نریندر مودی سرکار کر ۳۰۰ دن اسی
بے رنگ انداز میں پورے ہوئے جیسا کہ حالیہ غیر ملکی دورہ بے نام و نشان
ٹھہرا۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں کہاں گئے اور کیا کچھ کیا؟۳۰۰ دن
کی تکمیل پرنہ ان کے کسی چمچے کو اور نہزعفرانی پریوار کو اس کاخیال
آیا،نہپردھانسیوکاورنہہیانکردفترنےجشنمنایا۔ لیکن مخالفین نے انہیں ضرور
یاد دلایا کہ ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ والا گمراہ کن نعرہ لگانا جس قدر
آسان ہے اس کوعملاً کردکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ان ۳۰۰ دنوں میں جو سب سے
بڑا کارنامہ مودی جی نے انجام دیا ہے وہ ۶۰۰ فرقہ وارانہ وارداتیں ہیں ۔ یہ
ایک ایسا ریکارڈ ہے کہ جسے خود ان کے سوا کوئی اورآسانی سے نہیں توڑ سکتا۔
اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں ۴۵۱ واقعات مسلمانوں کے خلاف
ہوئے ہیں وہیں ۱۴۹ عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کسی ایسی بے ضرر اورسیاسی
طور پر بےوزن اقلیت پر اس قدر بڑی تعداد میں حملےمودی سرکار کی بے مہار
فسطائیت کے غماز ہیں۔
ایک طرف تو بی جے پی کا اقلیتوں کے حوالے سے یہ معاندانہ رویہ ہے دوسری
جانب مسلمانوں کے اندر علٰحیدگی پسندوں کی دل پسند پی ڈی پی کونہ صرف اس کی
حمایت حاصل ہےبلکہ وہ اسکی حکومت میں شریک کار بھی ہے ۔ مہاراشٹر اور
ہریانہ میں گئو کشی پر پابندی لگانے والی بی جےپی گو ا کے اندراپنے ہاتھوں
سے گئو ونش کا گوشت پروس رہی ہے۔ اس منافقانہ طرز عمل کی روشنی میں سنگھ
پریوار کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی نفسیات کو نظر انداز
کردینا ایک بڑی غفلت ہے لیکن اس کا اپنے آپ پر قیاس کرلینا عظیم ترین
حماقت ہے۔ اپنے پر قیاس سے مراد یہ ہے کہ دشمن کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ
بھی کسی خاص مسئلہ پر اسی طرح سے سوچتا ہوگا کہ جیسے کہ ہم سوچتے ہیں ۔
اس تمہید کے بعد اگر آپ سے پوچھا جائے کہ بتائیےلکشمی کانت پرسیکر کون ہے
تو اکثر لوگ اپنی لاعلمی کا ظہار کریں گے ۔ ایک آدھ کہہ دے گایہ منوہر
پاریکر کا کوئی رشتہ دار ہو گا اس لئے کہ نام مشابہہے۔ اندازہ درست ہے۔ یہ
پاریکر کے رشتے دار نہیں بلکہ سیاسی وارث ہیں ۔ مودی جی نےجب شکست خوردہ
ارون جیٹلی کو وزیر خزانہ کے ساتھ وزارتِ دفاع کا عہدہ بھی سونپ دیا تو لوگ
طعنے کسنے لگے کہ کیا انہیں اپنے پورے سنگھ پریوار میں ایک بھیایسااہل اور
قابلِ اعتماد آدمی نہیں ملا جس کووہ دونوں میں سےکوئی ایک عہدہ سونپتے؟ اس
تنقید وتشنیع سے تنگ آکر مودی جی نے تمام بڑےدفاعی سودوں سے نمٹ لینے کے
بعدبادلِ ناخواستہوزارتِ دفاع کا قلمدان ڈاکٹرمنوہر پاریکر کوسونپ دیااور
پرسیکر کو ریاستِ گوا کاعزت مآب وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ نریندر مودی اور موہن بھاگوت وغیرہ یہ باور کرانے
میں کامیاب ہو گئے تھے کہ کذب بیانی میں سنگھپریوار کا کوئی ثانی نہیں ہے ،پرسیکر
