صدر کی امریکا سے التجا.....
امریکی محکمہ دفاع کا انکشاف.....
پاکستانی حکمران اور عوام امریکیوں کا اعتماد اور احترام حاصل کرنے کے لئے
اِن کے سامنے اپنی گردنیں بھی کٹوا دیں تو بھی اِن عیار اور مکار امریکیوں
کو اِس پر بھی یہ شک غالب رہے گا کہ پاکستانیوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے کہ
جس کے لئے پاکستانیوں پر امریکا اعتماد کرسکے کہ پاکستانی حکمران، سیاستدان
اور عوام امریکا سے اپنی دوستی کا حق نبھانے میں کتنے مخلص ہیں جبکہ
پاکستانیوں نے اِس کے لئے اپنی گردنیں بھی کٹوا دی ہیں۔
اِس منظر اور پس منظر میں، میں یہ سمجھتا ہوں اور اِس امریکی روئے پر اپنے
حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو اپنا یہ مشورہ دینا چاہوں گا کہ اگر اِس
کے باوجود بھی یہی امریکی دوستی ہے تو ایسی دوستی کو فوراً ختم کردیا جائے
کہ ہم اپنی گردنیں بھی کٹوا دیں تو پھر بھی امریکی ہماری دوستی پر شک کے
پہاڑ ڈھاتے رہیں اور ہم اِس گمان میں رہیں کہ یہ کب تک ایسا کرتا رہے
گا....؟آخر کار کبھی نہ کبھی تو یہ اپنے لئے دی گئیں ہماری قربانیوں کو قدر
اور احترام کی نگاہ سے ضرور دیکھے گا .......
مگر اِس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شائد ایسا کبھی بھی نہ ہوسکے
کہ امریکا اِس بنا پر ہماری تعریف میں کوئی ایک لفظ بھی نکالے ....اور ہم
اِس اُمید اور آس کو لئے اپنی اپنی قبروں میں جا سوئیں.... مگر پھر بھی
امریکا ہماری قربانیوں کا ذکر اِس والہانہ انداز سے نہیں کرے گا ......جس
کے ہم حقدار ہیں اور اِس کے منہ سے اپنی تعریف سُننے کے لئے اپنا سب کچھ
لٹا اور قربان کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں ......اور اِس سے امداد کے عوض
اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی لوگوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور اِس بنا پر یہ
ہمیں اپنا زر خرید غلام سمجھتا ہے اِس کے کہ دنیا کا یہ کلیہ ہے کہ وہ غلام
ہی کیا....؟جو اپنے آقا کے لئے اپنی زندگی کی بازی بھی نہ ہار دے۔
جبکہ اِن حالات میں بھی مملکت خداداد پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے
جمعرات کی رات ایوان صدر میں امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جیمز
جونز سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی التجایہ انداز سے کہا کہ امریکی حمایت
باہمی احترام اور اعتماد پر مبنی ہونی چاہئے اور اِس کے ساتھ ہی صدر نے
جمیز جونز پر یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوری اداروں کا استحکام
ناگزیر ہے اور یہ اِس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب پاکستان کے لئے ایک منظم
اور بہتر انداز سے اقتصادی ترقی کا ایجنڈا آگے بڑھایا جائے اور اِس حوالے
سے پاکستان کے لئے عالمی برادری کو ہرصورت میں کلیدی کردار اداکرنا چاہئے
اور سب سے پہلے خود امریکا کو چاہئے کہ وہ اتحادی سپورٹ فنڈز کے رُکے ہوئے
1.5ارب ڈالر کے واجبات فوری طور پر ادا کرے۔اور بہت سے ایسے عزوانکساری کے
جملے ہمارے صدر محترم نے ادا کئے کہ اِس موقع پر کوئی اور ہوتا یہاں میرا
مطلب یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کا قومی سلامتی کا مشیر ہوتا تو ہمارے صدر کی
اتنی ساری باتوں سے اِس کا دل پسیج جاتا اور وہ اتنا کچھ دے جاتا کہ سب
