہاہے اور مسلمان ان سیاستدانوں کو اپنا لیڈر ماننے پر مجبور ہیں۔ دراصل ہر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ انکی پارٹی میں چند ایک مسلم چہرے ہوں جومسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرسکیں ۔ بالکل اسی طرح سے جس طرح سے کسی فلم کو سوپر ہٹ بنانے کے لئے آجکل آئٹم سانگ کا استعمال کیا جارہاہے۔ آج چند ایک مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹیوں میں آئٹم سانگ پیش کرنے کے لئے منتخب کررہے ہیں اور انکے چہرے دکھادکھا کر مسلمانوں کو بہلارہے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ تمام حکومتیں ایسے ہی لوگوں کو عہدوں سے نواز رہی ہیں جن سے نامزد کرنے کے بعد یہ شکوہ دور ہوجائے کہ پارٹی نے مسلمانوں کو یکساں اہمیت دی ہے لیکن وہ ایسے مسلمانوں کا ہی انتخاب کرتی ہے جن سے مسلمانوں کے مسائل دور نہ ہوں اور مسلمان سالے بھوکے کے بھوکے ہی رہیں۔ ایسے وقت میں مسلمان اپنے نظریات کو بدل سکتے ہیں اور کسی ایسے شخص کی تائید واطاعت کرسکتے ہیں جس میں کم از کم قوم وملّت کاجذبہ ہو اور مسلمانوں کے مسائل کو سننے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے اور ایسی شخصیات کو گور تک پہنچائیں جو مسلمانوں کی قیادت کے نام پر بینکوں کو لوٹ لیں، تعلیمی اداروں کا قیام کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کو گمراہ کرے ۔ اسٹیجوں پر اﷲ و رسول ﷺ کا واسطہ دے اور جب کام کرنے کاوقت آئے تو اپنا موبائل سوئچ آف کرلے ۔ ہمارے درمیان ایسے کئی کم بخت لیڈران ہیں جو برسوں سے مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں۔ لیکن اب قوم ان نظریات میں تبدیلی لائے اور اپنے قائد کو ایک مقام دیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کی قیادت کے لئے اﷲ اب کسی اور مخلوق کو ہمارے درمیان بھیجنے والا نہیں ہے بلکہ ہمیں اب اپنوں میں سے کسی ایک کومنتخب کرنا ہے ایسی کچھ شخصیات ہمارے درمیان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ اچھے ہیں لیکن برے سیاستدانوں سے خوف کھاکر ہم اچھوں کی تائید کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ مسلم قیادت کا مسئلہ حل کرنا ہے تو مسلمانوں کو ہی آگے آناہوگا کیوں کہ غیرتو چاہتے یہی ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہ ہواور مسلمان دوسری قوموں کے ماتحت رہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جو مسلم سیاستدان سیاسی اکھاڑے میں پانی پی چکے ہوتے ہیں وہ دوسرے سطح کی سیاست کے لئے نئی نسلوں کو موقع بالکل بھی نہیں دیتے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ انکے سامنے کوئی اور قیادت کرے اور نئی نسل میں لیڈر بننے والے کے سامنے انکا نام پھیکا پڑے ۔ ہمارے یہاں پچھلے دو دہائیوں سے جن لوگوں نے مسلم سیاسی لیڈروں کی ایکٹنگ کی ہے وہ اپنے مفادات کی تکمیل میں کامیاب رہے ہیں ، انہوں نے اپناالّو تو سیدھا کرلیا ہے لیکن مسلمانوں کو امیدوں اور بھروسوں کے سواء کچھ نہیں دیا۔ انگریز وں کی حکومت کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاقیام ہوا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد پڑھی لیکن آزادی کے بعد جو مسلم رہنماء آئے وہ مسلمانوں کو چونا لگا کر چلے گئے ۔ ہاں کچھ سیاسی لیڈروں نے پچھلی کانگریس حکومت کے دوران اعلانات ضرور کئے مگر انکے اعلانات محض اخباروں کی سرخیاں بن سکے عمل کے میدان میں اسکا کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان جو مسلم سیاسی لیڈران ہیں ان میں سب کے سب چور ہیں لیکن ان سیاسی لیڈروں میں چوروں کی ہی اکثریت ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان حیدرآباد کے بیرسٹر اسدالدین اویسی، کرناٹک کے روشن بیگ، اترپردیش کے اعظم خان، مولانا عطاء الرحمان قاسمی اور آسام کے مولانا جمال الدین اکمل جیسے لیڈران اپنی بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی قیادت کررہے ہیں لیکن ان لیڈروں کی ہی ٹانگ کھینچنے کے لئے مسلمانوں کے ہی کئی لیڈران صف آراء ہوچکے ہیں اور وہ خود بھی قائد بننا نہیں چاہتے اور دوسروں کی قیادت کو بھی قبول نہیں کرتے یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا محمد شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، محمد علی جناح اور ایسے ہی سینکڑوں مسلمانوں نے صرف قوم اور ملک کے لئے کام کیا تھا اور قوم انہیں یہی وجوہات کی بناء پر اپنا قائد مانتی تھی حالانکہ ان سیاسی لیڈروں میں بھی اختلافات تھے اور یہ اختلافات نظریات کی بناء پر تھے نہ کہ حسد و جلن ان میں موجود تھا لیکن آج ہمارے لیڈروں میں جس حسد کی شدت پائی جاتی ہے اگر وہی شدت قوم کی قیادت کے تئیں ہو تو یقینا قوم کی قیادت کرنے والے افراد کی کمی ہوجائیگی ۔ اب بھی مسلمانوں اور مسلم سیاسی لیڈروں کے پاس وقت ہے کہ وہ متحدہ طورپر لائحہ عمل تیار کریں اور مسلمانوں کی سہی قیادت کرتے ہوئے مسلم قوم کوریزہ ریزہ ہونے سے بچالیں۔
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.