نے سچ بول کرساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ پرسیکر ان لوگوں میں سے نہیں ہیں
جنہوں نے سبرا منیم سوامی کی مانند اقتدار کی لالچ میں بھگوا چولا اوڑھ لیا
ہو بلکہ وہ آرایس ایس کے گوا میں سربراہ ہوا کرتے تھے۔ آرایس ایس نے
انہیں چند ساتھیوں کے ساتھ ۱۹۹۰ کے اندر بی جے پی میں بھیجا اور کہا پورے
۴۰ حلقوں پر انتخاب لڑاؤ۔اس وقت بی جے پی کی حالت ایسی گئی گزری تھی کہ
اسے صرف گیارہ امیدوار میسر آئے وہ سارے کےسارے انتخاب ہار گئے ۔ ۱۹۹۴
میں ۴ کامیاب ہوئےاس کے بعد ۱۰پھر ۱۴ اور بالآخر ۲۱ اس طرح اپنے بل بوتے
پر بی جے پی گوا کے اندر اقتدار میں آگئی۔ پرسیکر نے اعتراف کیا کہ۲۰۰۲
تک خود انہیں اپنے حلقہ انتخاب کے ان پولنگ بوتھ میں جہاں ۱۰۰فیصد عیسائی
رہتے ہیں ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا لیکن بتدریج بڑی محنت سے ۲۴ سال بعد
اقلیتوں کا اعتماد حاصل ہوا۔
اس پس منظر میں گوا کے وزیراعلیٰ پرسیکر کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں پر اقلیتوں
کا اعتماد حاصل کرنے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے جسے ہم یونہی نہیں گنوا سکتے۔
بڑے جانور کا گوشت گوا کی اقلیت کے غذا کا جزو لاینفک ہے اس لئے مرکزی
حکومت کےموقف سے قطع نظر ہم گوا میں اس پر کیوں اور کیسے پابندی لگا سکتے
ہیں؟ اس طرح گویا مہاراشٹر اور ہریانہ کے بعدقومی سطح پر مرکزی حکومت کا
بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرنےکی راہ میں خودبی جےپی کی اپنی
گوا سرکار آڑے آگئی۔ پرسیکر کے مطابق وہ گائے سے متعلق ہندووں کے جذبات
جانتے ہیں لیکن اس کا اطلاق بیل پر نہیں ہوتا ۔ ویسے گوا میں گائے اور بیل
دونوں ذبح نہیں ہوتے مگر بڑے جانور کا گوشت کرناٹک اور مہاراشٹر سے درآمد
کیا جاتا ہے۔ یہ اجازت نامہ جاری رہے گا اس لئے کہ گوا کے عیسائی اور
مسلمان وہ گوشت کھاتے ہیں ۔
اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ گویا اجازت کی بنیادی وجہ لوگوں کے عادات و
اطوار ہیں۔لیکن کیا صرفگوا کا اقلیتی فرقہ بڑے کا گوشت کھاتاہے؟مہاراشٹریا
ہریانہ کےمسلمان و عیسائی بلکہ ہندو بھی بڑے کا گوشت نہیں کھاتے؟ ایسا نہیں
ہے حقیقت یہ ہے کہ گوا میں بی جے پی کو اقتدار میں رہنے کیلئے عیسائیوں کے
ووٹ کی ضرورت ہے اس لئے وہ انہیں ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لےرہی۔ جموں
کشمیر میں تو وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی اس لئے کہ جس دن اس کا مطالبہ
ہوگا اسی دن سرکار گر جائیگی اس لئے بی جے پیدستور کی دفعہ ۳۷۰ کا ذکر بھی
نہیں کرتی۔ خود اس کی اپنی امیدوارحنا بٹ ببانگ دہل اعلان کرتی ہیں کہ اگر
کسی نے دفعہ ۳۷۰ پرنگاہِ غلط ڈالی تو وہ بندوق اٹھا لیں گی اس کے باوجودحنا
پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ یہ اقتدار کا کھیل ہے۔
گوا میں ۲۶ فیصدباشندے عیسائی ہیں اور بڑے کا گوشت کھانے والی آبادی
تقریباً۳۰ فیصد ہے جن کیلئے۳۰ سے ۵۰ ٹن گوشت روازآنہ درکار ہوتا ہے۔ اس