حیران رہ جاتے مگر میرے نزدیک یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہمارے صدر کی
اِس التجایہ پر امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جمیز جونز صرف اتنا
کہہ کر کھسک گئے کہ ہاں!یہ سب تو ٹھیک ہے مگر پھر بھی پہلے پاکستان کو
امریکی اتحادی ہونے کے ناطے امریکا کی جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ جتنی
ہوگی.... اور اِس کے بعد ایک بار پھر پاکستانی حکمران، سیاستدان اور عوام
گردنیں امریکی مشیر کے اِس ٹکے سے جواب کے سامنے جھک گئیں اور اِس پر بھی
ستم ظریفی یہ کہ اَبھی ہماری جھکی گردنیں دوبارہ تننے بھی نہ پائیں تھیں کہ
واشنگٹن سے آنے والی اِس خبر نے ہماری اِن جھکی ہوئی گردنوں کو مزید جھکا
دیا کہ جب امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ
عراق، افغانستان اور ایران کے جوہری تنازع سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل
پاکستان کی صورتحال پریشان کن ہے اور پاکستان میں موجودہ جمہوریت مکمل طور
پر فعال نہیں ہے جس طرح کہ ہم سمجھتے ہیں جس پر مجھ سمیت پورے امریکا کو
گہری تشویش ہے اور آج پاکستان کی پریشان کُن صورتِ حال پر امریکا بھی
پریشان ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں اپنی سیاسی، اقتصادی اور
سماجی ذمہ داریاں کس طرح سے نبھائے کہ پاکستان کے حالات سُدھر جائیں اور
پاکستان امریکی اتحادی ہونے کا اپنا حق ٹھیک طرح نبھاسکے۔ جب کہ امریکی
نائب صدر جوبائیڈن نے اپنی اِسی ٹی وی انٹرویو میں اِن خدشات کا بھی اظہار
کیا کہ اگر القاعدہ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تو خطرناک حملے ہوسکتے ہیں
اِن کے اِس انٹرویو کے بعد ہمارے ملک کے حکمران طبقے اور سیاستدان میں یہ
چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ اَب امریکا پاکستان میں اور کونسی فعال
جمہوری حکومت دیکھنا چاہتا ہے جو اِس مکمل طور پر فعال اور مستحکم جمہوری
حکومت سے بھی مطمئین نہیں ہے اور اِس پر بھی وہ اپنی گہری تشویش کے پنجے
گاڑے ہوئے ہے۔ اِسے اور بھلا کون سی جمہوری حکومت چاہئے جو اِس کے معیار پر
پورا اُترے ......یہ وہ سوالیہ نشان ہے جو اَب امریکی وفاداری کا کلمہ
پڑھنے والے حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کے لئے شدید پریشانیوں میں اضافے
سبب بنا ہوا ہے۔
اور اِس باوجود بھی میرا خیال یہ ہے کہ اَب بھی حکمران، سیاستدان اور عوام
کا کچھ حصہ موجودہ جمہوری حکومت اور جمہوری اداروں سے مطمئین ہو مگر میں یہ
بھی سمجھتا ہوں کہ موجودہ جمہوری حکومت لاکھ اپنے منہ میاں مٹھو بنتی رہے
مگر حقیقت یہ ہے کہ اَب بھی ملک میں جمہوریت وہ جمہوریت نہیں ہے جو کسی
زمانے میں پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے قائم تھے اور اِس کی مثال
یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ 12اکتوبر1999کو سابق آمر
(ر)جنرل پرویز مشرف نے جب اُس وقت نواز شریف کی لولی لنگڑی مگر ایک مثالی
جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو اُس وقت کی یہ لولی لنگڑی حکومت بھی آج کی
موجودہ جمہوری حکومت سے قدرے بہتر تھی کیوں کہ اِس حکومت میں جمہوریت کی وہ
تمام خصوصیات پنہاں تھیں جو کسی بھی جمہوری حکومت میں ہونے چاہئے مگر پھر
