بینظیر بھٹو
ائر پورٹ پر اترتےہی خنک ہوا نے استقبال کیا ۔۔ ائر پورٹ وہی پرانے ڈھب کا۔
لدھے پھندے سیڑھیوں سے نیچے اترے۔۔بس میں بیٹھ کر ٹرمینل آئے ۔۔ کچھا کچھ
بھرے ہوئے بوئنگ 777 سے مسافر وں کا انخلاء شروع ہوا ۔۔ایمیگرشن پر مسافر
قطار بنا کر کھڑے ہوئے تو منظم ہونے کا احساس ہوا ایک جانب معمر شہریوں اور
بچوں والی خواتین کا کاؤنٹر بھی موجود تھا۔
میرے استقبال کو آنے والے میرے عزیز بھائی نے سہولت کے پیش نظر سامان کی
وصولی کا اہتمام کیا تھا ۔
میں اس خصوصی سہولت سے گھبرا سی گئی کہ کوئی اور میرا سامان وصول کر کے
مجھے پہنچائے ۔کیا کریں کہ ہم ان خصوصی چونچلوں کے عادی ہی نہیں ۔۔سامان
لیکر باہر نکلے تو مسلح فوجی اور بکتربند گاڑیاں جا بجا مستعد نظر آئیں
جنہیں دیکھ کر طبیعت عجیب پریشان اور افسردہ سی ہو گئی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں احتیاطی تدابیر نے ملک کو جنگی حالت میں مبتلا
کیا ہوا ہے
موسم قدرے گیلا اور ٹھنڈا،خشک موسم کے بعد کافی بارشیں ہو چکی ہیں ۔۔ مٹی
دھول ،بے ہنگم ٹریفک، ہر جگہ بے پناہ رش ہر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔
یہ میرا مادر وطن ہے ۔ میرا موبائل فون کام نہیں کررہا ۔سم بند کر دیا گیا
ہے اسے چالو کرنے کیلئے مجھے دفتر جانا ہے کیونکہ پیغام یہی آرہا ہے ۔۔ایک
نئی اصطلاح مجھے پہلی مرتبہ سنائی دے رہی ہے کہ وہاں میرا" بائیو میٹرک
"چیک کیا جائے گا--
میں اسکا درست ادراک نہیں کر پا رہی ہوں۔۔ دفتر کی کھڑکی پر میرے انگوٹھوں
کی لکیروں کو بذریعہ مشین دیکھا جاتا ہے ۔۔ ۔۔ اور پھر مجھے بتایا جاتا ہے
کہ میرے انگوٹھوں کے نشان میرے شناختی کارڈ کی نشان سے نہیں ملتے اس کی
تشخیص کے لئے مجھے نادرا کے دفتر جانا ہوگا۔۔
پاکستان دہشت گردی کے تناظر میں احتیاطی تدابیر میں کافی ترقی یافتہ ہوتا
جارہاہے-
دفتر کے باہر خواتین کی ایک کھڑ کی ہے میں اسپر جاکر کھڑی ہوں مجھے یہاں سے
ٹوکن حاصل کرنا ہے ۔ کھڑکی پر بیٹھی خاتون دوسرے کاموں میں مصروف ہے دروازے
پر سے کئی دوسرے لوگ اندر جا جا کر اس سے اپنا کام کروارہے ہیں وہ میری طرف
متوجہ ہی نہیں ہوتی۔۔ میری بے صبری بڑھی تو گھر فون ملایا مجھے بتایا گیا
کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوگا۔۔ اپکے اس مسئلے کے حل کیلئے ملاقات
کاانتظام کروایا جائے گا۔۔
اگلے روز میرے لئے نادرا کے دفتر میں ملاقات کا انتظام کر دیا گیا ۔ مینیجر
پڑھا لکھا آدمی ہے۔مراد یہ کہ شستہ زبان اور شائستگی سے اسکے ادبی اور با
ادبی ہونیکا اظہار ہو رہا ہے۔
یہ نیا شناختی کارڈ سمارٹ کارڈ کہلائے گا اسپر ایک چپ بھی نصب ہوگی کمپیوٹر
پر میرے اگلے پچھلے کوائف سامنے آگئے اور اسطرح مجھے اپنے دونوں کارڈوں کو
یکجا کرنا پڑا۔۔
اس مسئلے سے فراغت پاتے ہی پشاور روانگی ہو ئی جسے دنیا کا خطرناک ترین شہر
