محترم ارشاد احمد حقانی بھی اپنے رب كے حضور
اس كے بلاوے پر حاضر ہوئے - بے شمار مداحوں، قارئین اور عزیز و اقارب كو
اداس چھوڑ كر وہ یقیناً ایك بہتر دنیا كے عازم ٹہرے - خدا ان كے درجات بلند
كرے اور انہیں جنت الفردوس میں مقامِ اعلیٰ عطا فرمائے (آمین)-
میں ان كی شخصیت اور تحریروں سے ١٩٨٠ كی دہائی كے آخری سالوں میں متعرف ہوا
اور یہ تعارف ان سے ملاقات كئے بغیر ان كی تحریروں كے توسط سے جاری رہ- گو
انھوں نے اپنی تحریروں میں بارہا جماعتِ اسلامی سے اپنی علیحدگی كی وجوہات
بیاں كیں مگر ان كی سوچ، تجزئیے، طرزِ بیان اور پروازِ تخیل بار بار ان كے
جماعتِ اسلامی سے تعلق كی چغلی كھاتا رہ- میں كبھی بھی یہ نہ جان سكا كہ وہ
جماعتِ اسلامی سے كیوں علیحدہ ہوئے - یہ بات اس وقت مجھ پر واضح ہوئی جب
میں نے گزشتہ سال 4 جون كو قاہرہ میں باراك اوبامہ كی تقریر پر جماعتِ
اسلامی كے (اس وقت نو منتخب) امیر جناب سید منور حسن كا رد عمل اور ارشاد
احمد حقانی صاحب كا تبصرہ پڑھ- آئیے پہلے باراك اوبامہ كی تقریر كا جائزہ
لیں اور پھر منور حسن صاحب اور ارشاد احمد حقانی صاحب مرحوم كے افكار كی
مدد سے یہ جاننے كی كوشش كریں كہ مرحوم حقانی صاحب جماعتِ اسلامی سے كیوں
علیحدہ ہوئے-
ایك عملیت پسند سیاستدان سے انقلاب كی امید كو زوالِ عقل و دانش كی علامت
كے سوا كیا سمجھا جا سكتا ہے؟ امن كی فاختائیں لفظوں كے ڈھیر میں سلامتی كے
موتی تلاش كرتی رہِیں - مشرق ومغرب كی وسعتوں میں پھیلے عالمِ اسلام كی
كمزور مگر طویل جغرافیائی سرحدوں میں سہمے ہوئے مسلمان دانشور، 4 جون سے
بہت پہلے اور 4 جون كے بہت بعد تك، باراك اوبامہ كے لفظوں میں سلامتی كے
موتی تلاش كرتے رہے- اردن كے روزنامہ الغاد كے مدیر محمد ابو رمضان، الاوسط
بحرین كے مدیر منصور الجمری، لبنانی دانشور خالد صغیہی، اردن ہی كے نامور
دانشور مصطفیٰ مہرنیٰ اور برصغیر كے بہت سے دانشور بھی امن و آشتی كا خواب
آنكھوں میں بسائے باراك اوبامہ كے لفظوں میں آنے والی مسلمان نسلوں كیلئے
اچھے اور باعزت مستقبل كی علامات تلاش كرتے رہے- دلِ وحشی پلٹ پلٹ كر مجھ
سے پوچھتا رہا، ایك عملیت پسند سیاستدان سے انقلاب كی امید كیا یہ زوالِ
عقل و دانش نہیں؟ میں جواب دیتا رہا، خوش گمان جواری تو پتوں كی سرسراہٹ
اور چڑیوں كی چہچہاہٹ میں بھی جوا كھیلنے كیلئے سٹے كے نمبر تلاش كر لیتے
ہیں - پھر اوبامہ كے خطاب كی اوٹ سے عالمی امن كے سورج كا طلوع دیكھنے
والوں پر كیسا تعجب؟ ویسے بھی بڑی طاقتوں سے معاملات كرتے وقت سارے ہی غریب
ملكوں كے حكمران اور اہلكار خوش گمان جواری ہی نظر آتے ہیں-
جنہیں فصاحت و بلاغت میں دلچسپی تھی انھیں اوبامہ كے خطاب میں مؤجزن زورِ
غنائیت نے مایوس نہیں كی- شرقِ اوسط كی سیاست كے جنگل میں امید كے كمزور
كھونٹے سے بندھے دانشور تو اوبامہ كے لفظوں كے مدوجزر پر ڈول ہی گئے مگر
افریقہ اور شرقِ اوسط كے سنگم، انسانی تہزیب كے جنم گھر اور امریكہ كی
قاہرانہ قوت كے سامنے زیر نظر آتے قاہرہ میں كھڑے ہوكر دریائے نیل كی رطوبت
بھری دوپہر عملیت پسند اوبامہ عالمِ اسلام كو صرف ایك سادہ سی بات سمجھاتے
ہوئے دكھائی دئیے - امریكہ كے انداز (tactics) ضرور بدلے ہیں اطوار
