چابی سنبھال کے رکھنا

ہمارے ایک دوست ہیں.....سعید.....کراچی وسطی کی ایک کچی آبادی کے رہائشی ہیں...سفر کے حوالے خود کفیل ہیں، کیوں کہ وہ ایک عدد بائک کے مالک ہیں....گزشتہ 8 سالوں کے دوران بائک کی ٹیوننگ، آئل چینج و دیگر کام ایک قریبی مکینک (راشد)سے کرواتے رہے ہیں....مکینک سے ان کی دوستی تقریباً 8 سالوں پر مشتمل تهی....ان 8 سالوں کے دوران وہ اپنی بائک کسی اور مکینک کے پاس لے کر نہیں گئے.....جب بهی بائک میں کوئی گڑبڑ محسوس ہوتی وہ کان سے پکڑ کر اپنے مکینک دوست کی دکان پہ پہنچ جاتے اور بائک ان کے حوالے کرکے گهر چل دیتے....ایک آدھ گھنٹے بعد جاکر بائک گهر لے آتے....دوستی کے اس طویل سفر کی وجہ سے دونوں کی دوستی کمینہ پن کی حد تک بے تکلف ہو چکی تھی....اورکبهی کبهی ایک دوسرے کے گهر بهی آنا جانا لگا رہتا تھا......

یہ آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے.....سعید اپنی بائک پہ اپنے دوست مکینک کی دکان پر پہنچا.....بائک اس کے حوالے کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ سکون سے اس کی ٹیوننگ بهی کریں اور آئل چینج کرنے کے علاوہ کوئی چھوٹا موٹا کام نظر آئے تو وہ بهی کردینا....میں گهر والوں کو لے کر اورنگی ٹائون جارہا ہوں...شام کو واپسی ہوگی....دکان بند کرتے وقت میری بائک ساتھ گهر لے جانا.....میں عشاء کی نماز کے بعد آکر لے لوں گا. .....

چنانچہ وہ بائک ان کے حوالے کرکے اپنے گهر والوں کو لے کر اورنگی ٹائون کی طرف چلا گیا....پورا دن وہاں رشتہ داروں کے ساتھ مزے سے گزارا....اور عشاء کی آذان کے ساتھ واپسی ہوئی....گھر کے قریب پہنچ کر جب وہ ٹیکسی سے اترا.... جیسے ہی وہ گهر کے دروازے کے قریب پہنچا اسے 5 ہزار واٹ کا ایک شدید جھٹکا لگا.....اس کے دماغ پہ ہتھوڑے برسنے لگے..اس نے دیکھا کہ مرکزی دروازے پر لگاہوا تالا غائب ہے....

لرزتے قدموں اور کانپتے بدن کے ساتھ جب گهر کے اندر داخل ہوا تو اس کو 10 ہزار واٹ کا ایک اور جھٹکا لگا.....اس کے بدن پر چیونٹیاں رینگنے لگیں،کیونکہ اندر تمام کمروں کے تالے بهی لاپتہ ہوچکے تهے.....اب اسے احساس ہونے لگا کہ اس کا سب کچھ لٹ چکا ہے.....گهر میں موجود تھوڑی بہت نقدی، زیورات اور تمام قابل استعمال اشیاء غائب تهیں، وہ ایک دم گویا سکتے میں آگیا....کیونکہ یہ سب کچھ اس کے لیے خلاف توقع تها...یہ صورت حال دیکھ کر اس کی بیوی نے وہ اودھم مچایا کہ رہے نام اللہ کا....کیونکہ اگلے ماہ ان کی بیٹی کی شادی تهی....اور تنکا تنکا جوڑ کر اس نے اپنی بیٹی کے لیے زیورات کا انتظام کیا تها....کچھ دیر رونے پیٹنے کے بعد وہ ایک دوسرے کو تسلیاں دینے لگے.....پهرسعید اپنے مکینک دوست کے گهر گیا اور اسے بهی تمام ماجرا سنانے کے بعد اس کی ہمدردی سمیٹتے ہوئے بائک لے کر گهر واپس آگیا.....وہ رات ان پہ قیامت بن کر گزر گئی......

اگلے دن سعید محلے کے ایک بااثر شخص(حاجی صاحب) کے پاس چلا گیا....اور اپنا درد دل ان کے گوش گزار کیا.... حاجی صاحب خدا ترس اور انتہائی نیک سیرت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بارعب شخصیت کے حامل ہیں...خلق خدا سے ہمدری ان کے رگ وپے میں بسی ہوئی ہے....کسی غریب کے کام آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجهتے ہیں....حاجی صاحب نے اس کے گزشتہ دن کے معمولات کے حوالے سے کچھ سوالات پوچھے اور سعید جواب دیتا رہا...آخر میں حاجی صاحب معنی خیز نظروں سے سعید کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئے.....شام تک آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا...آپ آرام سے اپنے کاموں میں مشغول رہیں...سعید امید و بیم کی کیفیت میں گهر آیا اور اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا....

سعید کے جانے کے بعد حاجی صاحب نے اپنے ایک ملازم کے ذریعے راشد کو اپنے گهر بلایا. ... اور اس سے کچھ سوالات کیے،راشد کے جوابات اور اس کے گھبرائے ہوئے رویے نے حاجی صاحب کے شک کو یقین میں بدل دیا،حاجی صاحب نے سرگوشی کے انداز میں راشد سے کہا کہ اپنی عزت اگر پیاری ہے تو خاموشی سے وہ تمام سامان لوٹادو جو آپ نے سعید کے گھر سے چرایا ہے،آپ کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں، اگر ایک گھنٹے بعد اگر آپ سامان لے کر میرے گھر نہیں پہنچے تو پھر پولیس آپ کو اٹھائے گی اور سامان بھی آپ سے برآمد ہوگا، تو پھر آپ کی عزت کا کیسے جنازہ نکلے گا یہ آپ کو بخوبی معلوم ہے، یہ دھمکی آمیز نصیحت اس کے دماغ میں بٹھا کر حاجی صاحب نے اسے جانے کی اجازت دی.....

اس نصیحت کو ابهی آدها گهنٹا بهی نہیں گزرا تها کہ حاجی صاحب کے گهر راشد تمام مسروقہ سامان سمیت شرمندگی کی بهنور میں ڈبکیاں کهارہا تها....حاجی صاحب کے بلانے پر سعید بهی وہاں پہنچا.....راشد نے سعید سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ جب آپ نے کہاکہ آپ اپنے گھر والوں کو لے کر اورنگی جارہے ہیں، تو شیطان نے مجھے لالچ میں ڈال دیا، کیوں کہ آپ نے چابیوں کا جو گچھہ مجھے تھما دیا تھا،اسے دیکھ کر مجھے یقین ہوچلا تھا کہ ضرور اس میں گھر کی چابیاں، بھی ہوں گی، چنانچہ عین مغرب کی آذان کے وقت میں آپ کی بائک پہ سوار ہوکر آپ کے گھر پہنچا اور ایک کے بعد ایک تالا چابی سے کھلنے لگا، اور میں شیطان کے بہکاوے میں آکر ہر قابل نفع چیز کو سمیٹنے لگا،یہ صورت حال دیکھ کر سعید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے، کیوں کہ اس کا تراشا ہوا اعتماد کا بت ایک دم سے زمین پر گرکے چکنا چور ہوچکا تھا......
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50600 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More