قرار دیا جاتا ہے
وہاں پر زندگی پوری طرح رواں دواں ،چہل پہل ، رونق ,گہما گہمی کہیں بھی کسی
دہشت گردی کا پرتو نظر نہیں آتا لیکن سڑک سے گزرتے ہوئے اچانک آرمی پبلک
اسکول دکھائی دیا جسے حال ہی میں بد ترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا
ہے ۔ دیواروں پر چاروں جانب خاردار ،تیز دھار تار لپٹے ہوئے ہیں اس سانحے
نے تو پوری قوم کو دہلا دیا اور قوم دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہوئی۔۔ پھر
جا بجا شہداء کے نام کی سڑکیں ۔ بینرز اور چوک ۔صفوت غیور چوک سے گزرتے
ہوئے دیگر خونریزی کے مقامات بھی مختلف ناموں سے نظر آئے ۔ آرمی پبلک اسکول
کی خوںریز داستانیں ہر ایک کی زبان پر تھیں کہ کیسے اسکول کے اندر کینٹین
میں اسلحہ رکھا گیا اور مخبری کی گئی ۔ جب تک معاونت اور آلہ کاری نہ ہو اس
طرح کا خونریز معرکہ باآسانی طے نہیں پاتا۔ لواحقین اور طلباء کی دلجوئی
مختلف طریقوں سے جاری تھی ۔۔ شہدا اور زخمیوں کے والدین کو عمرے کیلئے لے
جایا گیا انکے ساتھ وہ زخمی بھی تھے جو صحتیاب ہو چکے تھے۔۔ شدید زخمیوں کو
علاج کیلئے سرکاری اور فلاحی اداروں کے اخراجات پر بیرون ملک بہتر علاج
کیلئے بھیجا گیا ہے۔ میرے ایک قریبی عزیز کا بیٹا جسکو اللہ نے محفوظ رکھا
تھا چین کی دعوت پر اسکول کے ایک گروپ کے ہمراہ اپنے والد کے ساتھ چین اور
ہانگ کانگ کی سیر کو گیا تھا۔پشاور میں منعقدہ شادیوں میں رونق اپنے عروج
پرتھی ۔میرے میزبانوں نے خاطر داری میں کوئی کسر نہ چھوڑی چرسی کے تکے
،بوٹی ،کڑھائی ،باربی کیو مچھلی، دم پخت ، دیگی اور نہ جانے کیا کیا۔۔
اور پھراپنے ایک نادیدہ بزرگ و شفیق، برقی قلمی دوست اور انکی اہلیہ سے
ملاقات اس دورے کا ما حاصل تھی۔۔۔
۔
اسوقت وطن عزیز میں یوم جمہوریہ پاکستان کی کامیاب پریڈ کی گھن گرج جاری
ہے۔۔ ۲۳ مارچ کی اس پریڈ کی زور شور سے تیاریاں دیکھنے کا موقع ملا پہلے
اسکی فل ڈریس ریہرسل دیکھنےکی سعادت ملی جو اس پوری پریڈ پر مشتمل تھی ۔۔
جوش و جذبوں اور امنگوں پر مشتمل یہ پریڈ پاکستان کی مسلح افواج کی شاندار
کارکردگی اور ترقی کی آئینہ دار تھی۔پاکستان ائر فورس کی شاندار کارکردگی ،
کرتب اور مہارت لاجواب تھی ۔۔سب سے لاجواب تو ڈرون طیارے تھے جنمیں پاکستان
خود کفیل ہو گیا ہے ۔۔ مسلسل دہشت گردی کی وجہ سے یہ پریڈ عرصہ سات سال کے
بعد ہو ئی ہے ۔۔ اسکے لئے حد درجہ حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔۔ بعد اآذاں
23مارچ کو دوبارہ اصلی پریڈ کو اصلی وزیراعظم ، صدر پاکستان اور دیگر
عمائدین کے ہمراہ دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔مسلح افواج میں خواتین کے دستے کی
شمولیت پاکستانی خواتین کی نمائندہ ہے اس سے پہلے طبی شعبے میں خواتین شامل
تھیں اب خواتین کا ملٹری کور ہے اور ائر فورس میں بطور پائلٹ کام کر رہی
