کاش آپ وہیں موجود رہتے

گزشتہ روز اسلام آباد کلب سے ایک دعوت نامہ موصول ہو ا کہ آپ کے شہر کے ایک محترم جرنیل اور بزرگ سیاستدان جنرل عبدالمجید ملک کی کتاب :ہم بھی وہاں موجود تھے:کی تقریب رونمائی ہے جس میں شرکت کی آ پ کو بھی دعوت دی جاتی ہے جس کی ہمارے خیال میں کوئی خاص ضرورت نہ تھی کیوں کہ وہاں عام لوگ کم اور خواص کی تعداد خاصی تھی اور ہم عامی لوگ خاصوں سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں،اس تقریب میں ملک کے چیدہ چیدہ سیاستدانوں،بیوروکریٹس،صحافیوں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کو مدعو کیا گیا تھا،وقت مقررہ پر ہم بھی وہاں پہنچے مگر وقت اختتام سے پہلے نکل بھاگے کیوں اس کی وجہ آگے بیان کروں گا پہلے جنرل صاحب اور ان کی کتاب کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا ہیں تاہم یہ میرا ذاتی خیال اور ذاتی رائے ہے میرے ادارے، میرے اخبار اور ایڈیٹرزکاجس سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں،جنرل عبدالمجید ملک ایک عہد ساز شخصیت ہیں جو لائق صد احترام ہیں ہر کوئی ان کی کتاب پہ اپنی سمجھ کے مطابق تبصرہ کر رہا ہے میں بھی اپنی ناقص عقل کے مطابق اس پہ اپنی رائے پیش کروں گا،جنرل عبدالمجید ملک کا شمار پاکستان کے سنیئر ترین فوجی آفیسرز بلکہ اس سے بھی اگر آگے کوئی لفظ ہو تو ان میں ہوتا ہے کیوں کہ جنرل صاحب پاکستان بننے سے پہلے یعنی 1945,46میں کیپٹن تھے،پاکستان بنا تو انہوں نے لگ بھگ چار سو فوجیوں کے ہمراہ پاکستان کا پرچم تیار کر کے اسے پہلی سلامی دی، اﷲ نے انہیں کیسی عزت دی اور کس اعزاز سے نوازا، یہاں میں اپنے کالم کا عنوان لکھوں گا کہ کاش جنرل صاحب آپ وہیں موجود رہتے، 1958میں پاکستان میں پہلا مارشل لا ء لگا تو جنرل صاحب اس وقت کرنل تھے کاش آپ مارشل لاء کی معاونت کرنے کے بعد وہیں موجود رہتے جہاں آپ تھے،اس کے بعد1976 میں جب بھٹو صاحب نے ایک جونئیر جرنیل ضیاء الحق کو آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی تو آپ نے آرمی سے استعفیٰ دے دیا اور عزت و آبرو سے گھر آگئے مگر پھر اسی بھٹو سے بیرون ملک سفارت کاری کی پشکش قبول کرنے کی بجائے کتنا اچھا ہوتا کہ اگرآپ وہیں موجود رہتے،اس کے بعد آپ نے چکوال کے ضلع بننے کے فوری بعد بلکہ اس سے پہلے ہی سیاست کے میدان میں چھلانگ لگائی اور کامیابی و کامرانی کے وہ نقوش چھوڑے جو آئندہ آنے والوں کو ہمت و حوصلہ دیتے رہیں گے آپ اپنے پورے دور سیاست میں ناقابل شکست رہے،آپ نے میاں محمد نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کیا جواب میں میاں صاحب نے آپ کو اپنا دست راست بلکہ رائٹ ہینڈ بنائے رکھا اور یہ سلسلہ مشرف ٹیک اور تک جا ری رہا،میاں صاحب پر کڑا وقت آیا تمام فصلی بٹیرے ایک ایک کر کے بھاگ گئے مگر کاش آپ تو وہیں موجود رہتے،آپ کہتے ہیں کہ آپ میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے کہنے میں آگئے اور مسلم لیگ چھوڑ کر مشرف کی قائم کردہ جماعت میں شامل ہوگئے،آپ اپنی مسلم لیگ کے کارکن رہتے مشرف لیگ کے درجنوں نائب صدور میں سے ایک نائب صدر کا عہدہ لینے کی بجائے آپ اگر وہیں موجود رہتے تو کیا بات تھی،آپ جنرل سے ریٹائر ہوئے سفیر بنے ،وزیر بنے اور پھر دسٹرکٹ ناظم بننے کے چکر میں پڑ گئے آپ نے موازنہ بھی نہ کیا کہ ناظم کا عہدہ کہاں اور آپ جہاں جہاں سے ہو کے آئے وہ مرتبے کہاں ،جنرل صاحب کاش آپ عہدوں کو سنبھالتے اور وہیں موجود رہتے تو نہ آپ کو ناظم کا الیکشن لڑ کے اپنا وقت برباد کرنا پڑتا نہ شکست کی خفت اٹھانا پڑتی،میرا مقصد ہر گز ہر گز آپ پہ تنقید نہیں میں کہاں اور آپ کی شخصیت کہاں،میں نے آپ کی کتاب پڑھی جو محسوس کیا وہ لکھ دیا،آپ کی کتاب نے کم از کم یہ تو کر دیا کہ لوگوں کو سچ بولنے کا حوصلہ دے دیا ویسے اگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان میں مارشلاؤں کے بارے میں آپ نے جو کچھ تحریر کیا ہے کاش کوئی اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی ایسے سچ بولنے کی ہمت و جرء ات کرے،میں نے ایک بار جنرل صاحب کے گھر میں جنرل صاحب سے کہا تھا جب جنرل صاحب پرویز مشرف کی مخالفت میں بولنا شروع ہوئے تھے اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے غالباًایک تنظیم بھی بنا لی تھی پرویز مشرف کی دکٹیٹر شپ کے خلاف، میں نے کہا تھا کہ جنر ل صاحب پرویز مشرف ریٹائرڈ جرنیلوں کوچھٹا ہو ا کارتوس سمجھتے ہیں جنرل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ فکر نہ کریں سال ڈیڑھ بعد مشرف بھی چھٹا ہو ا کارتوس ہی ہو گا،اور بات مشرف کی بھی ٹھیک تھی اور جنرل عبدالمجید ملک صاحب کی بھی،مشرف کی اس لیے کہ جنرل محمود،جنرل ذوالفقار،اور ایک صاحب جو فیڈرل سروس کمشن کے چئیر مین بھی بنے نام ان کا ابھی ذہن میں نہیں آرہا سب بعد میں دانشور بنے مگر جب اختیار میں تھے تو مشرف کے دست و بازو تھے ریٹائر ہوئے تو خلاف ہو گئے اور جنر ل ملک کی بات یوں درست کہ اب مشرف صاحب بھی چھٹے کارتوس بن چکے ہیں جو وہ دوسروں کے بارے میں کہا کرتے تھے،کتاب کی تقریب رونمائی کیا ہی اچھا ہوتا اسی شہر کے انہی باسیوں کے درمیان ہوتی جن لوگوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل صاحب کو سر آنکھوں پہ بٹھایا اور ہر بار جب بھی جنرل صاحب نے انہیں کال دی انہوں نے لبیک کہا اور انہیں اعلیٰ ایوانوں میں پہنچایا،اسلام آباد کی بجائے اگر ٹی ایم اے ہال چکوال یا ضلع کونسل ہال چکوال میں تقریب منعقد کی جاتی اور این جی اوز کی بجائے جند اعوان،ملہال مغلاں،چوآ سیدن شاہ،آڑہ بشارت،سرال ڈھڈیال،ڈھوڈہ ہسولہ،بھون،راہنہ مرید و بلکسر،تھنیل کمال منگوال و گھگھ کے ساتھ ساتھ تلہ گنگ اور کلر کہار کے لوگوں کو تقریب میں بلایا جاتا تو اس تقریب کو چار چاند لگ جاتے اور یہ اور زیادہ پروقار ہوتی،تقریب میں وی آئی پیز کی بھرمار تھی مگر محبت و چاہت مصنوعی تھی،پینٹ کورٹ نکٹایؤں اور میک اپ سے اٹی خواتین کی بھرمار میں چند چکوالیے اپنے آپ کو اجنبی محسوس کر رہے تھے، تاہم یہ ایک اچھی کتاب ہے جو لگ بھگ نصف صدی بلکہ اس سے زیادہ کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے،اﷲ تعالیٰ جنرل عبدالمجید ملک صحت و تندرستی دے اور جنرل صاحب کو تادیر سلامت رکھے ،،،،،آمین