(strategy) نہیں -
قرآنِ مجیدوكریم سے چار مرتبہ رجوع كرتے ہوئے، لسان العربی كے زبان زدِ عام
استعاروں كی مدد سے حسنی مبارك كی انتظامیہ كے چنیدہ، بتوں كی مانند جامد،
لیكن روبوٹ كی طرح تالیاں پیٹتے تین ہزار سے زائد حاضرین وناظرین كے سامنے
جنابِ اوبامہ نے پانچ دہائیوں سے اسلامی دنیا میں روبہ عمل امریكی پالیسی
خوبصورت لفظوں میں دہرانے كے علاوہ ایك احسان اور كیا - عرب حكمرانوں كو
خصوصاً اور مسلم حكمرانوں كو بالعموم انھوں نے جمہوریت كے تمام ڈھكوسلوں كے
اظہار بھی سے آزاد كردیا - جنابِ اوبامہ كا اعلان ان ہی كے الفاظ میں- ذرا
غور سے پڑھئے -
"I know there has been controversy about the promotion of democracy in
recent years, and much of this controversy is connected to the war in
Iraq. So let me be clear: no system of government can or should be
imposed upon one nation by any other."
لیكن جمہوریت كے قیام كیلئے ڈالے جانے والے دباؤ سے آزادی مفت نہیں عطا كی
گئی - نقد سودا تھا لہٰذا قیمت بھی جنابِ اوبامہ نے قاہرہ میں كھڑے ہو كر
ہی طلب كرلی - یہ جملے ادا كرنے سے چند لمحے قبل انھوں نے مسلم حكومتوں كو
مخاطب كر كے فرمایا -
"America will defend itself respectful of the sovereignty of nations and
the rule of law. And we will do so in partnership with Muslim
communities which are also threatened. The sooner the extremists are
isolated and unwelcome in Muslim communities, the sooner we will all be
safer."
دوسرے لفظوں میں اوبامہ نے اپنے پیش رو جارج بش كی طرح یہ فرمایا كہ مسلم
حكمرانوں كو اپنے ملكوں میں مغربی استعمار كے خلاف مزاحمت كا جذبہ ركھنے
والوں كو القاعدہ یا طالبان كی قِسم كا كوئی نام دینا ہوگا اور ان كا صفایا
بھی كرنا ہوگ-
كاش جنابِ اوبامہ ایسا ہی كوئی مشورہ اسرائیلی انتہا پسندوں كے بارے میں
اسرائیلی حكمرانوں كو بھی دے سكتے - كیا جنابِ اوبامہ ایسا ہی كوئی مشورہ
بھارت كے انتہاپسند حكمرانوں كو بھی دے سكیں گے؟ انھیں معلوم تو ہوگا كہ
مسلم دنیا میں انتہاپسندی كے سارے چشمے اسرائیل كے ناجائز وجود اور
اسرائیلی مظالم كی امریكی اور برطانوی سرپرستی سے ہی پھوٹتے ہیں- اور بھارت
میں اقلیت نہیں بلكہ ملك كی دوسری بڑی اكثریت دِلت اور تیسری بڑی اكثریت
مسلمان صدیوں سے برہمن انتہا پسندوں كے بدترین مظالم اور انتہاپسندانہ نسلی
تعصب كا شكار ہیں-
سوال یہ اٹھ رہا ہے كہ جنابِ اوبامہ نے قاہرہ كی تقریر میں پانچ دہائیوں سے
اسلامی دنیا كے بارے میں روبہ عمل امریكی پالیسی خوبصورت لفظوں میں دہرانے
كے علاوہ اور كیا كہا ؟ ایك جواب یہ ہوسكتا ہے كہ اوبامہ كی نظریں قاہرہ
میں كھڑے ہو كر شرقِ اوسط سے پرے، بہت دور دیكھ رہی تھیں- بہت ہی دور-
كیا باراك اوبامہ كے خطاب كا مقام اور دن منتخب كرنے والے یہ نہیں جانتے
تھے كہ امریكی صدر كی تقریر كے چند گھنٹوں كے بعد ہی لبنان میں قومی
انتخابات ہونے والے ہیں- كیا انھیں یہ معلوم نہ تھا كہ اوبامہ كے خطاب كے
چند ہی گھنٹوں بعد برطانیہ میں یورپی پارلیمانی انتخابات كے ممبروں كا چناؤ
شروع ہوجائیگا اور پھر یہ بھی ان سے پوشیدہ تو نہ تھا كہ اوبامہ كے خطاب كے
