سعودیہ ‘یمن جنگ کے رُخ

دوکروڑ آبادی کاحامل یمن جنوب مغربی ایشیامیں واقع ہے۔زمین کے لحاظ سے دنیا کا پچاسواں بڑاملک ہے۔شمالی اورجنوبی یمن 1990میں متحد ہوئے۔یمن کے شمال میں سعودیہ عرب ‘مشرق میں اومان‘بحیرہ عرب اورگلف آف ایڈن جنوب میں اوربحیرہ احمر مغرب میں واقع ہے۔اسکی 60-65%آبادی سنی اور35-40%فیصدشیعہ ہے۔سعودیہ اور یمن کی مشترکہ سرحد 1800کلومیٹر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ مسام دار ہے ‘یمن میں بیٹھا شخص جب چاہے سعودیہ عرب کو زخمی کر سکتاہے۔

حوثی 21ستمبر 2014سے دارلحکومت صنعاء پر قابض ہیں ۔ یمن کے جبری معزول صدر منصورہادی نے سعودیہ عرب میں پناہ لے کر مداخلت کی اپیل کی‘جس کے نتیجے میں سعودیہ نے 27مارچ سے یمن پر فضائی بمباری کا آغاز کر رکھاہے۔2004میں حوثیوں کے عسکری ونگ انصاراﷲ کا قائد حسین الحوثی حکومت سے بغاوت کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ان کے بعد حوثیوں کی کمان انکے بھائی عبدالمالک حوثی چلارہے ہیں۔اب تک حوثیوں اورحکومت کے مابین کم وبیش چھ جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔حال ہی میں سابق صدرعلی عبداﷲ صالح نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔اسوقت انکے بیٹے احمد علی عبداﷲ صالح کی کمان میں ریپبلکن گارڈ اورسابق صدرعلی عبداﷲ کے فدائی حوثیوں کے ساتھ مل کرجنگ کررہے ہیں۔احمدعلی عبداﷲ صالح نے سعودی حکومت کااس شرط پر ساتھ دینے کاکہاکہ ان کے اورانکے والد کے اوپرقائم پابندیاں اُٹھالی جائیں لیکن اسے سعودیہ نے مسترد کردیا۔

ایران کے بااثررکن پارلیمنٹ علی رضاذکانی سعودیہ عرب پر قبضے کابیان بھی دے چکے ہیں۔ایرانی حمایت یافتہ لبنانی حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصراﷲ نے بھی سعودیہ کی یمن میں کاروائی کو بے بنیادقراردیا۔ایران کے نائب وزیرخارجہ حسین عامرعبداﷲ حیان کاکہنا ہے کہ یمن پر سعودیہ اوراتحادیوں کا حملہ پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتاہے۔بات چیت کے آپشن موجود ہیں اورانہی پر عمل کرنا سودمند ہوگا۔جبکہ دوسری جانب سعودی عرب بھی ان تمام قوتوں کے درمیان بات چیت کا خواہش مند ہے جویمن کی سیاسی قوت ہیں اوراس سرزمین پر امن چاہتی ہیں۔ایران حوثیوں کو اس مذاکرات میں شامل کرناچاہتاہے جبکہ سعودیہ کے رویہ سے ظاہرہوتاہے کہ وہ حوثی باغیوں کو کوئی مقام دینے کو تیار نہیں ‘اگرہماراقیاس درست ہے توپھر اس جنگ کے ٹلنے کے آثار کم نظرآتے ہیں ‘اگریہ باقاعدہ طورختم بھی ہوگئی تو اس کے بھڑکنے کے مواقع باقی رہیں گے۔سعودیہ سمجھتاہے کہ اگرحوثیوں کو حکومت میں بھرپورتوانیائیاں خرچ کرنے کاموقع مل گیاتوممکن ہے وہ ایران کی آشیرباد سے سعودیہ اوریمن کے مابین 1800کلومیٹرطویل اوررخنہ دارسرحد کے ذریعے سعودیہ عرب کو نقصان پہنچائے۔اوراس کا یہ قیاس رد بھی نہیں کیاجاسکتاکیونکہ سعودیہ میں بھی 10-25%فیصدشیعہ موجود ہیں اورممکن ہے کل کلاں کو کوئی ان کے جذبات بھی بھڑکا دے اوراتنی طویل سرحد کی حفاظت بھی لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔
اس صورتحال میں حرمین شریفیں پر قبضے کی بازگشت سنائی دی ‘جس پر پاکستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔اس کی 4وجوہات ہیں ۔1۔یہ کہ حرمین پوری دنیامیں موجودمسلمانوں کے لیئے مقدس ہیں ‘انکی حفاظت میں ہرمسلمان اپنی جان بھی دے سکتاہے۔2۔سعودیہ عرب ہمیشہ پاکستان کی مالی امدادکوآیا۔ایٹم بم کی تیاری سے لے کر ایٹمی دھماکوں کے بعد کی پابندیاں ہوں یا پھر ناگہانی آفات سعودیہ پیچھے کبھی نہیں ہٹا۔3.۔عرب ممالک میں تین ملین سے زائد پاکستانی موجودہیں ‘جواربوں ڈالرکازرمبادلہ پاکستان کوبھیجتے ہیں ‘اگرپاکستان سعودیہ کی حفاظت سے پیچھے ہٹتاہے توممکن ہے عرب ممالک ان کو واپس کردیں ‘ایسے میں پاکستانیوں کامستقبل اورمعیشت پربڑھنے والابوجھ بہت معنی رکھتے ہیں۔4۔عرب ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے سٹریٹجک تعلقات مضبوط ہیں۔پاکستانی افواج پہلے بھی حرمین کی حفاظت کا فریضہ اداکرچکے ہیں۔ساڑھے سات سوفوجی اس صورتحال سے قبل بھی سعودیہ میں موجود تھے۔

تصویرکادوسرارخ ایران ہے۔جواس سرد جنگ کا محرک بھی کہاجاسکتاہے۔ایران پاکستان کاہمسایہ ملک اورپاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والاملک ہے۔فی الحال مقدس مقامات کی حفاظت کے پاکستانی فیصلہ پر ایران کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیالیکن اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ ایران کوسعودیہ کی حفاظت سے تکلیف پہنچے گی کیونکہ 1980سے سعودیہ وایران کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔خدانہ کرے اگرجنگ طویل ہوتی ہے اورایران کود پڑتاہے توپھر یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان ایک سرحدی ہمسایہ ملک کے تعاون سے کسی حدتک محروم ہوجائے گا۔چارمسلم ممالک بہترین ٓرمی رکھتے ہیں جن میں ایران ‘پاکستان ‘مصر‘اورترکی شامل ہیں۔اس جنگ میں پاکستان ‘مصراورترکی سعودیہ کے ساتھ ہیں اورایران سرد جنگ کے ذریعے حوثیوں کے ساتھ ۔ لبنان کی حزب اﷲ ایران کے ساتھ ۔

اگراستعماری قوتوں کامنصوبہ کامیاب ہوتاہے اوریہ جنگ طویل ہوتی ہے توفوجی قوت والے یہ چارمسلم ملک آپس میں الجھ الجھ کرہی تباہ ہوتے رہیں گے اوردشمنِ انسانیت لطف اندوز ہوں گے۔عرب میں اسرائیل کا تسلط بڑھے گااورمسئلہ فلسطین کمزورہوگاجبکہ جنوبی ایشیاسے یمن جنگ میں پاکستان کی شمولیت سے ایران بھارت کاساتھ دے گا اورمسئلہ کشمیر سمیت خود پاکستان میں مسائل کاانبارلگ سکتاہے ‘جس میں فقہ وارانہ تعصب کی نئی لہر اُٹھ سکتی ہے اورممکن ہے زیرزمین پلنے والادوسرافقہی عسکری گروہ بھی اپنی طاقت کااظہارکردے۔عرب لیگ کے اجلاس میں مشترکہ عرب فورس کے قیام کا بھی منصوبہ بن چکاہے‘مجھے اس کے قیام پر حیرت ہے اگر یہ مظلوم فلسطینیوں کیلئے بنتاتوبہترتھا۔۔

پاکستانی وزارت دفاع کا وفد سعودی حکام سے ملنے سعودیہ پہنچ چکاہے۔دوسری جانب پاکستان نے ایران سے بھی بات چیت شروع کردی ہے۔اس طرح مذاکرات کاڈول ڈالاجاسکتاہے اوریہی آخری اوربہترین آپشن ہے۔
پاکستان کو چاہیئے کہ یمن میں کسی صورت کسی بھی قسم کی کاروائی سے پرہیز کرتے ہوئے مقدس مقامات کی حفاظت کرے اورساتھ ہی سعودیہ کو عسکری کاروائی کے بجائے مکمل طورپرمذاکرات کیلئے آمادہ کرے۔آخری تجویزیہ ہے کہ عالم اسلام کے مقدس مقامات اورکسی بھی ملک کے امراء میں فرق ہے۔عالم اسلام کو چاہیئے کہ دنیامیں موجو د مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے ایک مشترکہ اسلامی فورس ہمیشہ کیلئے تشکیل دی جائے تاکہ کوئی بھی ملک مستقبل میں ان مقامات کوایشوبناکراپنی پالیسیوں کی حفاظت نہ کرسکے ‘چاہے وہ سعودیہ ہو یاایران ‘ہمیں کسی بھی ملک سے زیادہ اسلام اورانسانیت سے محبت ہونی چاہیئے ۔اوراس فورس کے اخراجات مقدس مقامات سے ملنے والی رائلٹی اورمتعلقہ حکومتیں اداکریں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188640 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.