ہیں ۔۔ یہ خواتین حجاب پہنے ہوئے مناسب باپردہ وردی میں ملبوس تھیں ۔۔
پاکستان اور پاکستانی اپنی مسلح افواج اور حربی صلاحیتو ں کے عموماً معترف
ہوتے ہیں اور اپنی مسلح افواج پرناز کرتے ہیں ۔۔
اس پریڈ کے کامیاب انعقاد سے عوام میں حد درجہ اعتماد بحال ہوا ہے ۔۔
اس تمام شدت پسندی کے باوجود ترقیاتی منصوبے اور کام زور و شور سے جاری ہیں
۔راولپنڈی اسلام اباد میں میٹرو بس سروس کی بالائی گزگاہ تیار ہو رہی ہے
اسکے لئے شہر کو کھود کر رکھ دیا گیا ہے ابھی کافی کام ہونآ باقی ہے۔ موسم
بہار کاحسن اس دھول مٹی کے ساتھ شباب پر ہے جابجا پھولوں کے رنگ بکھرے پڑے
ہیں ۔۔ایک سے ایک بڑھ کردکانیں ،خوشنما مال ،دیدہ زیب ملبوسات اور زیورات
اعلی قسم کی طعام گاہیں (ریسٹورنٹ ) ان سب کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی
پسماندگی کا احساس نہیں ہوتا۔۔ لیکن ہر اسٹاف پر پیشہ ور فقیروں ، ہیجڑوں
،اپاہجوںاور بچوں کو مانگتے ہوئے دیکھ کر ایک اور دنیا دکھائی دیتی ہے۔۔
لاہور کیلئے ڈائیو بس کی بس اور اسکی سروس انتہائی بہترین تھی۔۔ یہ پریمیم
بس تھی کٹتی ملتی وائی فائی کی سہولت سے آحساس ہو رہا تھا کہ ہم کسی سے کم
نہیں ہیں دنیا کے بڑے بڑے ہوائی جہازوں میں اگر یہ سہولت ہے تو پاکستان کی
بس میں بھی ہے۔۔ برابر کی سیٹ پر براجماں خاتون مجھے آگاہ کرتی۔ ابھی آرہی
ہے ابھی بند ہے۔۔۔ !
لاہور کی شاندار سڑکوں نے ماسوائے چند علاقوں کے دل موہ لیا ۔۔کشادہ چار
چار لین کی یکطرفہ انتہائی عمدہ بنی ہوئی سڑک اسکے ساتھ عمدہ ٹائلوں کی فٹ
پاتھ سائیکل کی لین ، بین الاقوامی معیار کی جسکے بیچوں بیچ سر سبز و شاداب
گل و گلزار چوڑی پٹی انتہائی دلکش اور دیدہ زیب تھی۔۔، شریف برادراں ملک کی
انفرا سٹرکچر کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔۔ لاہور میں اسوقت
بہترین موسم ہے خوشنما پھولوں سے کیا ریا ں بھری ہوئی ہیں ۔لاہور میں بہت
ہی پیار بھرے نئے تعلقات استوار ہوئے ۔اور خوب خاطریں ہوئیں ایک عزیز کی
شادی میں وقت کی پابندی ،کھانے میں ایک ڈِش یعنی چاول ،ایک سالن،روٹی ایک
میٹھا خوب لگا اور سب سے زبردست یہ کہ ٹھیک دس بجے ہال کی بتیاں بجھنے لگیں
اور رخصتی ہو گئی کراچی میں تو یہ حال تھا کہ برات رات کو بارہ ایک بجے
روانہ ہوتی تھی ۔۔نہ جانے وہاں بھی کچھ سدھار آیا ہے ؟۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن جاری ہے۔۔ پاکستان تحریک انصاف نے
عزیز آباد میں جناح گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں ۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی
راتیں ۔۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔۔ ہماری تو بس یہی دعا ہے کہ اس ملک
اور اسکے خلاف کام کرنیوالے راندہ درگاہ ہو جائیں اور ملک اور عوام چین اور
سکھ کا سانس لیں ۔اور چین کی بانسری بجائیں۔ |