ایك ہفتے بعد ایران كے صدارتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں؟ كیا اوبامہ كے
عالمِ اسلام سے خطاب كی تاریخ اور جگہ ایك سے زیادہ مرتبہ تبدیل نہیں كئے
گئے؟ لگتا یہ ہے كہ اوبامہ كے قدم قاہرہ میں تھے مگر نظریں اور نشانہ كہیں
اور تھے- مبصرین اب یہ سمجھ رہے ہیں كہ اوبامہ كے پاس بیروت، لندن اور
تہران كے لئے كچھ ایسی اہم باتیں تھیں جو انھوں نے 4 جون كی دوپہر قاہرہ
میں كھڑے ہوكر كرنا چاہی تھیں -
پہلے لبنان كی بات كرتے ہیں- جنگ، غربت اور افلاس، سے بے حال نسلی اور مذ
ہبی تقسیم سے پارہ پارہ لیكن اسرائیل كے سامنے سینہ سپر لبنانی مسلمان كے
عزائم كو توڑنے كیلئے اوبامہ نے ڈھٹائی سے ایك پرانی چال چلی - وہی بات
دہرائی جو ماضی میں بھی امریكی حكمران كہتے رہے ہیں-
"America's strong bonds with Israel are well known. This bond is
unbreakable. It is based upon cultural and historical ties, and the
recognition that the aspiration for a Jewish homeland is rooted in a
tragic history that cannot be denied."
اور لبنانی مسلمانوں كو یہ بھی بتا دیا كہ
"Resistance through violence and killing is wrong and does not succeed."
گویا اوبامہ نے لبنانی عوام كو جتا دیا دیا كہ چاہے وہ جون كے لبنانی
الیكشن میں كوئی بھی كامیاب ہو، امریكہ اسرائیل كا محافظ اور نگہبان ہے اور
رہے گا - اس پیغام كا فائدہ حِزب اللَلہ مخالف سیاسی جماعتوں كو كیسے ہوا ؟
براہِ كرم یہ جاننے كیلئے لبنان كے حالیہ الیكشن كے نتائج ملاحظہ كر لیجئے-
یہ اور بات ہے كہ حِزب اللَلہ بہت سخت جان ثابت ہوئی اور اس نے اپنی ساری
نشستیں دوبارہ جیت لیں-اوبامہ كے قافیے پر لبنانی عوام كی غزل آپ نے ملاحظہ
فرما لی آئیے اب دیكھتے ہیں كہ لندن كا قاہرہ كی تقریر سے كیا تعلق ہے-
سابق امریكی صدر بش (جونیئر) كے دور میں یورپ میں باالعموم اور برطانیہ میں
بالخصوص امریكہ كی اخلاقی اور سیاسی ساكھ كا جنازہ نكل گیا تھ- یورپ میں
بہت سارے سیاستدان امریكہ سے الگ ہٹ كر یورپ كی انفرادی حیثیت منوانے كی
راہ پر چل پڑے تھے- اپنی قدیم سیاسی اور اخلاقی اقدار پر فخر كرنے والی
یورپی اقوام امریكہ كے سیاسی اثر سے نكل كر اپنی علیحدہ سیاسی شناخت كی
تشكیل اور تعمیر پر زور وشور سے غور كرنا شروع كرچكی تھیں - 4 جون كی دوپہر
قاہرہ میں كھڑے ہوكر اوبامہ نے انھیں امریكہ كی انسان دوست اخلاقی اقدار
اور منصفانہ سیاسی روش كی یقین دہانی كرانے كی كوشش كی - یہ 4 جون سے7 جون
تك ہونے والے یورپی پارلیمانی یونین كے الیكشن میں الیكشن سے چند گھنٹے
پہلے امریكہ مخالف قوتوں كے اثرات كم كرنے كی آخری كوشش تھی - اسی لئے
یورپی اقوام كو مخاطب كر كے (مسلمانوں یا عربوں كو مخاطب كركے نہیں )
اوبامہ نے عراق پر حملے پر تأسف كا (پشیمانی كا نہیں) اظہار كیا -
افغانستان پر حملے كے جواز كو بھی اوبامہ نے بہتر انداز میں دہرایا اور
گوانتانامو كے اذیت خانے كو بند كرنے كی بات بھی دہرائی اس طرح اوبامہ نے
یورپی پارلیمانی یونین كے الیكشن میں امریكہ كی بہتر تصویر پیش كرنے كی
كوشش سے امریكہ مخالف قوتوں كو ایك دھچكا لگانے كی بھرپور كوشش كی - امریكہ
مخالف قوتوں كو یورپ میں ڈیگال پرست كہا جاتا ہے- كسی غلط فہمی میں نہ رہئے
گ- مستقبل كے امریكہ كی صورت گری یورپ میں ڈیگال پرست ہی كرینگے - یورپی
پارلیمانی یونین كے الیكشن كے نتائج عالمِ اسلام اور عالمی سیاسی انتظام كے
حوالے سے امریكہ اور یورپ میں ہم آہنگی پیدا كرنے كے حوالے سے خصوصی اہمیت
ركھتے تھے- اس موضوع پر یورپ كا میڈیا بہت كچھ لكھ رہا ہے -7 جون كو مكمل
ہونے والے یورپی پارلیمانی یونین كے الیكشن میں مضبوط اور امریكے نفوذ سے
آزاد یورپی یونین كے حامیوں كی شكست ہی میں امریكہ كی عافیت پنہاں تھی اور
4 جون كی دوپہر قاہرہ میں كھڑے ہوكر اوبامہ ان ہی نتائج كے حصول كی كو شش
كر رہے تھے-
اور اب آخر اوبامہ كی تقریر اور ایران كے الیكشن پر بات كرتے ہیں-جب اوبامہ
نے 1953 میں ایران میں ( مقبول اور منتخب وزیرِاعظم مصدق كا نام لئے بغیر)
ایك منتخب حكومت كے سی آئی اے كے ہاتھوں خاتمے پر افسوس كا اظہار كیا تو
بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی مگر جب انھوں نے مسلم دنیا كے ساتھ نئی شروعات
اور مسلم ممالك مں خواتین كے حقوق كی بات كی تو ان كا اصل مدعا واضح ہوگی-
ایران كی حكومت، ایرانی عوام اور ایرانی نیوكلر پروگرام امریكی اور مغربی
استعمار كیلئے پچھلے 32 سالوں سے ایك ڈراؤنا خواب بنے ہوئے ہیں- اب تك
ایران كو باہر سے كمزور كرنے كی ہر امریكی كوشش بری طرح ناكام ہوكر امریكی
وقار اور جلال كی پامالی كا باعث ہی بنی ہے- امریكی پالیسی ساز یہ بات
سمجھتے ہیں كہ روس كی طرح ایران كی قوت كا توڑ بھی ایران كے اندر ہی تلاش
كرنا پڑے گ- 4 جون كی دوپہر قاہرہ میں كھڑے ہوكر اوبامہ نے ایران كے معاشرے
كو اندر سے نرم (Galvanize) كرنے كی كوشش كی تھی - كسی بھی اسلامی معاشرے
میں خواتین كے حقوق كے حوالے سے اختلافی مباحث پیدا كرنا اور اسلام پسند
سیاستدانوں كو پریشان كرنا شاید بہت مشكل نہیں ہے اور اوبامہ نے ایسا ہی
كرنے كی ایك كامیاب كوشش كی تھی- ایران كے حالیہ انتخابی نتائج شاید
اتفاقاً اوبامہ كی جزوی اور وقتی كامیابی كا مژدہ سنا رہے ہیں-
تو 4 جون كی دوپہر قاہرہ میں كھڑے ہوكر اوبامہ نے قافیہ دیا اور جواباً
بیروت، لندن اور تہران سے غزلیں آنا شروع ہو گئیں -
سوچنے والے سوچتے رہے اور پوچھتے رہے كہ كیا اوبامہ قاہرہ تك صرف بیروت،
لندن اور تہران كے عوام سے باتیں كرنے آئے تھے یا اوبامہ كے پاس عالمِ
اسلام كیلئے بھی واقعی كوئی پیغام تھا ؟ ان دو سوالوں كے جوابات كیلئے
انھیں امن كی فاختاؤں جیسی دانش ركھنے والے تبصرہ نگاروں اورخوش گمان
جواریوں جیسے حكومتی اہلكاروں كے پاس چلتے ہیں - وہ ان دو سوالوں كے جوابات
ضرور دیں گے- كہیں نہ كہیں سے ڈھونڈھ كر- اوبامہ كی لمبی سی تقریر میں كچھ
تو تھا نا آخر-
جماعتِ اسلامی كے امیر جناب سید منور حسن نے اس تقریر پر فوری اور برجستہ
تبصرہ كرتے ہوئے اسے كسی بے عمل پادری كا وعظ قرار دیا اور مرحوم حقانی
صاحب نے اس تقریر سے خود بھی امیدیں وابستہ كرلیں اور اپنے قارئین كو بھی
اس موضوع پر اپنی تحریروں سے پر امید كر ڈال- ان دونوں حضرات كے علیحدہ
علیحدہ سے ردعمل نے مجھے اچھی طرح یہ بات سمجھا دی كہ مرحوم حقانی صاحب
جماعتِ اسلامی كے ساتھ كیوں نہ چل سكے - |