لئے جب وہاں کے گوشت بیوپاریوں نے گئورکشا سمیتی کی بیجا مداخلت سےتنگ آکر
مارچ کے وسط میں ہڑتال کردی تو عیسائیوں نے بڑے جانور کے گوشت کی کمی پر
شور مچانا شور کردیا۔اب بات اجازت کی حدود سے نکل گئی ،عوام کے غم و غصے سے
گھبرا کر خود بی جے پی حکومت نے کرناٹک اور مہاراشٹر سے بڑے جانور کےگوشت
کی درآمدکرنا شروع کردیا ۔ یہ عجب منا فقت ہے کہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں
جہاں بڑے جانور کا گوشت رکھنا ناقابلِ ضمانت جرم ہے وہیں گوا کی حکومت
خودوہی جرم ببانگِ دہل انجام دے رہی ہے۔ دراصل ان ابن الوقتوں کی شریعت اور
حرام وحلال کا واحد پیمانہ سیاسی فائدہ ہے اس لئے اگر مہاراشٹر میں گائے کو
مقدس قراردینے سے ووٹ ملتے ہیں تو اس کے سارےخاندان کو پوتر مان لیا جائے
اور گوا میں ایسا کرنے سے ووٹ گھٹتے ہیں تو اس تقدس کو پامال کردیا جائے ۔
یہ ہے سنگھ پریوار کا سوریہ نمسکار۔
اس دوران عیسائی سماج پردل دہلا دینے والےحملے کی خبر مغربی بنگال کے رنگا
گھاٹ سے آئی جہاں ایک ۷۲ سالہ راہبہ کی عصمت دری کی گئی۔ اس واقعہ کو چوری
کی واردات کہہ کر ہلکا کیا جارہا ہے لیکن مغربی بنگال کے اقلیتی کمیشن کی
نائب صدر پروفیسر ماریہ فرنانڈیس نے موقعہ ٔ واردات کا دورہ کرنے کے بعد
بتایا کہ انہیں اندیشہ ہے اس کا تعلق’’ گھر واپسی‘‘ یعنی تبدیلیٔ مذہب سے
ہے۔ اس لئے کہ حملہ آوروں نے ساری کم عمر راہباوں کو ایک کمرے میں بند
کردیا اور ان سب کی سربراہ بزرگ ترین راہبہ کی عصمت و عفت سےدوسرے کمرے میں
کھلواڑ کیا۔ کلیسامیں توڑ پھوڑ کرنے کے بعدمقدس صحیفوں کی بے حرمتی بھی کی۔
اس لئےماریہ سوال کرتی ہیں کیا یہ گھر واپسی کا حصہ نہیں ہے؟
عیسائیوں پر ہونے والے تازہ حملوں سے ناراض ہو کر پدم بھوشن یافتہ سابق
پولس افسر جولیو ریبیرو نے این ڈی ٹی وی پرکہا کہ ساری عمر قوم کی خدمت
کرنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے میں اپنے ہی ملک میں ہٹ لسٹ پر آگیا ہوں۔
ویسے ان پر ۱۹۸۶ میں پنجاب کے اندر جان لیوا حملہ ہوچکا ہے۔ ریبیرو نے
اپنا ماضی بیان کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ ۲۹ سال قبل وزیراعظم
راجیو گاندھی کی ذاتی گزارش پر وہ وزارت داخلہ میں سکریٹری کا عہدہ چھوڑ کر
شورش زدہ پنجاب گئے تھے ۔ قومی جنگ میں شریک ہونے کی خاطرانہوں نے جب کمتر
عہدہ قبول کیا تو پارلیمانی سکریٹری دیشمکھ اور صدر مملکت گیانی ذیل سنگھ
نے ان سے سوال کیاکہ وہ اس پیشکش کو کیوں قبول کررہے ہیں ۔پنجاب میں ان کے
جانے کے بعد ۲۵ آرایس ایس کے کارکنان کو خالصتانیوں نے ہلاک کردیا ۔ ہلاک
شدگان کے گھر وں پر گورنر رائے اور جولیو ریبیرو گئے ۔ لوگوں نے گورنر
کوبھگا دیا لیکن ریبیرو کا استقبال کیا۔ آج انہیں لوگوں کی نگاہ میں
عیسائی ہونے کے سبب ریبیرو ناپسندیدہ ہوگئے ہیں بلکہ ہندوستانی تک نہیں رہے۔
ریبیرو کا کہنا ہے کہ عیسائی تو صرف دو فیصد ہیں آگے چل کر اگر یہ انتہا
