حاجی صاحب کی پریشانی

چند ماہ پیشتر حاجی صاحب کےدولت کدے پر ایک پریشان حال خاندان آدھمکا،گائوں میں پنچایت نے اس کے پورے خاندان کے قتل کے احکامات جاری کیے تهے،حاجی صاحب نے خاندان کے سربراہ "بشیر" کو مکمل تعاون کا یقین دلایا،اور اپنے گهر کا ایک پورشن ان کے لیے خاص کرنےکے ساتھ بشیر کے کو بھی اپنے ادارے میں ملازم کیا.....

زندگی اپنے رفتار سے گزرنے لگی،بشیر اور اس کے خاندان پر حاجی صاحب کی مہربانیاں دن بدن بڑھتی گئیں،سب کچھ ٹهیک تها،حاجی صاحب بهی مطمئن تهے اور بشیر بهی،ایک دن حاجی صاحب کے ساتھ ایک عجیب اور غیر متوقع حادثہ پیش آیا،ہوا یوں کہ حاجی صاحب کا سب سے چهوٹا بیٹا"قاسم"اچانک غائب ہو گیا،حاجی صاحب اور بشیر نے مل کر پورا علاقہ چهان مارا،مگر اس نے نہ ملنا تها،نہ ملا،پورے محلے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی،محلے کے کئی افراد بهی تلاش میں نکل گئے،صبح اسکول سے واپس نہ آنے والا بچے کا عشاء کی آذان تک کچھ پتہ نہ چلا،رات تک حاجی صاحب کے گهر میں محلے والوں کا ایک ہجوم اکهٹا ہوچکا تھا....

تمام افراد پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیوں میں مصروف تھے،مسجدوں سے آذان عشاء کی پرسوز آوازیں گونجنے لگی،رات کی تاریکی کے ساتھ حاجی صاحب اور اس کے خاندان کی پریشانی بھی بڑھتی جارہی تھی،دل و دماغ پہ ان جان وسوسوں نے یورش کردی تھی،زنان خانے سے رونے پیٹنے کی آوازیں بتدریج چینخوں میں بدل رہی تھی،حاجی صاحب محلے کے کچھ بزرگوں کے ساتھ سر جوڑے سوچ و فکر میں مگن تهے،اچانک حاجی صاحب کے موبائل پر ایک اجنبی نمبر نے خطرے کی گھنٹی بجادی،اجنبی نمبر دیکھ کر حاجی صاحب کی چهٹی حس نے بهی خطرے کا الارم بجا دیا،حاجی صاحب فون پہ گفتگو کررہے تهے اور باقی لوگوں پر سکوت مرگ طاری تها،حاجی صاحب کا بیٹا اغوا ہوچکا تھا اور اغواء کاروں نے 50 لاکھ روپے بطور تاوان 24گھنٹے کے اندر اندر طلب کرتے ہوئے،یہ دهمکی بهی دی تهی کہ پیسے کا انتظام نہ ہونے اور پولیس کو اطلاع دینے کی صورت میں بچے کی لاش ملنا بهی ناممکن ہے.....

حاجی صاحب کا دل دھک دھک کرنے لگا،پریشانی اس کے روئیں روئیں سے عیاں تھی،حاجی صاحب نےچند بزرگوں اور بشیر سے مشورہ طلب کیا تو سب کی طرف سے یہ مشورہ ملا کہ آج کل حالات بہت خراب ہیں،پولیس کو اطلاع دینے کی صورت میں بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے،اس لیے فوری طور پر پیسوں کے انتظام کے لیے کوششیں شروع کرنی چاہیے،سب سے زیادہ پریشانی کا اظہار بشیر کررہا تها،اس کی صورت دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے یہ واقعہ بذات خود اس کے ساتھ پیش آیا ہو،اسی دوران سب لوگ عشاء کی نماز پڑھنے گئے......

نماز سے واپسی پر حاجی صاحب کے ایک دوست نے تنہائی میں حاجی صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اغواکاروں سے رقم کے حوالے کے لیے کچھ دن کی مہلت طلب کریں،اسی دوران میں سی آئی ڈی پولیس کے ذریعے خفیہ طور پر موبائل نمبر کی نگرانی کرکے ٹریس کرنے کی کوشش کرتا ہوں، حاجی صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا اور کسی تیسرے بندے کو اس مشورے کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوا....

اس کے بعد تین دن تکااغواکاروں کے ساتھ رقم کی کمی پر لے دے ہوتی رہی،اسی دوران سی آئی ڈی پولیس نے اغواء کاروں کی کال ٹریس کرکے ایک نمبر حاصل کر لیا،اور حاجی صاحب کو وہ نمبر دکها دیا،کہ اغوا کار گزشتہ کچھ دنوں سے اس نمبر پہ مسلسل کال کر رہے ہیں،اگر آپ کو اس نمبر کے بارے میں کوئی معلومات ہیں تو بتائیں،نہیں تو ہم معلومات کرائیں گے،حاجی صاحب نے موبائل نکالا اور نمبر ڈائیل کیا،اگلے لمحے حاجی صاحب کو اپنے بدن پر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوئی،دیکھتے ہی دیکھتے ان کے نتھنے پھولنے لگے،اور چہرہ غصے سے لال پیلا ہونے ہوگیا،کیونکہ کہ موبائل کی اسکرین پر "بشیر"کا نام حاجی صاحب کا منہ چڑا رہا تها....

پهر پولیس نے خفیہ طور پر بشیر کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا،سی آئی ڈی پولیس کی چهترول کے سامنے بشیر نے ہتھیار ڈال دیا اور بچے کے اغوا میں ملوث ہونے کا اعتراف کرکیا،پهر بشیر کی مدد سے تمام اغواکاروں کو گرفتار کرلیا گیا اور بچہ باخیریت بازیاب ہوکر گهر پہنچ گیا....
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50635 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More