بھی امریکی آشیر باد حاصل کرنے والے آمر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی
حکومت کو اپنے بوٹوں تلے ایسا روندا کہ جب سے اِس مملکت خداداد میں نواز
شریف کی نہ سیاست ہی پنپ سکی ہے اور نہ اِن کی شخصیت ہی کو وہ مقام اور
مرتبہ حاصل ہوسکا ہے جو 12اکتوبر1999سے پہلے حاصل تھا۔
اور پھر جب اِس کے بعد ہمارے ملک میں آمر مشرف کا سکہ چلا کرتا تھا تو اِسی
دوران امریکا میں نائن الیون کا وہ المناک سانحہ رونما ہوگیا کہ جس کے بعد
امریکا نے اپنے زر خرید غلام پرویز مشرف کو بلیک میل کر کے پاکستان اور
اسلام دشمنی میں ایسے ایسے کام کروائے کہ آج جن سے نہ صرف پاکستان بلکہ کہ
دنیا کا بچہ بچہ بھی خوب واقف ہے۔ اور اَب اِسے آپ پاکستانی قوم کی بد
قسمتی کہیں کہ پرویز مشرف نے اپنی حکومت کو بچانے اور اپنے اقتدار کو طول
دینے کے لئے ہر امریکی حکم کو اِس طرح سے منا اور پورا کیا کہ جیسے یہ کوئی
الہامی حکم ہو اور اِس پر افسوس یہ کہ اِس نے نہ صرف خود کچھ اِس طرح سے
عمل کیا بلکہ دوسروں سے بھی کروایا کہ اِس کا ازالہ پوری پاکستانی قوم آج
تک بھگت رہی ہے۔
بہرکیف! امریکا کا پاکستان کی اِس جمہوری حکومت سے پوری طرح مطمئین نہ ہونا
موجودہ حکومت پر تنقید برائے تنقید کے مترادف تو ہوسکتا ہے مگر یہاں سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1999میں جب آمر مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کا
تختہ الٹ دیا تھا اُس وقت تو یہی امریکا نواز شریف کی اُس جمہوری حکومت کے
قصیدے پڑھتے نہیں تھکتا تھا تو پھر بھی اِس نے اپنے مہرے پرویز مشرف کے
ہاتھوں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا ستیاناس کیوں کروایا تھا یہ وہ سوال
ہے جس کا جواب آج نہ امریکا کے پاس ہے اور نہ خود مشرف ہی اِس کا درست جواب
دے سکتے ہیں یہ تو اَب آئندہ آنے والے دن ہی بتا دیں گے کہ جب ملک کے سابق
آمر جنرل (ر) پروپز مشرف سیاست میں آئیں گے اور عوامی اجتماعات میں لوگوں
کے اِس سوال کا سامنا کریں گے تو قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ مشرف ٹھیک تھے
یا نواز شریف.....
بہرحال اُدھر ایک خبر جو یقیناً اہل پاکستان کے لئے بھی ضرور پریشانیوں میں
اضافے کا باعث بنے گی اور پاکستان میں ایک نئے سیاسی بحران کو بھی جنم دے
گی وہ یہ ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر
نہ کرنے کی شرط پر اِس کا انکشاف کیا ہے کہ امریکا پاکستان کے اندر مزید
تربیتی مراکز قائم کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے اور اِس امریکی عہدیدار نے اِس
کو واضح کیا کہ یہ نئے تربیتی مراکز پہلے سے موجود دو تربیتی سینٹرز کی
استعداد میں اضافہ کریں گے۔
میرے اور بہت سے پاکستانیوں کے خیال سے اِس امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئر
عہدیدار جس نے اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا اِس کے اِس انکشاف کے بعد
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں کیا تغیرات رونما ہوتے ہیں اِس انداز
قبل ازقت بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اِس کے بعد امریکا کے خلاف
کس قدر غصے کا لاوا ہمارے ایوانوں سمیت ہماری گلی کوچوں، بازاروں اور سڑکوں
پر ریلیوں، جلسے اور جلوسوں کی صورت میں پھٹ کر بہتا ہوا نظر آئے گا۔ |