پسند مسلمانوں کارخ کریں تو وہ تصور نہیں کرسکتےکہ اس ملک کا کیا حشر ہوگا؟
جولیو ریبیرو نے سی این این آئی بی این پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ
ہندوستان پاکستان بن رہا ہے۔ انہوں نے یہ بیان یوحنا آباد کے واقعہ کے پس
منظر میں دیا ہوگا جہاں دو خودکش حملوں میں ۱۵ لوگ ہلاک ہوئے۔ جولیو ریبیرو
کو پتہ ہونا چاہئے کہ مذکورہ کلیسا کے مسلمان چوکیدار نے اپنی جان پر کھیل
کر دہشت گرد کو اندر داخل ہونے سے روکا۔ مشتعل عیسائیوں نے دو لوگوں کوشبہ
میں مار مار کر ہلاک کردیا اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔ چار پولس والے جو
میچ دیکھ رہے تھے انہیں یر غمال بنا لیا۔ کیا اس طرح کے ردعمل کی توقع
ہندوستان میں عیسائی تو کجا سکھ یا مسلمان بھی کرسکتے ہیں؟ اس شدیدردعمل کے
باوجود عوام نے مشتعل ہجوم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ دہلی میں
سکھوں کے ساتھ اور گودھرا کے بعدسارے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ
ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ایسے مواقع پرہندوستان میں عوام اقلیتوں پر پل پڑتے
ہیں اور انتظامیہ و سیاستداں ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
گوا میں بی جے پی نےعیسائیوں کا اعتماد کیسے حاصل کیا اس کو ایک اور مثال
سے وزیراعلیٰ پرسیکرنے واضح کیا ۔انہوں نے بتایا کہ گوا میں سینٹ زیویرس کے
مقدس بال کی نمائش کیلئے ایک ۴۵ روزہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ساری
دنیا سے ۴۵ لاکھ عیسائی زائرین نے شرکت کی اور اس پرگوا کی بی جے پی حکومت
۵۰ کروڈ روپئے خرچ کئے ۔ سڑک اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کیلئے جو رقم
خرچ ہوئی وہ اضافی ہے۔ پرسیکر کے مطابق ہم اقلیتوں کوان کے ادارے قائم کرنے
میں خصوصی تعاون دیتے ہیں کانگریس کی طرح یہ نہیں سوچتے کہ وہ لامحالہ ہمیں
کو ووٹ دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ گجرات میں تو بی جے پی عیسائی تعلیمی اداروں
پر قدغن لگاتی ہے ۔ مدھیہ پردیش، ہریانہ، دہلی اور چھتیس گڑھ سمیت مختلف
ریاستوں میں عیسائی عبادتگاہوں پر آٓئے دن حملے ہوتے ہیں تو گوا میں ان کی
منہ بھرائی کیوں کی جاتی ہے؟
سنگھ پریوار کے سوریہ نمسکار میںاس سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ یہ محض ایک
طریقۂ عبادت نہیں بلکہ فلسفۂ حیات ہے۔ یہ لوگ اقتدار کی خاطر گدھے کو باپ
بنا لیتے ہیں اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے گدھے کی ماننددولتیّ جھاڑ دیتے
ہیں۔گجرات جیسی ریاستوں میں جہاں یہ جماعت اقلیتوں کے ووٹ سے بے نیاز ہے
انہیں عیسائی امیدوار تک میسر نہیں آتا لیکن گواجہاں عیسائیوں کے بغیر دال
نہیں گلتی عیسائی ارکان اسمبلی کی تعداد ہندووں سے تجاوز کرجاتی ہے ۔ یہ
چڑھتے سورج کی پجا ری ہیں ۔ جب ان لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ مسلمان انہیں
ووٹ نہیں دیں گے یہ کسی مسلمان کو ٹکٹ تک نہیں دیتے لیکن جب انہیں مسلمانوں
