ترکی اور جا وید چوہدری
(Tahir Afaqi, Faisalabad)
جا وید چوہدری کا کالم “پاکستان
کے اتاترک کا انتظار”کے جواب میں۔
خلافت عثمانیہ 596 سال تک قائم رہی۔ تین براعظموںپے بلا شرکت غیرے حکمرانی
کرنے والی اس عظیم حکومت میں کچھ تو خصوصیات ہو نگی جس کے باعث وہ دنیا پے
راج کرتی رہی ۔ نہیں تو یورپ جس کی ترقی کی چمک دھمک جو ہماری آنکھوں کو
خوب خیرہ کرتی ہے اور وہاں کا سیکولر جمہوری نظام جوہمارے خوابوں کی جنت ہے
محض دوسو سال بھی دنیا پے حکومت نہ کر سکی اور اب گھر بیٹھ کر غریب اور
کمزور ملکوں کو لوٹ رہے ہیں جس پے چاہےں شب خون مار کر لاکھوں زندگیوں کو
برباد کر دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہاں اگر کوئی اپنے گھر کی حفاظت
کے لیے ہتھیار اٹھائے وہ دہشت گرد ضرور ہے ۔
خلافت عثمانیہ جتنا عرصہ مضبوطی سے قائم رہی یہ یکسر ابن خلدون کے فلسفے کی
استثناءمیں سے ہے”ہرعروجےرا زوال است ” کے مصداق خلافت عثمانیہ کو بھی زوال
کا مزہ چکھنا پڑا ۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اتنی بڑی اور عظیم سلطنت کی تباہی
کا سبب صرف ایک مذہبی طبقہ کو ہی قرار دیناسراسر زیادتی اور جانبداری نہیں
تو اور کیا ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں کے سامنے تو تاریخ ایک
دسترخواں کی مانند ہے جو جی چاہااٹھا کرچبا لیا۔ہر قوم کے زوال کی بے شمار
وجوہات ہوتی ہیں لیکن تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم کے زوال
کی صرف ایک ہی وجہ ہو۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کی ایک وجہ ملاءحضرات ہو سکتے
ہیں مگر مکمل سلطنت کا زوال ملاءحضرات کی بدولت نہیں ان میں لبرل حضرات کا
بھی بہت بڑی حد تک ہاتھ ہے۔
جنگ عظیم اول میں ترکی کی شکست کی وجہ ملاءنہیں بلکہ وہ لبرل اور سیکولر
نوجوانوں کا طبقہ تھا جو” ینگ ترک تحریک” کے بانی تھے اور 1908ءمیں سلطان
عبدالحمید دوم کے خلاف بغاوت برپا کرنے میں پیش پیش تھے۔ سلطان عبدالحمید
دوم کو معزول کرکے جب حکومت ان کے ہاتھ میں آئی تو کرپشن کی بد ترین
داستانیں رقم کرکے نہ صرف پہلی جنگ عظیم میں شکست کا سبب بنے بلکہ مشکل وقت
میں ملک سے بھاگ کر یورپ میں اپنے آقاﺅں کی گود میں عیش و عشرت کی زندگی
بسر کی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مصطفے کمال نے زوال پزیر ترکی کو سنبھالادیا اور
ایک مرتبہ ترکی کو پھر اپنے پاﺅں پے کھڑا کیا۔لیکن میں پوچھتا ہوں کیا اس
کے دور میں اتنی آزادی تھی کہ آج جاوید چوہدری جو کچھ لکھ سکتا ہے وہ کیا
اس دور میں لکھ سکتا تھا ؟ کیا اس دور میں عورت کو اپنی مرضی کے مطابق ایسے
زندگی گزارنے کی اجازت تھی جیسا کہ آج ہے ؟کیا اس دور میں مذہب پر ذاتی سے
اجتماعی زندگی پر پابندی نہ تھی؟ کیا مذہب کے نام لیوا اور کمیونسٹ حضرات
کو جیلوں میں ڈال کر بغیر مقدمہ چلائے سزائیں نہیں دی گئیں ؟ کیا مصطفے
کمال کے پیدا کیے ہوئے مخصوص سیکولر طبقے نے 2003 ءتک بلاشرکت غیرے ملک کو
لوٹ کر دیوالیہ کے قریب نہیں پہنچایا ؟ کیا 70ءکی دہائی میںقبرص کو بچانے
کے لیے وہ آپ کے ملک کی فوج اور سپورٹ کے محتاج نہ تھے؟ کیا 2007 ءتک فوج
ملک کی سیاہ و سپید کی مالک نہیں رہی ؟
جا وید چوہدری صاحب آپ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں آپ کس سیکولر ازم کے
حمائیتی ہیں ؟ اس کی کہ جس میں کسی کو کوئی آزادی حاصل نہ ہو ؟ اس کی کہ جس
میں کوئی قانون نہ ہو ؟ا س کی کہ جس میں کرپشن ہی کرپشن ہو ؟ا س کی کہ جس
میں آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر نہ کر سکیں ؟ ا س کی کہ جس میں ایک
طبقہ کی اجارہ داری ہو اور وہی سیاہ و سپید کے مالک ہوں ؟ جن کی کوئی
اخلاقیات نہ ہو ۔ پیسہ اور طاقت جن کا مذہب ہو ۔ شراب اور شباب جن کی
اخلاقیات ہو ؟
اس میں کوئی شک نہیں کے ملائیت اور پاپائیت دنیا کے لیے ایک ناسور کی ہے
اور اسلام میں تو اس کی بالکل ہی گنجائش نہیں ۔ لیکن آفرین ہے آپ پے ۔ ایک
برے طبقے کی اصلاح کی بجائے دوسرے برے ترین طبقے کو لانا چاہتے ہیں ۔۔۔حیرت
ہے ۔۔۔۔ ڈاکٹر کا کام جسم کے فاسدہ حصے کا علاج کرنا ہوتا ہے نہ کہ عضو کاٹ
کر کوئی بےکا ر عضو لگانا ۔جا وید چوہدری صاحب قوم کو اس وقت اصلاح کی
ضرورت ہے نہ کے سزا کی۔اس دھرتی پر لیڈر پیدا کریں نہ کہ دنیا کے لیڈروں کو
یہاں لائیں۔ |
|