کے ساتھ اقتدار میں شرکت کرنی ہوتی ہےتو مفتی محمد سعید جیسے منہ پھٹ
وزیراعلیٰ کے تلوے چاٹنے لگتے ہیں ۔
مسلمان جس طرح سنگھیوں کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں اور جب وہ ان کی توقعات
سے مختلف نکلتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں یہی حال سنگھ پریوار کا ہے۔ ان
لوگوں نے بھی مسلمانوں کو اپنے جیسا سمجھنے کی غلطی کررکھی ہے۔ ان کی
پریشانی یہ ہے کہ مسلمان ان کی طرح ابن الوقت اور موقع پرست کیوں نہیں ہیں؟
جب اقتدار ان کے ہاتھ میں آگیا ہے تو وہ ان کے آگے دم کیوں نہیں ہلاتے؟
یہ چاپلوسی کرکے اقتدار میں اپنا حصہ کیوں نہیں لگاتے؟جس طرح ان لوگوں
نےرام مندر کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے مسلمان بابری مسجد سے دستبردار
کیوں نہیں ہوجاتے؟ ان لوگوں نے تو یکساں سول کوڈ کا راگ الاپنا بند کردیا
مگرامت پرسنل لاءکو نہیں چھوڑتی۔ دفعہ ۳۷۰ پر جیسے بی جے پی نے مصالحت کرلی
ہے وادی کے مسلمان آزادی کا نعرہ کیوں نہیں چھوڑتے اور یوم پاکستان میں
شریک ہونے کیلئے پاکستان کے سفارت خانے میں آنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں؟بی
جے پی والوں کو تو سرینگر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے لیکن یہ بے دھڑک دہلی چلے
آتے ہیں ان سے خوف نہیں محسوس کرتے۔
سنگھ پریوار اگر مسلمانوں کے رویہ کو واقعی سمجھنا چاہتاہے تو اسے اپنی
بوسیدہ زعفرانی عینک کو ہٹانا ہوگا اور اگر پھر بھی صاف شبیہ نظر نہ آئے
تو سبز عینک لگاکر دیکھنا ہوگا۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ سنگھ کی
نفسیات کو قیاس و گمان کے بجائے ان کےاظہاروعملکی روشنی میں جانچے اور
پرکھے۔ اس معاملے میں یہ طرزِ فکر درست نہیں ہے کہ وہ لوگ بہت جھوٹ بولتے
ہیں اس لئے ان کی کوئی بھی باتقابلِ یقین نہیں ہے ۔ بڑے سے بڑا کاذب گوں
ناگوں وجوہات کے سبب کبھی نہ کبھی سچ بول ہی دیتا ہے۔
حکمت ودانائی وہ مقناطیس ہے جس کو جھوٹ کے برادے میں ڈال کر اس میں سے سچ
کا لوہا الگ کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک صبر آزما کام ہے اس لئے ہم میں سے اکثر
اس کی زحمت کرنے کے بجائے اپنی پسند یا ناپسند کے کسی بیان کی بنیاد پر
قیاس آرائی کی ایک ایسی کمزورعمارت تعمیر کرلیتے ہیں جو ہوا کہ ایک جھونکے
سے زمین پر آجاتی ہےاوراس ہوا محل کی زد میں ہمارا دشمن نہیں آتا بلکہ ہم
خود آجاتے ہیں ۔جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو یہ لوگ بڑے اطاعت گذار اور
فرمانبردار ہوا کرتے تھے اور اگر دوبارہ کسی طرح امت کےہاتھوں میں اقتدار
آجائے تو پھروہی ہوگالیکن اگر وہ مسلمانوں سے بھی یہی توقع کریں گے تو ان
کے ہاتھ سوائے مایوسی کے کچھ نہیں آئیگا۔اس لئے کہ مسلمان اس حقیقت پر
ایمان رکھتا ہے کہ ؎
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ توچلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے |